نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کرائے کی ماں/Surrogate Mother




کرائے کی ماں
    Surrogate Mother
اُس عورت کو کہتے ہیں، جو اپنا رحم اوربیضہ کسی غیر مرد کے نطفے کی افزایش کے لیے رضاکارانہ طور پر یا اجرت کے عوض پیش کرے۔ یہ عمل شرعاً اور اخلاقاً جائز نہیں ہے،حدیث پاک میں ہے:
عَنْ رُوَيْفِعِ بْنِ ثَابِتٍ الْاَنْصَارِيِّ، قَالَ: قَامَ فِيْنَا خَطِيْبًا، قَالَ: أَمَا إِنِّي لَا أَقُوْلُ لَكُمْ إِلَّا مَا سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللَّهِ يَقُوْلُ  يَوْمَ حُنَيْنٍ: قَالَ:لَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقِيَ مَاءُهٗ زَرْعَ غَيْرِهٖ،يَعْنِي: إِتْيَانَ الْحَبَالٰى،وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَقَعَ عَلَى امْرَأَةٍ مِنَ السَّبْيِ حَتّٰى يَسْتَبْرِئَهَا، وَلَا يَحِلُّ لِامْرِئٍ يُوْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَبِيْعَ مَغْنَمًا حَتّٰى يُقْسَمَ،  ترجمہ:’’رُوَیفع بن ثابت انصاری بیان کرتے ہیں: (ایک دن) ایک شخص نے ہمارے درمیان خطبہ دیتے ہوئے کہا: میں تمھیں وہی بات کہنے جارہا ہوں جو میں نے رسول اللہ ﷺ سے غزوۂ حنین کے موقع پر سنی ، آپؐ نے فرمایا: جو شخص اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ اس کا پانی (نطفہ) کسی غیر کی کھیتی (رحم) کو سیراب کرے، یعنی اسے حاملہ کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اُس کے لیے حلال نہیں ہے کہ وہ رحم پاک ہونے تک کسی جنگی قیدی عورت سے مباشرت کرے، اور جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے، اس کے لیے حلال نہیں ہے کہ تقسیم سے پہلے مالِ غنیمت میں سے کسی چیز کو فروخت کرے [کیونکہ مالِ غنیمت کی تقسیم سے پہلے اس میں دوسروں کے حقوق بھی شامل ہوتے ہیں]‘‘۔(سنن ابوداؤد: ۲۱۵۸)
اس حدیث مبارک کے مطابق اپنی منکوحہ کے علاوہ کسی دوسری اجنبی خاتون کی کھیتی کو سیراب کرنے سے مراد جنسی ملاپ یا دیگر طبّی طریقوں سے اُس کے رحم میںاپنامادّہ مَنویّہ پہنچانا ہےاور یہ عمل حرام ہے۔لہٰذا، جب بیوی کے رحم میں شوہر کے علاوہ کسی اور شخص کے جرثومے رکھے جائیں گے تو وہ ازروئے حدیث حرام ہوگا اور جب بیوی کے علاوہ کسی دوسری عورت کے رحم میں شوہر اور بیوی کا مادّہ مَنویّہ رکھاجائے گا، تب بھی وہ عورت غیر کی کھیتی ہے۔اس لیے اس کے رحم میں شوہرکے علاوہ کسی اور کا مادّہ مَنویّہ رکھنا ناجائز ہوگا ۔لیکن اس پر عمل زنا کی تعریف صادق نہیں آتی، البتہ یہ عمل واضح طور پر گناہ کا باعث ہےاورمعناً زنا ہے،کیونکہ اس سےاُس عورت کا حمل قرار پاسکتا ہے۔ جہاں تک بچے کے نسب کا تعلق ہے تو اس کا نسب، صاحبِ نطفہ کے ساتھ قائم نہیں ہوگااور نہ اس کی منکوحہ بیوی اس بچے کی ماں کہلائے گی۔ لہٰذا، شرعاً نہ تو یہ بچہ اُن کا وارث ہوگا اور نہ یہ دونوں بچے کے وارث بنیں گے۔بچے کی ماں وہی عورت کہلائے گی کہ جس کےبطن سےاُس نے جنم لیا ہے۔چنانچہ اللہ کا تعالیٰ کا ارشاد ہے:
    
۱-    اِنْ اُمَّہٰتُہُمْ اِلَّا اڿ وَلَدْنَہُمْ۝۰ۭ ترجمہ:’’اور ان کی مائیں تو وہی ہیں، جنھوں نے انھیں جنا ہے (المجادلہ۵۸:۲)‘‘۔
    
۲-     حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ كُرْہًا وَّوَضَعَتْہُ كُرْہًا۝۰ۭ ترجمہ: ’’اس (یعنی انسان کو) اُس کی ماں نے مشقت سے پیٹ میں اُٹھائے رکھا اور مشقت ہی سے جنا (الاحقاف ۴۶: ۱۵)‘‘۔
پہلی آیت سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حقیقت میں انسان کی ماں وہی عورت ہے، جس نےاُسے جنم دیا ہے،اور دوسری آیت میں مزید صراحت کے ساتھ فرمایا :’’ انسان کی ماں وہ عورت ہے، جو حمل کو پیٹ میں رکھتی ہے اور پھر اسے جنتی ہے‘‘۔
اس کی مزید وضاحت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والےاس مشہور واقعے سے ہوتی ہے: حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کے بھائی عُتبہ نے مرتے وقت اپنے بھائی سعد کو یہ وصیت کی کہ زَمعہ (جوکہ اُم المومنین حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کےوالدتھے) کی لونڈی کا بیٹا عبدالرحمٰن میرے نطفہ سے ہے، لہٰذا تم اس کو لے لینا۔ چنانچہ سعد رضی اللہ عنہ جب بچہ کو لینے گئے تو زَمعہ کےبیٹےعبدکہنے لگے کہ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی لونڈی کا بچہ ہے۔پھر یہ مقدمہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش ہوا۔چنانچہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا روایت فرماتی ہیں:
 كَانَ عُتْبَةُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ عَهِدَ إِلٰى أَخِيْهِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ أَنَّ ابْنَ وَلِيْدَةِ زَمْعَةَ مِنِّيْ فَاقْبِضْهُ، قَالَتْ: فَلَمَّا كَانَ عَامَ الفَتْحِ أَخَذَهٗ سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ وَقَالَ: ابْنُ أَخِي قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَامَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ، فَقَالَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَتَسَاوَقَا إِلَى النَّبِيِّ ، فَقَالَ سَعْدٌ: يَا رَسُوْلَ اللَّهِ! ابْنُ أَخِيْ كَانَ قَدْ عَهِدَ إِلَيَّ فِيْهِ، فَقَالَ عَبْدُ بْنُ زَمْعَةَ: أَخِي، وَابْنُ وَلِيْدَةِ أَبِي، وُلِدَ عَلٰى فِرَاشِهٖ، فَقَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ:هُوَ لَكَ يَا عَبْدُ بْنَ زَمْعَةَ!، ثُمَّ قَالَ النَّبِيُّ:اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ، ثُمَّ قَالَ لِسَوْدَةَ بِنْتِ زَمْعَةَ  زَوْجِ النَّبِيِّ : اِحْتَجِبِيْ مِنْهُ لِمَا رَأٰى مِنْ شَبَهِهِ بِعُتْبَةَ فَمَا رَآهَا حَتّٰى لَقِيَ اللهَ  ، ترجمہ:’’ عُتبہ بن ابی وقاص نے اپنے بھائی سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو یہ وصیت کی: ’’زَمعہ کی باندی کا بیٹا میرے نطفہ سے ہے ،تم اس پر قبضہ کرلینا‘‘۔ حضرت عائشہؓ نے کہا:’’ جب فتح مکہ کا سال آیا تو حضرت سعد بن ابی وقاص نے زَمعہ کے بیٹے کو لے لیا اور کہا: یہ میرا بھتیجا ہے اور میرے بھائی نے مجھے اس کی وصیت کی تھی‘‘۔ پھر حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہا:’’ یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے اور اس کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ پھر ان دونوں نے اپنا مقدمہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا۔ حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یارسولؐ اللہ! یہ میرا بھتیجا ہے ،اس کے متعلق عتبہ نے مجھے وصیت کی تھی ‘‘۔ حضرت عبد بن زَمعہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یہ میرا بھائی ہے اور میرے باپ کی باندی کا بیٹا ہے، ان کے بستر پر پیدا ہوا ہے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ اے عبد بن زَمعہ! وہ تمھارا (بھائی) ہے‘‘۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر پیدا ہوا اور زانی کے لیے پتھر ہے‘‘۔ پھر آپؐ نے اُمُّ المومنین سَودہ بنت زَمعہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا: ’’سَودہ! تم اس سے پردہ کرنا‘‘، کیونکہ آپ نے اس لڑکے میں عُتبہ کی مشابہت دیکھی تھی‘‘۔ پھر زَمعہ کے بیٹے نے حضرت سَودہ کو نہیں دیکھا، حتیٰ کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاملا‘‘۔(صحیح البخاری:۲۰۵۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ’’ اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاھِرِ الْحَجَر‘‘ کے شرعی اصول کے تحت بچے کی ولدیت کے بارے میں فیصلہ عَبد بن زمعہ کے حق میں دیا کہ وہ ’’تمھارا بھائی ہے، اور چونکہ آپؐ کو اللہ تعالیٰ نے حقائق پر بھی مطلع فرمایا تھا ،اس لیے آپؐ نے حضرت سودہ بنتِ زمعہ رضی اللہ عنہا کو حقیقتِ واقعہ کی بنا پر پردے کا حکم فرمایا۔
علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالیٰ لفظِ ’فِراش‘ کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَـوْلُهٗ: اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ: أَيْ لِمَالِكِ الْفِرَاشِ وَهُوَ السَّيِّدُ أَوِ الزَّوْجُ  ، ترجمہ: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’بچہ فِراش کا ہے‘‘ سے مراد ’مَالِکُ الْفِرَاش‘ ہے، یعنی وہ عورت جس سے شریعت نے کسی مرد کے لیے مباشرت کو حلال قرار دیا ہے اور وہ کسی کی منکوحہ بیوی ہے یا باندی ‘‘۔(فتح الباری، ج۱، ص۱۶۶)
علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ تعالیٰ اس کی شرح میں لکھتے ہیں:
قَوْلُهٗ :اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ : أَيْ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ، إِنَّمَا قَالَ: ذٰلِكَ عَقِيْبَ حُكْمِهٖ لِعَبْدِ بْنِ زَمْعَةَ إِشَارَةٌ بِأَنَّ حُكْمَهٗ لَمْ يَكُنْ بِمُجَرَّدِ الْاِسْتِلْحَاقِ بَلْ بِالْفِرَاشِ، فَقَالَ: اَلْوَلَدُ لِلْفِراشِ ،وَأجْمَعَتْ جَمَاعَةٌ مِنَ الْعُلَمَآءِ بِاَنَّ الْحُرَّةَ فِرَاشٌ بِالْعَقْدِ عَلَيْهَا مَعَ  إِمْكَانِ الْوَطْءِ وَإِمْكَانِ الْحَمْلِ، فَإِذَا كَانَ عَقْدُ النِّكَاحِ يُمْكِنُ مَعَهُ الْوَطْءَ وَالْحَمْلَ، فَالْوَلَدُ لِصَاحِبِ الْفِرَاشِ لَا يَنْتَفِيْ عَنهُ أبَدًا بِدَعْوٰى غَيْرِهٖ وَلَا بِوَجْهٍ مِنَ الْوُجُوْهِ إِلَّا بِاللِّعَانِ ،ترجمہ: ’’رسول اللہ ﷺ کے فرمان’’بچہ فِراش کا ہے‘‘، سے مراد ’’صَاحِبُ الْفِرَاش‘‘ ہے۔ یہ ارشاد آپؐ نے عبدبن زَمعہ کا حکم بیان کرنے کے بعد فرمایا، یہ اس طرف اشارہ ہے کہ محض اِسْتِلْحَاق (یعنی کسی کے نسب کو اپنے ساتھ لاحق کرنے کے مطالبے)سے نسب ثابت نہیں ہوتا ، بلکہ فِراش سے ثابت ہوتا ہے ، آپؐ نے فرمایا:’’ بچہ صاحب فِراش کا ہے‘‘۔ علماء کی ایک جماعت کا اس پر اجماع ہے کہ آزاد عورت کا فِراش ہونا نکاح سے ثابت ہوتا ہے، جب کہ وطی کرنا اور حمل قرار پاناممکن ہو۔ پس جب اس امکان کے ساتھ نکاح منعقد ہو تو بچہ صاحبِ فِراش کا ہوگا۔ لعان کے سوا کسی غیر کے دعوے یا کسی اور سبب سے بچے کا نسب اُس سے منقطع نہیں ہوگا‘‘۔(عمدۃ القاری، ج۱۱، ص ۱۶۸)
علامہ غلام رسول سعیدی رحمہ اللہ تعالیٰ لکھتے ہیں: ’’اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اَلْوَلَدُ لِلْفِرَاش‘کے بعد فرمایا: لِلْعَاھِرِ الْحَجَر،’’بچہ اس کا ہے، جس کے بستر پر ہو اور زانی کے لیے پتھر ہے (یعنی نسبت ِ نسب سے محرومی) ‘‘۔ اس سے واضح ہوگیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو علم تھا کہ یہ بچہ زنا سے پیدا ہوا ہے، زَمعہ کے نطفے سے پیدا نہیں ہوا۔ اس کے باوجود آپ نے اس بچے کو زمعہ کے ساتھ لاحق کردیا۔ اس سے ظاہر ہوگیا کہ ثبوت نسب، صاحبِ نسب کے پانی اور اس کی وطی پر موقوف نہیں ہے ،بلکہ فِراش پر موقوف ہے ۔ جس کا فِراش ہوگا ،اس کا نسب ہوگا خواہ اس نے وطی کی ہو یا نہ کی ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام اعظم ابوحنیفہؒ نے فِراش ہونے کے لیے امکان وطی کی شرط نہیں رکھی (شرح صحیح مسلم، ج۳،ص۹۳۴)‘‘۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ بچے کا نسب صاحبِ فراش سے ثابت ہوگا، اور صاحبِ فِراش سے مراد یہ ہے کہ وہ عورت جس کے نکاح میں ہے۔اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زانی کے لیے پتھر ہے‘‘، یعنی ایسا صاحبِ نطفہ اُس بچے کی نسبتِ نسب کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ پس، جب بچے کا نسب صاحبِ فراش کے ساتھ لاحق ہوگا تو اس کی بیوی اس کی ماں قرار پائے گی اور اس عورت کا شوہر اس کا باپ قرار پائے گا، کیونکہ ثبوتِ نسب بھی شرعی ضروریات میں سے ہے اور اسی طرح دیگر رشتے قائم ہوں گے۔یہ مسئلہ کنواری ’مَزنیہ‘ ( جس سے زنا کیا گیاہو) کے بارے میں نہیں، بلکہ کسی کی منکوحہ کے بارے میں ہے۔
    
جاوید غامدی صاحب نے تواجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا بیضہ اور رحم فراہم کرنے والی عورت کو ’رضاعی ماں‘ قرار دیاہے، جب کہ حدیث نبویؐ میں تو اسے ’حقیقی ماں‘ ہی کا حکم دیا گیا ہے۔ رضاعی ماں تو اُسے کہتے ہیں کہ کسی کے ہاں بچہ پیدا ہوجائے اور پھر وہ بچہ ’مدتِ رضاعت‘ (یعنی ڈھائی برس) کے اندرکسی دوسری عورت کا دودھ پیے ،وہ ’رضاعی ماں‘ کہلائے گی۔ اُس کا شوہر بچے کا رضاعی باپ کہلائے گا اور اسی طرح دوسرے رضاعی رشتے بھی قائم ہوں گے۔ یہ شریعت میں کوئی عیب نہیں ہے۔ یہ شعار اسلام سے پہلے بھی عالمِ عرب میں رائج تھا اور اسلام نے اسے برقرار رکھا ہے اور اس میں نسب کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں رہتا۔
    
اگرجاوید غامدی صاحب کے بیان کیے ہوئے اصول کو قبولِ عام دے دیا جائے، تو آپ نے اِشکال نمبر۵میں جویہ لکھا ہے :’’اس کلام وبیان کے ساتھ یہ خدشہ موجود ہے کہ کل جاویدصاحب یہ بھی کہہ گزریں: ’’کمزور یا عدم بار آور سپرم رکھنے والا مرد، کسی دوسرے مرد یا دوست کا سپرم خرید کر یا تحفے میں لے کر، اپنی اہلیہ محترمہ کے ہاں میکانکی انداز سے منتقل کرواکے بچہ حاصل کرسکتا ہے، لیکن اس کا باقاعدہ اعلان کرنا ہوگا‘‘، اس کے وقوع کے امکان کو رَدّ نہیں کیا جاسکتا۔ جس طرح مغرب میں جنسی تسکین کے لیے مصنوعی اعضائے تناسل اور فرج کی دکانیں برسرِعام کھل رہی ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس شعبے کے لیے بھی ایجنسیاں کھل جائیں اورآگے چل کریہ باقاعدہ کاروبار کی شکل اختیار کرلے اور ایسی صورت میں کنواری دوشیزائیں بھی شوقیہ یا اُجرت پر اپنی خدمات پیش کرسکتی ہیں۔ شنید ہے کہ بھارت میں باقاعدہ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ طور پر یہ طریقہ رائج ہے۔ گویا انسان مرتبۂ انسانیت سے گر کر حیوانیت کے درجے میں اتر آئے گا اور معاشرے میں یہ عمل کسی عار کا سبب نہیں رہے گا۔ پس یہ شریعت کی تعلیمات سے دُوری اور اخلاقی زوال کی انتہا ہوگی۔
اگرکسی بیماری یا عارضہ کی وجہ سےشوہر عمل تزویج پر قادر نہ ہو ،یاعورت میں کوئی خرابی پائی جاتی ہو اور وہ اپنے شوہر کے ساتھ جنسی ملاپ کے ذریعے حاملہ ہونے کی صلاحیت نہ رکھتی ہوتومصنوعی عمل تولید یا ٹیسٹ ٹیوب بےبی کے ذریعے حقیقی شوہرکا جرثومہ اس کی اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرنا شرعاً جائز ہے۔ فقہائے اسلام پر اللہ تعالیٰ کروڑوںرحمتیں نازل فرمائے ،اُنھوں نے آج سےتقریباًایک ہزاربرس پہلے ایسے اُصول وقواعد بیان کردیےکہ جن سے کئی سو برس بعد پیش آنے والے مسائل حل ہوگئے ،حتیٰ کہ صحبت کے بغیرعورت کے حاملہ ہونے کی صورتوں کو بیان فرمادیا ۔محمدبن سَماعہ بیان کرتے ہیں : امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ (م:۱۵۰ھ) نے فرمایا:
إذَا عَالَجَ الرَّجُلُ جَارِيَتَهٗ فِيْمَا دُوْنَ الْفَرْجِ، فَاَنْزَلَ فَاَخَذَتِ الْجَارِيَةُ مَاءَهٗ فِي شَيْءٍ فَاسْتَدْخَلَتْهُ فِيْ فَرْجِهَا فِي حِدْثَانِ ذٰلِكَ فَعَلِقَتِ الْجَارِيَةُ وَوَلَدَتْ فَالْوَلَدُ وَلَدُهٗ وَالْجَارِيَةُ أُمُّ وَلَدٍ لَهٗ،ترجمہ:’’کسی شخص نے اپنی باندی کے ساتھ شرم گاہ کے علاوہ صحبت کی(یعنی بوس وکنار کیا) اور اُسے انزال ہوگیا ،پھر باندی نے اُس کے مادّہ مَنویّہ کو کسی چیز میں لے کر اپنی شرم گاہ میں داخل کرلیا اور اس سے وہ حاملہ ہوگئی اور اس نے بچہ جنا، تو بچہ اس کے مالک کا ہوگا اور وہ اُمِّ وَلَد قرار پائے گی‘‘۔(المحیط البرہانی، ج۹، ص۴۰۴، البحرالرائق، ج۴،ص ۲۹۲، رَدُّالْمُحْتَار عَلَی الدُّرِّالْمُخْتَار،ج۳، ص ۵۲۸)
آپ نے اُجرت کے عوض یا رضاکارانہ طور پر اپنا رحم پیش کرنے والی ماں کے حوالے سے پوچھا ہے:’’آج کے دور میں یہ مسئلہ آیا ہے کہ اگر ایک خاتون اپنے رحم میں جسمانی نقص کے سبب ماں نہیں بن سکتی تو کیا دوسری خاتون کو کرائے پر حاصل کر کے اس سے بچہ پیدا کرایا جاسکتا ہے؟ اس حوالے سے شریعت کی روشنی میں آپ کا موقف کیا ہے؟‘‘ دوسرا یہ کہ خاتون کسی جسمانی نقص میں مبتلا نہیں ہے ، لیکن وہ بچہ پیدا کرنے کی زحمت اٹھانے کے لیے آمادہ نہیں ہے اور زوجین باہمی اتفاقِ رائے سے دوسری خاتون کی خدمات حاصل کر کے بچہ پیدا کرواتے ہیں، کیا شریعت کی رُو سے یہ جائز ہے؟‘‘اس کا جواب یہ ہے کہ یہ عمل ناجائز اور حرام ہے،چنانچہ ڈاکٹر وہبہ زحیلی لکھتے ہیں:
اَلتَّلْقِيْحُ الصِّنَاعِي: هُوَ اِسْتِدْخَالُ الْمَنِيِّ لِرَحْمِ الْمَرْأَةِ بِدُوْنِ جِمَاعٍ. ،فَإِنْ كَانَ بِمَاءِ الرَّجُلِ لِزَوْجَتِهٖ، جَازَ شَرْعًا، إِذْ لَا مَحْذُوْرَ فِيْهِ، بَلْ قَدْ يَنْدُبُ إِذَا كانَ هُنَاكَ مَانِعٌ شَرْعِيٌّ مِنَ الْاِتِّصَالِ الْجِنْسِيِّ،وَأَمَّا إِنْ كَانَ بِمَآءِ رَجُلٍ أَجْنَبِيٍّ عَنِ الْمَرْأةِ، لَا زِوَاجَ  بَيْنَهُمَا، فَهُوَ حَرَامٌ، لاِنَّهٗ بِمَعْنَى الزِّنَا الَّذِيْ هُوَ إِلْقَاءُ مَآءِ رَجُلٍ فِي رَحْمِ امْرَأَةٍ لَيْسَ بَيْنَهُمَا زَوْجِيَّةٌ، وَيُعَدَّ هٰذَا الْعَمَلُ أَيْضًا مُنَافِيًا لِلْمُسْتَوَى الْإنْسَانِیِّ ، ترجمہ: ’’ مصنوعی عملِ تولید، یعنی صحبت کےبغیر مادۂ مَنویّہ کو عورت کے رحم میں داخل کرنا، پس اگر یہ عمل حقیقی شوہراپنی بیوی کےلیے اپنے مادّہ مَنویّہ کے ساتھ کرتا ہےتوشرعاً جائز ہے، بلکہ بعض اوقات جب بیوی سے صحبت کرنے میں کوئی شرعی مانع پایاجاتا ہوایسا کرنا مستحب ہے۔لیکن اگر یہ عمل کسی ایسےشخص کے مادۂ منویہ کے ذریعےکیاجائےجو عورت کے لیے اجنبی ہواور ان کے درمیان ازدواجی رشتہ نہ ہو،تو ایسا کرنا حرام ہے،اس لیے کہ یہ معنوی طورپرزنا ہے، کیونکہ عورت کے رحم میں ایسے شخص کا نطفہ پہنچایا جاتا ہے کہ ان دونوں کے درمیان زوجیت کا رشتہ نہیں ہوتا اور یہ عمل انسانی اَقدار کے بھی خلاف ہے‘‘۔(اَلْفِقْہُ    الْاِسْلَامِیْ وَاَدِلَّتُہٗ ،ج۴،ص ۲۶۴۹)
 
علامہ غلام رسول سعیدی اس مسئلے کی تحقیق کے لیے کہ ’’بچہ صاحبِ فِراش کا ہے ‘‘ فرماتے ہیں کہ  علامہ شمس الدین سرخسی (متوفّٰی ۴۸۳ھ) نے لکھا ہے:’’جس شخص کا آلہ تناسل کٹا ہوا ہو اوروہ جماع نہیں کر سکتا، ایسے شوہر کا نطفہ اگر جماع کے بغیر کسی اور ذریعے سے عورت کے رحم میں پہنچادیا جائے اور بچہ پیدا ہو جائے ،تو اُس بچے کا نسب اس عورت کے شوہر سے ثابت ہو گا‘‘ (شرح صحیح مسلم ،ج۳، ص ۹۳۸)۔
اس سلسلے میں گزارش ہے کہ بلاشبہہ رسول اللہ ﷺ نے نکاح کا مقصدافزایشِ نسلِ انسانی کو قرار دیا ہے ،چنانچہ حدیثِ مبارک میں ہے:
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، أَنَّ رَسُوْلَ اللَّهِ قَالَ:اَنْكِحُوْا أُمَّهَاتِ الْاَوْلَادِ، فَإِنِّي أُبَاهِيْ بِهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ  ، ترجمہ: ’’عبداللہ بن عمرو بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: بچہ پیداکرنے کی صلاحیت رکھنے والی عورتوں سے نکاح کرو، کیونکہ میں ان کے سبب قیامت کے دن (دوسری امتوں پر) فخر کا اظہار کروں گا‘‘۔(مسند احمد:۶۵۹۸)
آپؐ کا فرمان ایک ترجیحی امر ہے، ایسا ضروری نہیں ہے ۔آپؐ کی کئی ازواجِ مطہرات سے بچے پیدا نہیں ہوئے، لیکن اس کے باوجود آپؐ نے ان کو طلاق نہیں دی۔ اُم المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا آپؐ کی واحد کنواری بیوی تھیں اوران سے آپؐ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔
جہاں تک اولاد کاتعلق ہے تو ایک مسلمان کو اس بات پر پختہ یقین رکھناچاہیے کہ اولادعطا کرنے والی اور اس سے محروم رکھنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ہے۔اگر شادی کے بعد کچھ برسوں تک اولاد نہ ہو تو مایوس ہونےاور ناجائز ذرائع واسباب اختیار کرنے کے بجائے رجوع الی اللہ اور صبر و توکّل سے کام لینا چاہیےاور اس مقصد کےلیےجائز اسباب اختیار کرنا توکل کے منافی نہیں ہے۔ علاج کی ضرورت ہو تو جائز طریقوں سے علاج بھی کرنا چاہیے۔تمام اسباب اختیار کرنے کے باوجود اگر اولاد نہ ہو توتولید وتناسل کی صلاحیت کی طرح بانجھ پن بھی اللہ کی طرف سے ہے۔ اللہ پاک جسے چاہے اپنی حکمت کے تحت بانجھ کردیتا ہے،اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
لِلہِ مُلْكُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ۝۰ۭ يَخْلُقُ مَا يَشَاۗءُ۝۰ۭ يَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ اِنَاثًا وَّيَہَبُ لِمَنْ يَّشَاۗءُ الذُّكُوْرَ۝۴۹ۙ اَوْ يُزَوِّجُہُمْ ذُكْرَانًا وَّاِنَاثًا۝۰ۚ وَيَجْعَلُ مَنْ يَّشَاۗءُ عَــقِـيْمـًا۝۰ۭ اِنَّہٗ عَلِيْمٌ قَدِيْرٌ۝۵۰   ترجمہ: ’’آسمانوں اور زمینوں میںحکومت اللہ ہی کی ہے ،وہ جو چاہے پیدا کرتا ہے، جسے چاہتا ہے بیٹیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے (صرف) بیٹے عطا کرتا ہے اور جس کے لیے چاہتا ہے بیٹے اور بیٹیاں(دونوں )عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے بے اولاد رکھتا ہے، بے شک وہ بےحد علم والا بہت قدرت والا ہے‘‘۔(الشوریٰ ۳۲:۴۹-۵۰)
لیکن بانجھ پن کی صورت میں خلافِ شرع طریقے اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اللہ نے فرمایا ہے:
وَالَّذِيْنَ ہُمْ لِفُرُوْجِہِمْ حٰفِظُوْنَ۝۵ۙ اِلَّا عَلٰٓي اَزْوَاجِہِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُہُمْ فَاِنَّہُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَ۝۶ۚ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَاۗءَ ذٰلِكَ فَاُولٰۗىِٕكَ ہُمُ الْعٰدُوْنَ۝۷ۚ  ترجمہ:’’(وہ مومن کامیاب ہوگئے) جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے ہیں، ماسوا اپنی بیویوں کے یا وہ جو اُن کی مِلک میں ہیں، یقیناً وہ ملامت زدہ نہیں ہیں، پس جو کوئی ان کے علاوہ (اپنی خواہش کی تکمیل )چاہے گا، تو وہی لوگ(اللہ کی حدود سے) تجاوز کرنے والے ہیں ‘‘۔ (المؤمنون۲۳:۵-۷)
یہ اللہ کی طرف سے آزمایش بھی ہوسکتی ہے۔ ایک مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہرحال میں اللہ تعالیٰ کے احکام کو مقدم رکھے۔ شوہر اگر بیوی کے بے اولاد ہونے کی وجہ سے اولاد کا خواہش مند ہے ، تو شریعت نے اس کے لیے دوسرے نکاح کی گنجایش رکھی ہے۔ اگر بیوی لاوَلد ہے اور اولاد کی خواہش مند ہے ، تو اپنے کسی عزیز کے ایسے بچے کو ، جس کا اس کے ساتھ مَحرم کا رشتہ ہو، گود لے سکتی ہے ، لیکن گود لینے سے وہ اس کا یا اس کے شوہر کا وارث نہیں بنے گا، نہ وہ بچہ ان کا وارث بنے گا، البتہ اس کے حق میں وصیت کرسکتے ہیں، اور اسے ہبہ بھی کرسکتے ہیں، نیز اس کا نسب بھی اس کے حقیقی باپ کی طرف منسوب ہوگا۔
سب سے بڑی بات قناعت اور تقدیرِ الٰہی پر راضی رہنا ہے۔ اس کے لیے خلافِ شرع طریقے اختیار کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہم اسے اُس درجے کی شرعی ضرورت قرار نہیں دے سکتے، جس کی بابت یہ فقہی اصول بیان کیا گیا ہے :اَلضَّرُوْرَاتُ تُبِیْحُ الْمَحظُوْرَاتِ اور اَلضَّرُوْرَاتُ تُقَدَّرُ بِقَدْرِھَا، ترجمہ:’’ ضرورتیں ممنوعات کو مباح کردیتی ہیں اور ضرورت کو اُس کی حد کے اندر رکھا جائے‘‘۔ اُسے عام معمول نہ بنایا جائے۔جاوید احمد غامدی بہت سے معاملات میں تقریباً اباحتِ کُلّی کے قائل ہیں ۔ فقہ اور اصولِ فقہ تو دُور کی بات ہے ،وہ احادیثِ مبارکہ کی قید سے آزاد ہوکر قرآن کو سمجھنا اور بیان کرنا چاہتے ہیں ،جب کہ ہم اپنی بشری استطاعت کی حد تک اصولِ شرع کے پابند ہیں۔  
r
محترم ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی،سکریٹری شریعہ کونسل جماعت اسلامی ہند
اسلام نے اپنے ماننے والوں کو زندگی گزارنے کا طریقہ بتا دیا ہے۔ قرآن مجید میں بنیادی اقدار، احکام اور تعلیمات مذکور ہیں، جب کہ احادیث میں تفصیلات اور جزئیات بیان کر دی گئی ہیں۔ زمانہ گزر نے کے ساتھ اور بدلتے ہوئے حالات میں جو مسائل اور مشکلات پیش آتے ہیں، انھیں حل کرنے کے لیے علما و فقہا اور اسرارِ شریعت کے ماہرین نے اجتہاد کیا ہے، لیکن ان کا اجتہاد ہمیشہ دین کی بنیادی ا قدار، اساسی تعلیمات اور روح ِ شریعت سے ہم آہنگ رہا ہے۔ مگر ان کے برعکس جن حضرات نے اس سے ہٹ کر اجتہاد کرنے کی کوشش کی ہے اور ایسی آرا پیش کی ہیں جو اساسیات ِدین اور روح ِ شریعت سے متصادم ہوں انھیں امت میں قبول ِ عام حاصل نہیں ہوا ہے۔
    
انسان کی تخلیق کا معروف اور متداول فطری طریقہ یہ ہے کہ مرد اور عورت کے درمیان جنسی اتصال ہو۔ اس کے نتیجہ میں مرد سے منی (سپرم) اور عورت سے بیضہ(اووم) نکلتا ہے۔ دونوں کا اتصال و امتزاج عورت کے اعضائے تناسل میں سے قاذف (Fallopian Tube) کے باہری تہائی حصے میں ہوتا ہے۔ اس طرح عمل ِ بارآوری (Fertilization) انجام پاتا ہے۔ پھر وہ مخلوط نطفہ (Zygote) عورت کے رحم (یوٹرس)میں منتقل ہوجاتا ہے، جہاں دھیرے دھیرے نشوونما پاتے ہوئے ’جنین‘ کی شکل اختیار کر لیتا ہے۔ قرآن مجید میں اس پورے مرحلے کو بہت اختصار کے ساتھ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہےاِنَّا خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنْ نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ۝۰ۤۖ (الدھر۷۶: ۲ ) ’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا ہے‘‘۔
قرآن مجید صراحت کرتا ہے کہ مرد اور عورت کا جنسی اتصال صرف نکاح کی صورت میں جائز ہے (النساء۴:۱، ۳، ۲۵، ۱۲۷، النور۲۴: ۳۲، الاحزاب۳۳: ۴۹، الممتحنۃ ۶۰: ۱۰)۔ بغیر نکاح کے جنسی تعلق کو وہ’ زنا‘ سے تعبیر کرتا ہے ، خواہ اسے علی الاعلان قائم کیا جائے یا چھپ کر، اوراسے حرام قرار دیتے ہوئے اس کا ارتکاب کرنے والے کے لیے عبرت ناک سزا تجویز کرتا ہے(بنی اسرائیل۱۷:۳۲، النور۲۴: ۲)۔

خلاصہ یہ کہ ’جنین‘ کی تخلیق کے لیے تین چیزیں ضروری ہیں: مرد کا نطفہ، عورت کا بیضہ اور اس کا رحم۔ ساتھ ہی یہ بھی ضروری ہے کہ وہ مذکورہ بالا طریقہ اختیار کیا جائے، جس سے استقرارِ حمل ہو سکے۔ جنسی اعضاء میں کوئی نقص ہو، یا کسی وجہ سے مذکورہ طریقہ اختیار نہ کیا جاسکے تو بارآوری اور تولید کا عمل انجام نہیں پاسکتا۔ یہ نقص مرد میں بھی ہو سکتا ہے اور عورت میں بھی۔ مثلاً مرد قوتِ مردی میں کمی کی وجہ سے جماع پر قادر نہ ہو، یا اس کے مادۂ تولید میں حیوانات ِ منویہ کا تناسب مطلوبہ مقدار سے کم اور ان کی حرکت کم زور ہو، یا مادۂ تولید کو خصیوں سے عضو ِ تناسل (Penis)تک لانے والی رگیں مسدود ہو گئی ہوں، یا پھر خصیے بے کار ہوں۔ اسی طرح عورت میں کسی نقص کے سبب خصیۃ الرحم (Ovaries)سے بیضہ کا اخراج ممکن نہ ہو، یا قاذفین پیدائشی طور پر موجود نہ ہوں، یا مسدود ہوگئے ہوں ،یا وہ پیدائشی طور پر رحم سے محروم ہو، یا کسی مرض کے سبب اسے نکال دیا گیا ہو، یااس میں بار آور بیضہ کا استقرار ممکن نہ ہو، وغیرہ۔ 

بشکریہ مفتی منیب الرحمن


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا