نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایمازون اور ڈراپشپنگ کاروبار



ایمازون (Amazon)  اور ڈراپشپنگ  کاروبار


- ایمازون ویب سائٹ پر فروخت ہونے والی جائز اشیاء کی قیمتوں میں سے مخصوص تناسب کے عوض تشہیری اور ترویجی مہم میں حصہ لینا جائز ہےاور اس پر فیصد کے اعتبار سے کمیشن مقرر کرکے کمیشن لینے میں کوئی مضائقہ نہیں، شرعاً یہ کام دلالی کے حکم میں ہے، جس کی اجرت لینا جائز ہے۔
البتہ یہ ضروری ہے کہ اس میں شرعًا کوئی ایسا مانع نہ ہو جس کی وجہ سے اصلاً بیع ہی ناجائز ہوجائے، جیسے مبیع کاحرام ہونا، لہٰذا صرف ان ہی مصنوعات کی تشہیر کی جائے جو اسلامی نقطہ نظر سے حلال ہوں، جو چیزیں شرعاً حرام ہیں، ان کی تشہیر کرکے پیسہ کمانا جائز نہیں ہے۔ اسی طرح جس کمپنی کی مصنوعات کی تشہیر کرنا ہو اس کمپنی کی طرف سےمصنوعات کے حقیقی اوصاف، قیمت وغیرہ واضح طور پر درج ہو۔ سامان نہ ملنے یا غبن ہوجانے کی صورت میں مصنوعات خریدنے کے لیے جمع کی گئی رقم کی  واپسی کی ضمانت دی گئی ہو۔
مزید یہ کہ آرڈر کرنے کے بعد مقررہ تاریخ تک مصنوعات نہ ملنے پر یا زیادہ تاخیر ہونے کی صورت میں کسٹمر کو آرڈر کینسل کرنے کا بھی اختیار ہو۔ نیز آن لائن تجارت کرنے والےایسے ادارے اور افراد بھی ہیں جن کے یہاں مصنوعات موجود نہیں ہوتیں، محض اشتہار ات ہوتے ہیں، اس لیے اس بات کو بھی یقینی بنایا جائے کہ اس کمپنی کے پاس مصنوعات کا حقیقی وجود ہے۔ ’’الدرالمختار‘‘ میں ہے:
’’وأما الدلال فإن باع العين بنفسہٖ بإذن ربہا فأجرتہ علی البائع، وإن سعٰی بينہما وباع المالک بنفسہٖ يعتبر العرف وتمامہ في شرح الوہبانيۃ۔‘‘
وفي الرد تحتہ:
’’(قولہ: فأجرتہ علی البائع) وليس لہٗ أخذ شيء من المشتري؛ لأنہ ہو العاقد حقيقۃ شرح الوہبانيۃ وظاہرہٗ أنہٗ لا يعتبر العرف ہنا؛ لأنہٗ لا وجہ لہٗ. (قولہ: يعتبر العرف) فتجب الدلالۃ علی البائع أو المشتري أو عليہما بحسب العرف جامع الفصولين۔‘‘       (حاشيۃ ابن عابدین،ج:۴، ص:۵۶۰،ط:سعید)

2 :- واضح رہے کہ ڈراپ شپنگ کا عام طور پر طریقہ یہ ہے کہ بائع اپنی مصنوعات کی تصاویر اور تمام تفصیلات اپنی ویب سائٹ پر یا اپنے پیج پر ظاہر کردیتا ہے، ویب سائٹ یا پیج دیکھنے والا اشیاء  کو دیکھ کراپنی پسند کردہ شے (چیز) پر کلک کرکے اس چیز کو خریدنے کا اظہار کرتا ہے۔ رقم کی ادائیگی کے لیے مختلف طریقہ کار اختیار کیے جاتے ہیں، کبھی ادائیگی ڈیلیوری پر کی جاتی ہے، یعنی جب مبیع مقرر ہ جگہ پر پہنچا دی جاتی ہے تو مشتری رقم ادا کرتا ہے اور بعض دفعہ ادائیگی کریڈٹ کارڈ کے ذریعے کی جاتی ہے۔ بائع مشتری کا کریڈٹ کارڈ نمبر حاصل کرکے بینک کو بھیجتا ہے اور وہاں سے اپنی رقم وصول کرلیتا ہے۔ مبیع کی ادائیگی بعض اوقات کسی کوریئر سروس کے ذریعے کی جاتی ہے اوربعض اوقات کمپنی خود یہ کام کرتی ہے۔ ضروری نہیں کہ مبیع (فروخت کی جانے والی چیز) بائع کی ملکیت میں موجود ہو، بلکہ وہ  آرڈر ملنے پر اشیاء کا انتظام کرتا ہے اور مشتری کے پتے پر یہ اشیاء ارسال کرتا ہے۔
اس طریقۂ کاروبار میں خریدار کا اپنی مطلوبہ اشیاء پر کلک کردینا بظاہر قبول ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ خریدار کا عمل ایجاب ہے اور بائع کا اپنی مصنوعات اپنی سائٹ پر ظاہر کردینا ایجاب کی پیشکش ہے، قبول نہیں، جیسے دکان داراشیاء اپنے اسٹال پر قرینے سے سجادیتا ہے اوران پر قیمت بھی چسپاں ہوتی ہے، مگر وہ ایجاب نہیں ہوتا، بلکہ دعوتِ ایجاب ہوتی ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بائع کااپنی اشیاء ظاہر کردینا بھی دعوتِ ایجاب ہے اور جیسے دکان پر دکان دار کا عمل قبول ہوتا ہے، اسی طرح انٹرنیٹ کے ذریعے خریداری میں بھی بائع کاعمل ایجاب کی قبولیت ہوتا ہے۔ ایک عام دکان پر اگر خریدار اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہیں تو دونوں جانب سے بیع ’’تعاطی‘‘ سے مکمل ہوجاتی ہے اور اگر خریدار زبان سے خریدار ی کی خواہش کا اظہارکرے اور دکان دار زبان سے کچھ نہ کہے، بلکہ چیز حوالے کردے یا ثمن قبول کرلے تو بائع کی طرف سے فعلاً قبول ہوتا ہے، اسی طرح ویب سائٹ پر بھی فعلی قبول ہوجاتا ہے۔ بہرحال چیزوں کو پیش کرنا ایجاب نہیں، بلکہ ایجاب کی دعوت ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ دکان میں جب خریدارکو ئی چیز اُٹھالیتا ہے تواس وقت بیع مکمل نہیں ہوتی، بلکہ کاؤنٹر پر آکر بھاؤ تاؤ ہوتا ہے، اگر چیزوں کو پیش کرنا ایجاب ہوتا تو خریدار کے اُٹھا لینے اور کاؤنٹر پر پیش کرنے کے بعد اسے واپس لینے کا حق نہ ہوتا۔
مختلف ویب سائیٹس پر جب گاہک اپنی پسندیدہ چیز پر کلک کرتا ہے تو یہ تحریری ایجاب ہوتا ہے، جب یہ ایجاب کمپنی یا فرد کے پاس جاتا ہے تووہ اسے قبول کرلیتا ہے، یوں یہ عقد جانبین سے تحریری صورت میں عمل پذیر ہوتا ہے۔
ایمازون کی ویب سائٹ پر اس طرح خریدوفروخت کرنا درست ہے، البتہ اس میں درج ذیل امور کا خیال رکھنا ضروری ہے:
۱: انٹرنیٹ پرسونا چاندی یا کرنسی کی خریدوفروخت ہو تو بیعِ صرف کے احکام کی رعایت لازم ہوگی، یعنی ہاتھ در ہاتھ اور نقد ہونا ضروری ہے اور یہ صورت آن لائن خریداری میں ممکن ہی نہیں ، لہٰذا سونا، چاندی اور کرنسی کی آن لائن تجارت نہ کی جائے۔
۲: مبیع اور ثمن کی مکمل تفصیل بتائی جائے، جس سے کسی قسم کا ابہام باقی نہ رہے۔
۳: کوئی شرطِ فاسد نہ لگائی گئی ہو۔
۴: صرف تصویر دیکھنے سے خریدار کا خیارِ رؤیت ساقط نہیں ہوگا، لہٰذا اگر مبیع تصویر کے مطابق نہ ہو یا دیکھنے کے بعد مشتری کو پسند نہ آئے تو مشتری کو واپس کرنے کا اختیار ہوگا۔
 ۵: ویب سائٹ پراپنی پروڈکٹ کی تشہیر کے لیے جان دار کی تصویر نہ لگائی جائے۔
۶: اگر ویب سائٹ والے آرڈر ملنے پر کسی اور جگہ سے چیز مہیا کرتے ہوں تو صارف کو اس وقت تک نہ بیچیں، جب تک چیز اُن کے قبضے میں نہ آجائے، البتہ وہ وکیل بالشراء (خریداری کے وکیل)کے طورپر معاہدہ کرسکتے ہیں، یعنی صارف (کسٹمر) ویب سائٹ والے کو خریداری کا وکیل بنادے، ویب سائٹ والا وکیل بن کر اس چیز کو مؤکل (صارف) کے لیے خریدے، نیز ایک صورت یہ بھی درست ہے کہ ویب سائٹ اپنے صارف کے ساتھ اس کی مطلوبہ چیز کی بیع کا وعدہ کرے اور جب وہ چیز قبضہ میں آجائے تو صارف سےعقدِ بیع کرکے وہ چیز صارف کو ارسال کرے۔
۷: ویب سائٹ پر اشیاء بیچنے والے کو چاہیے کہ ادائیگی کے لیے کریڈٹ کارڈ کا آپشن  دینے کے بجائے صرف ڈیبٹ کارڈ یا ڈیلیوری پر ادائیگی کا آپشن دے، کیوں کہ کریڈٹ کارڈ کا استعمال جائز نہیں، اگر چہ وقتِ مقررہ کے اندر ادائیگی کردی جائے اورسود دینے کی نوبت نہ آئے۔ نیز اگر اس پروڈکٹ میں کوئی ایسا عیب ہو جس کا مشتری کو علم نہیں تھا تو پھر مشتری کو خیارِ عیب حاصل ہوگا، اگر وہ چاہے تو پوری قیمت پر اسے لے لے، اگر چاہے تو واپس کردے ، لیکن اسے یہ حق نہیں کہ وہ مبیع رکھ کر نقصان کی قیمت لے۔ ’’المحيط البرہاني‘‘ میں ہے:
’’يجب أن يعلم أن شراء مالم يرہ المشتري جائز عندنا، وصورۃ المسألۃ: أن يقول الرجل لغيرہ: بعت منک الثوب ‌الذي ‌في ‌کمي ‌ہٰذا، والصفۃ کذا، أو الدرۃ التي في کفي وصفتہ کذا، أو لم يذکر الصفۃ، أو يقول: بعت منک ہٰذہ الجاريۃ المتبقيۃ۔‘‘   (المحيط البرہانی فی الفقہ النعمانی ،ج:۶، ص:۵۳۱،ط: دارالکتب العلمیہ، بیروت) 
فتاویٰ ہندیہ میں ہے:
’’خيار العيب يثبت من غير شرط، کذا في السراج الوہاج. وإذا اشتری شيئًا لم يعلم بالعيب وقت الشراء ولا علمہ قبلہ والعيب يسيرٌ أو فاحشٌ فلہ الخيار، إن شاء رضي بجميع الثمن وإن شاء ردہٗ، کذا في شرح الطحاوي. وہٰذا إذا لم يتمکن من إزالتہٖ بلا مشقۃ، فإن تمکن فلا کإحرام الجاريۃ۔‘‘ (الفتاوی الہندیۃ،ج:۳، ص:۶۶، دارالفکر)
3 :- ہماری معلومات کے مطابق ایمازون ایف بی اے (Fulfilled By Amazon) کا طریقہ تو یہ ہے کہ جب کوئی شخص ایمازون پر کسی چیز کو فروخت کرتا ہےتو اولاً یہ شخص اس چیز کو مینوفیکچرر سے خریدلیتا ہے، دوسرے نمبر پر یہ شخص اس چیز کو ایمازون کے گودام میں پہنچانے کاحکم کرتا ہے، اس مرحلہ کے بعد یہ چیز ایمازون کے گودام میں اس شخص کی ملکیت کے طور پر محفوظ کردی جاتی ہے، اس مرحلہ تک تو یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ عمل فروخت کنندہ کی طرف سے ایجاب ہے، البتہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ فروخت کنندہ نے اپنی چیز فروخت کرنے کے لیے سامنے لائی، اس کے بعد جب کوئی خریدنے والااس چیز کو ایمازون پر مذکورہ فروخت کنندہ سے خریدتا ہے، تو اس شخص (مالک) کے حکم پر ایمازون اس چیز کو پیک کر کے خریدار کو بھیج دیتی ہے۔ اس صورت کے مطابق چونکہ فروخت کنندہ اولاً مینوفیکچرر سے خریدلیتا ہےاور اس کی ملکیت ثابت ہونے کے بعد ایمازون اس چیز پر بطور وکیل قبضہ کرتی ہےاور وکیل بن کر کسٹمر کو یہ چیز پہنچا دیتی ہے، لہٰذا اگر اس چیز کے بیع میں شرعاً ناجائز ہونے کی کوئی اور وجہ نہ  ہو،(مثلاً وہ کوئی حرام شے نہ ہو، وغیرہ) تو ایمازون پر بیع کی مذکورہ صورت جائز ہے، لما قال العلامۃ الکاسانيؒ:
’’ (ومنہا) وہو شرط انعقاد البيع للبائع أن يکون مملوکًا للبائع عند البيع فإن لم يکن لا ينعقد۔‘‘(بدائع الصنائع، ج:۵، ص:۱۴۶، ط: دار الکتب العلميۃ، بیروت)
وقال في مجلۃ الأحکام العدلیۃ:

’’للمشتري أن يبيع المبيع لآخر قبل قبضہٖ إن کان عقارًا وإلا فلا۔‘‘ (مجلۃ الاحکام العدليۃ، ج:۱، ص:۵۲، ط: نور محمد) 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا