نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حافظ نور رضا اور گردے کی کہانی



حافظ نور رضا اور گردے کی کہانی

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(ایم اے ماس کمیونیکیشن )

انسان کے جسم کا ہرہر جُزجسم قدرت کا عظیم شاہکار ہے ۔میں چونکہ شعبہ طب سے وابستہ ہوں نیز biologyكا استاد بھی ہوں ۔چنانچہ ایسے میں مجھے انسانی زندگی اور انسان جسم کو studyكرنے کا بخوبی موقع ملا۔لیکن یہ معلومات میرے لیے علمی اثاثہ توتھی لیکن شاید بیماریوں کے بارے  روح میں اتر کر سمجھنے کا وہ خاص جذبہ نہ تھا ۔لیکن جب میرے ابو جان کو بڑی آنت کا کینسر ہواتو میں نے اس مرض پر کوشش کی کہ کام کروں لوگوں کو شعور دوں کیوں کہ اس بیماری کی وجہ سے میرے عظیم بابا مجھ سے جُداہوگئے ۔پھر زندگی میں کئی موڑ آئے جہاں میں نے میڈیا فیلڈ اور ٹیچنگ چھوڑ کر بحثیت ڈاکٹر ہی کام کرنے کا فیصلہ کیا لیکن اپنے ان ارادوں پر فقط رسم ہی حد تک قائم رہ سکاجو کہ کسی طور پر بھی درست نہ تھامیں ایک نرم مزاج اور حساس طبیعت انسان ہوں مجھے محسوس ہوتاہے کہ میں دکھیاروں ،بیماروں کے لیے ایک مشفق معالج و مسیحابن سکتاہوں ۔


اللہ کریم مجھےاخلاص کے ساتھ اپنے بندوں کی خدمت کا شرف عطافرمائے ۔

23اگست 2023بروز جمعہ کی بات ہے کہ جب میرے بیٹے کو مثانے میں تکلیف ہوئی ۔میں اسپتال لے کر گیالیکن جنرل ٹریٹمنٹ کے بعد افاقہ نہ ہواچائلڈ اسپشلسٹ کو چیک اپ کروایا لیکن وہی رسمی جواب ڈرپ انجیکشن لگانے کالیکن معالج ٹھیک سے اس کی تشخیص نہ کرسکا۔ہم ماں باپ رات بھر اسپتال کے دھکے کھاتے رہے ۔یہ معاشرے کا وہ شخص ہے جو خود بھی معالج ہے سوسائٹی میں کچھ نہ کچھ قد بھی رکھتاہے ایک عامی فرد کے ساتھ نہ جانے کیا گزرتی ہوگی ۔

بلکہ ایک پوائنٹ وہ بھی آیاکہ میری جیب جواب دے چکی تھی اور کچھ ٹیسٹ باقی تھی ریسپشن والے نے صاف منع کیا۔ایک بات کی اس وقت روح تڑپ گئی تھی ۔

میں شاید یہ مضمون نہ لکھتالیکن اس روح کو ہلادینے والے والے نظام سے آگاہ کرنا ضروری ہے خیر جیسے تیسے علاج کی ابتداہوئی ۔پھر میں نے علامت سے اندازہ لگایا کہ میرے بیٹے کے کڈنی میں پرابلم  urineٹھیک سے پاس نہیں ہورہا۔بیٹا حافظ نور رضا بے بس تڑپتے تڑپتے رات کاٹی ۔پھر ایس آئی یوٹی لے کر گیا۔

قارئین :

آپ کے اندر اتنی اخلاقی جرات ہونی چاہیے کہ آپ کسی کی کوشش اور محنت پر اُسے داد دیں ۔میں ڈاکٹر ادیب رضی کو سلیوٹ کرتاہوں جنھوں نے اس تھرڈ ورلڈ کنٹری کے نادار و بے بس انسانوں کے لیے اتنا بڑا کام کیا۔اس اسپتال میں پورا نظام ہی بہت بہترین ہے ۔میرے بیٹے نوررضا کو گردے میں اور مثانے میں پتھری کی تشخیص ہوئی ۔بہت ہی مشفق سرجن ڈاکٹر صاحبہ  نے پوری یکسوئی توجہ سے میرے بیٹے کی ریپورٹس سے کیس ٹیکنگ کی اور مجھے اپریشن کی پوزیشن بتانے کے بعد میرے بیٹے کو ادویات کے استعمال کا کہالیکن اس پورے پراسس میں میں نے ہر قدم پر اسٹاف کو بہت مہربان پایا۔لیکن اسپتال میں گردے کے مرض میں بچے بوڑھے جوان ،مرد و زن کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آنے لگا۔

سرزمین پاکستان پر جینے والے یہ اللہ کہ بندے پانی ملتانہیں جہاں ملتاہے وہاں اتنا آلودہ کہ گردے تو پتھری کا مرکز بن گئے ۔تڑپتے بلکتے انسان میرے اللہ تو کریم ہے ہم تیرے عاجز بندے ہیں ۔کرم فرمادے ۔

گردے قدرت کا عظیم عطیہ اور ہماری باڈی میں فلٹر پلانٹ ہیں ۔گردے ہمارے جسم میں موجود زہریلے مادوں اور فضلات کو فلٹر کرکے انہیں خارج کرتے ہیں۔ یہ عمل زندگی کے لیے ضروری ہے اور اللہ کی طرف سے ہمیں یہ طاقت دی گئی ہے کہ ہم اپنی صحت کا خیال رکھ سکیں۔اللہ تعالیٰ نے گردوں کے ذریعے جسم میں پانی اور نمکیات کا توازن برقرار رکھا ہے، جو ہمارے جسم کے تمام افعال کے لیے ضروری ہے۔ یہ توازن ہمارے جسم کو صحت مند اور متوازن رکھتا ہے۔  گردے بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتے ہیں، جو دل اور خون کی نالیوں کی صحت کے لیے انتہائی اہم ہے۔ یہ بھی اللہ کی طرف سے دی گئی ایک بڑی نعمت ہے جو ہماری زندگی کو متوازن رکھتی ہے۔

قارئین:

اس مضمون میں میری کوشش ہوگی کہ میں آپ کو بچوں میں گردوں کی بیماری کے حوالے سے آگہی پیش کرسکوں ۔بچوں میں گردے کی بیماری آہستہ آہستہ سرائیت کرتی ہے جس پر والدین کو بے حد محتاط رہ کر دیکھناہوگا۔میں چونکہ اپنے بیٹے حافظ نور رضا کے معاملے میں غفلت برت چکاہوں میں نہیں چاہتاکہ کوئی اور نور رضا اس تکلیف سے گُزرے ۔آئیے بچوں میں گردے کی بیماری کے حوالے سے جانتے ہیں ۔

پیدائشی گردے کی بیماریاں:

ہائپوپلاسٹک گردے: Hypoplastic Kidney:

ایک یا دونوں گردے معمول سے چھوٹے ہوتے ہیں۔  

رینل ڈیسپلاسیا: Renal Dysplasia:

 گردے کی ساخت غیر معمولی ہوتی ہے۔  

 

Glomerulonephritis:

 گلومیرولی کی سوزش، گردوں کی فلٹرنگ یونٹس۔  

نیفروٹک سنڈروم: Nephrotic Syndrome:

پیشاب میں پروٹین کی ضرورت سے زیادہ کمی کی وجہ سے ایک حالت۔  

Hemolytic Uremic Syndrome (HUS):

ایک ایسی حالت جو گردے کی خرابی کا سبب بن سکتی ہے۔  

 

پیشاب کی نالی کے انفیکشن (UTIs): Urinary Tract Infections

پیشاب کی نالی کے انفیکشن گردے کے مسائل کا باعث بن سکتے ہیں۔  

گردے کی پتھری: Kidney Stones:

 سخت ذخائر جو گردے میں بنتے ہیں۔  

Wilms Tumor :

گردے کے کینسر کی ایک قسم۔  

بچوں میں گردے کی بیماری کی علامات: Symptoms

()آنکھوں، چہرے یا ٹخنوں کے گرد سوجن   ()بار بار پیشاب کرنا یا پیشاب کرنے میں دشواری   ()پیشاب میں خون   ()پیٹ یا کمر میں درد()تھکاوٹ   ()غریب بھوک   ()ہائی بلڈ پریشر   ()وزن میں کمی  

  • پانی کے دو گھونٹ، بچوں کی صحت کا قیمتی خزانہ ہیں۔
  • نمک کم، صحت زیادہ—بچوں کے گردے ہمیشہ جوان رہیں گے۔
  • صحت مند غذا، روشن مستقبل—بچوں کی صحت کا خزانہ۔
  • ہر مسکراہٹ کے پیچھے ایک صحت مند دل اور مضبوط گردے ہوتے ہیں۔
  • صفائی نصف ایمان—بچوں کے گردے محفوظ رہیں۔
  • متوازن وزن، خوشگوار زندگی—بچوں کے لیے بہترین تحفہ۔
  • خوشی اور صحت کا راز، ورزش کی عادت میں پوشیدہ ہے۔
  • بچوں کی مسکراہٹ میں، صحت مند گردوں کی روشنی چمکتی ہے۔
  • معصوم ہاتھوں کی حفاظت، آپ کی ذمے داری ہے—بچوں کے گردے محفوظ رکھیں۔
  • بچوں کی زندگی کا ہرا بھرا باغ—صحت مند گردے، محفوظ مستقبل۔
  • تشخیص اور علاج: Diagnosis and Treatment

    بچوں میں گردے کی بیماری کی تشخیص میں اکثر خون کے ٹیسٹ، پیشاب کے ٹیسٹ اور امیجنگ اسٹڈیز شامل ہوتے ہیں۔ اس میں دوائیں، غذائی تبدیلیاں، یا سنگین صورتوں میں، ڈائیلاسز یا گردے کی پیوند کاری  بطور علاج شامل ہو سکتی ہے۔  

    بچوں میں گردے کی بیماری ایک سنگین مسئلہ ہوسکتا ہے، لیکن اس کے بچاؤ کے لیے چند احتیاطی تدابیر اختیار کرنا اہم ہے۔ یہاں کچھ اہم احتیاطیں بیان کی جا رہی ہیں جو بچوں کو گردے کی بیماریوں سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔

    پانی کی مناسب مقدار۔۔۔صحت مند خوراک۔۔۔۔۔۔۔باقاعدہ ورزش۔۔۔ادویات کا استعمال۔۔بچوں کو انفیکشن سے بچائیں۔۔باقاعدہ طبی معائنہ۔۔خاندان بیماریوں پر نظرر کھیں۔متوازن وزن کا خیال رکھیں۔ذہنی دباؤ کا کم کرنا۔۔فوری علاج۔ان احتیاطی تدابیر پر عمل کرکے بچوں کو گردے کی بیماریوں سے بچایا جاسکتا ہے۔

    قارئین:

    اپنا اور اپنے بچوں کا خیال رکھیں ۔گاہے گاہے ڈاکٹر سے مشاورت کرتے رہاکریں ۔نوررضاکے معاملے میں یقیناَ َ مجھے غفلت کا سامنا رہاجس کی وجہ سے مجھے اتنی پریشانی سے گزرناپڑا۔اللہ کریم آپکو اور آپ سب کے نوررضاکو سلامت رکھے ۔میری کوشش ہوتی ہے جوبھی مفید معلومات ہوآپ پیاروں کو اس سے آگاہ کرتارہوں ،میری کوشش آپ کے لیے مفید ہوتومیری اور میری فیملی کے لیے عافیت کی دعاکردیجئے گا۔

    نوٹ:

    آپ طبی مشوروں ،کیرئیر کونسلنگ  کے لیے ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

    رابطہ نمبر:03462914283

    وٹس ایپ:03112268353/03042001099

      

    تبصرے

    اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

    بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

    بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

    درس نظامی اور مستقبل

    درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

    طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

       طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا