نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

والدین بچوں کا دل جیتنا سیکھیں



والدین بچوں کا دل جیتنا سیکھیں

Gentle Parenting

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)

والدین اور اولاد کا بہت ہی اہم تعلق ہے ۔چنانچہ اس تعلق کی اہمیت و افادیت کو سمجھتے ہوئے  ماں باپ بچوں سے انسیت اور اپنائیت کا relationكیسے قائم کرسکتے ہیں ۔اس حوالے سے  ہم آپ کے سامنے کچھ اہم مشورے پیش کریں گے جو آپ کے لیے کافی حد تک معاون ثابت ہوں گے ۔

ایک بات تو ذہن نشین کرلیجئے کہ دوسروں کے دلوں میں جگہ بنانے اور اپنی اہمیت ڈالنے کے لیے جبر و تسلط نہیں بلکہ محبت اور عقیدت و انسیت  کے طریقہ کار کو اپنا نفع بخش ثابت ہوگا۔آئیے کچھ tips جانتے ہیں ۔وہ کیسے والدین ہوتے ہیں ۔جن کی اولاد اپنے  ماں بات کے لیے احترام کے جذبات رکھتی ہے ۔

احترام:

والدین بچوں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آتے ہیں  ۔ یہ ان کے جذبات، آراء اور انفرادیت کو تسلیم کرتا ہے۔

ہمدردی:

اپنے بچے کے جذبات کو سمجھنا اور  ہمدردی بچے کی جذباتی دنیا سے جڑنے میں مدد کرتی ہے۔بچہ والدین کے بہت قریب ہوتاہے

صبر:

 یہ نقطہ نظر صبر اور سمجھ پر زور دیتا ہے، یہ تسلیم کرتا ہے کہ بچے اب بھی سیکھ رہے ہیں اور بڑھ رہے ہیں۔

مثبت نظم و ضبط:

ڈانٹ ڈپٹ اور خوف پیداکرنے کی بجائے والدین رویے کی رہنمائی کے لیے مثبت نظم و ضبط کا استعمال کرتے ہیں۔ یہ سزا دینے کے بجائے تعلیم دینے اور رہنمائی کرنے پر طاقت صرف کرتے ہیں ۔

اٹیچمنٹ:

 اپنے بچے کے ساتھ اٹیچمنٹ  رکھیں اس سے بچوں میں احساس ذمہ داری اور آپ کی سوچ کے مطابق ڈھلنے کا مزاج پیداہوگا ۔

 

پوری توجہ دیں:

جب آپ کا بچہ بولتا ہے، تو آنکھ سے رابطہ کرکے، سر ہلا کر، اور یہ ظاہر کرتے ہوئے کہ آپ ان کے الفاظ کی قدر کرتے ہیں، فعال طور پر سنیں۔

احساسات کو سمجھنے کی کوشش:

اپنے بچے کے جذبات کو تسلیم کریں اور انھیں سمجھنے کی کوشش کریں جیسے کہ "میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ پریشان ہیں" یا "ایسا لگتا ہے کہ آپ کا دن مشکل تھا۔"

موثر گفتگو

مثبت زبان کا استعمال کریں:

اچھے الفاظ کے چناو کے ساتھ بچوں کو مخاطب کریں یا انھیں حکم کریں یا انکی اصلاح کریں جیسے۔ "مت بھاگو" کہنے کے بجائے "براہ کرم چلیں" کہیں۔

وجوہات کی وضاحت کریں:

اپنے بچے کو 'کیوں' کو سمجھنے اور صورتحال سے سیکھنے میں مدد کرنے کے لیے قواعد اور فیصلوں کے پیچھے وجوہات کی وضاحت کریں۔

ہم آہنگ رہیں:

آہستہ آہستہ عمر کے اعتبار سے حکمت اور پیار سے بچے کو حدود و قیود بتاتے چلے جائیں تاکہ اسے نہ کرنے والے اور کرنے والے کاموں میں فرق معلوم ہوسکے

حکمت سے پوچھ گوچھ:

اپنے بچے کو پوچھ گوچھ کرتے ہوئے اس میں یہ احساس پیداکریں کے آپ سے کسی بھی کام کے بارے میں پرستش ہوسکتی ہیں لیکن اس میں انداز دھیما اور مناسب ہو۔ مثال کے طور پر، "کیا آپ اپنے دانتوں کو نہانے سے پہلے یا بعد میں برش کرنا چاہتے ہیں؟"

مشفق و مہربان رہیں :

اس طرز عمل کا نمونہ بنائیں جو آپ اپنے بچے میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ اپنی بات چیت میں مہربانی، صبر اور احترام کا مظاہرہ کریں۔

سیلف ریگولیشن کی مشق کریں:

 صحت مند طریقے سے جذبات اور تناؤ پر قابو پانے کا طریقہ دکھائیں۔ دکھائیں کہ کس طرح گہری سانسیں لیں یا سکون سے احساسات پر گفتگو کریں۔

 

بچوں کی کوششوں کو سیلیبریٹ کریں:

تعریف اور حوصلہ افزائی کے ساتھ اپنے بچے کی کوششوں اور کامیابیوں کو پہچانیں اور ان کا جشن منائیں۔

مور ل اسٹوری سنائیں

اپنے بچوں کو سبق آموز کہانیاں سنائیں ۔اسلامی  اسٹوریز سنائیں ۔پھر ان کا مورل بتائیں بچوں سے واقعہ کا پیغام پوچھیں کہ کیا سبق ملاوغیرہ ۔

قارئین:

پڑھنے میں یہ نارمل باتیں ہیں لیکن یہ باتیں کئی کتب کے مطالعہ اور معاشرتی و سماجی مطالعہ کا نچوڑ ہیں جن کے ذریعے آپ اپنے بچوں کے دل میں اپنی جگہ بناسکتے ہیں ۔تاکہ آپ اور آپ کی اولاد کا وہ عظیم تعلق اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ قائم رہ سکے ۔ہمیں امید ہے کہ  یہ مضمون آپ کے لیے مفید ثابت ہوگا۔اللہ کریم ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔

 

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا