نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کی گروتھ نہ ہونے کی وجوہات



بچوں کی گروتھ نہ ہونے کی وجوہات

تحرير:ڈاکٹرظہوراحمددانش

ایک ایسی حالت جہاں بچے اپنی عمر کے لحاظ سے بہت چھوٹے ہوتے ہیں، بنیادی طور پر بچے کی زندگی کے پہلے 1,000 دنوں کے دوران ناکافی غذائیت اور بار بار ہونے والے انفیکشن کی وجہ سے ايسا ہوتا ہے۔ یہاں کچھ اہم وجوہات ہیں:جوہم آپ سے شئیر کریں گے جو آپ کے لیے اس ٹاپک کو سمجھنے میں مددگار ثابت ہوں گیں۔

 

ناقص غذائیت: Poor Nutrition

ضروری غذائی اجزاء کی ناکافی مقدار، خاص طور پر نشوونما کے نازک ادوار کے دوران، روک تھام کا باعث بن سکتی ہے۔ اس میں پروٹین، کیلوریز، وٹامنز (خاص طور پر وٹامن A، D، اور B12) اور معدنیات (خاص طور پر آئرن، زنک اور کیلشیم) کی ناکافی مقدار شامل ہے۔

انٹرا یوٹرن گروتھ ریسٹرکشن (IUGR): Intrauterine Growth Restriction (IUGR):

 وہ بچے جو زچگی کی غذائی قلت یا دیگر عوامل کی وجہ سے رحم میں خراب نشوونما سے گزرتے ہیں ان کے پیدائشی طور پر  گروتھ کے رُکنے کا خطرہ ہوتاہے ۔

بریسٹ فیڈنگ کے طریقے: Breastfeeding Practices:

بریسٹ فیڈنگ کے غلط طریقے، جیسے کہ بریسٹ فیڈنگ کا قبل از وقت بند ہونا، دودھ پلانے کی ناکافی مدت، یا زندگی کے پہلے چھ مہینوں کے لیے خصوصی دودھ پلانے کی کمی گروتھ میں کمی کی وجہ بن سکتاہے ۔

ناقص صفائی اور حفظان صحت: Poor Sanitation and Hygiene:

 صاف پانی تک ناکافی رسائی، صفائی کی سہولیات، اور حفظان صحت کے طریقوں سے بار بار ہونے والے انفیکشن کا خطرہ بڑھ جاتا ہے، جو بیماری سے لڑنے کے لیے جسم کی غذائیت کی بڑھتی ہوئی ضروریات کی وجہ سے گروتھ رُکنے کا باعث بن سکتے ہیں۔

ماحولیاتی عوامل: Environmental Factors:

ماحولیاتی آلودگیوں، زہریلے مادوں اور دیگر نقصان دہ مادوں کی نمائش بچوں کی نشوونما اور نشوونما کو متاثر کر سکتی ہے۔

زچگی کی صحت اور غذائیت: Maternal Health and Nutrition:

زچگی کی غذائیت، خاص طور پر حمل کے دوران، جنین کی نشوونما اور نشوونما کو متاثر کر سکتی ہے

بچپن کی بیماریاں: Childhood Illnesses:

اسہال، سانس کے انفیکشن جیسی بیماریاں غذائی اجزاء کے جذب اور استعمال میں مداخلت کر سکتی ہیں، جس کی وجہ سے نشوونما رک جاتی ہے۔

نشوونماقد کے رُکنے کی اس کمزوری  بہتر بنانے کے لیے صفائی اور حفظان صحت کے طریقوں کو اپنانا ہی بہتر حل ہے ۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا