نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں کو گیجٹس کے نقصانات سے کیسے بچائیں


 

بچوں کو گیجٹس کے نقصانات سے کیسے بچائیں

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

جدید دور کی نت نئی ٹیکنالوجی  نے جہاں انسان کے لیے آسانیاں پیداکیں وہاں انسانی زندگی میں منفی اثرات بھی مرتب کئیے ۔لیکن یہاں ہم آپ کو ٹیکنالوجی  کے منفی اثرات کے بارے میں تو نہیں البتہ  اپنے بچوں کو گیجٹس کے سحر سے نکالنے کے طریقے ضرور بتائیں گے ۔

آج والدین اور بچوں کے درمیان بہت گیپ آچکاہے بچے موبائل اور لیپ ٹاپ انٹرنیٹ کی دنیا سے اس قدر مانوس ہوچکے ہیں کہ ان کے پاس والدین کے لیے وقت ہی نہیں اور والدین بھی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے انھیں گیجٹس کے حوالے کردیاہے ۔چنانچہ جب بچے  ہاتھ سے نکل گئے تو سر پکڑ کر والدین  اب گیجٹس سے جان چھڑانے کے طریقے تلاش کررہے ہیں ۔

ہم نے بھی یہ مضمون انہی پریشان حال والدین کے لیے ترتیب دیاہے جس میں مختلف ٹپس دی گئی ہیں جن کی مدد سے آپ حکمت اور دانائی کے ساتھ اس مسئلے سے نکل سکتے ہیں ۔آئیے وہ ٹپس جانتے ہیں

حدود مقرر کریں: et Limits

 

دورحاضر میں  گیجٹس کا استعمال تو ایک ضرورت کی شکل اختیار کرچکاہے ۔چنانچہ اب آ پ بچوں کو سرے سے گیجٹس کے استعمال سے منع تو نہیں کرسکتے ۔لہذا اس کا بہترین حل یہ ہے کہ آپ کچھ حدود و قیود قائم کریں بچوں کو بتادیں کہ بیٹایہ یہ آپ استعمال کیجئے ۔اس کے علاوہ آپ کاکام نہیں ۔ان اصولوں کو مستقل طور پر نافذ کریں اور یقینی بنائیں

مثال بنیں : Lead by Example

 بچے اکثر بڑوں کے رویے کی نقل کرتے ہیںس لیے اپنے گیجٹ کے استعمال کا خیال رکھیں۔ اپنے اسکرین کے وقت کو محدود کرکے اور پڑھنے، مشاغل، یا باہر وقت گزارنے جیسی متبادل سرگرمیوں میں مشغول ہو کر اسکرین کی صحت مند عادات کا نمونہ بنائیں۔تاکہ بچے بھی آپ کو دیکھ کر گیجٹس کے یوز  میں ٹائم ٹیبل بناسکیں۔

https://youtube.com/shorts/LtDc29BYELY?si=LrLVbRp4kJosxASE

ٹیک فری زونز: Create Tech-Free Zones:

 اپنے گھر کے کچھ ہر کمرے ہرجگہ گیجٹس کا استعمال ہرگز نہ کریں ۔اس عادت سے بچے بھی گیجٹس کے یوز میں بے باک ہوں گے اور وہ بھی ہر جگہ موبائل ،لیپ ٹاپ کے استعمال میں جھجک محسوس نہیں کریں گے ۔لہذا گیجٹس کے یوز کے لیے گھر میں کمرہ مخصوص کردیں کہ بچوں ہم ادھر ہیں  اپنے انٹرنیٹ سے متعلقہ کام کریں گے ۔گیجٹس کا استعمال کرسکتے ہیں ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ بچے ہر وقت موبائل لیے لیے پھرتے نہیں رہیں گے ۔خاندان کے افراد کے ساتھ آمنے سامنے بات چیت کو فروغ  دیجئے گااس وقت کوئی  گیجٹس استعمال نہ کرے ۔

متبادل سرگرمیاں فراہم کریں: Provide Alternative Activities

اسکرین ٹائم کو تبدیل کرنے کے لیے مختلف قسم کی مشغول سرگرمیاں پیش کریں، جیسے آرٹس اور دستکاری، کھیل، بورڈ گیمز، یا آؤٹ ڈور کھیل۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ اپنی دلچسپیاں اور مشاغل تلاش کریں تاکہ وہ لطف اندوز ہونے والی سرگرمیاں تلاش کریں۔

اوقات مقرر کریں: Set Screen-Free Times

دن کے دوران مخصوص اوقات قائم کریں ۔ جب گیجٹس کی حد بند ہو اس وقت بچے کسی بھی طور پر گیجٹس استعمال نہ کریں  جیسے کھانے کے دوران، سونے سے پہلے، یا خاندانی سرگرمیوں کے دوران۔ اس وقت کو اپنے بچوں سے جوڑنے اور خاندانی رشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے استعمال کریں۔

آؤٹ ڈور کھیلنے کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage Outdoor Play:

اپنے بچوں کے ساتھ باہر وقت گزاریں اور انہیں فطرت کو دریافت کرنے، کھیل کھیلنے، یا جسمانی سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیں۔ بیرونی کھیل نہ صرف اسکرین کے وقت کو کم کرتا ہے بلکہ جسمانی صحت اور تندرستی کو بھی فروغ دیتا ہے۔

تعلیمی مواد فراہم کریں: Provide Educational Content:

 جب بچے گیجٹ استعمال کرتے ہیں، تو ان کی حوصلہ افزائی کریں کہ وہ تعلیمی اور عمر کے لحاظ سے موزوں مواد کے ساتھ مشغول ہوں۔ ایسی ایپس، گیمز اور ویڈیوز تلاش کریں جو سیکھنے، تخلیقی صلاحیتوں اور تنقیدی سوچ کی مہارت کو فروغ دیتے ہیں۔جس میں بچوں کی پروفیشن اسکلز کوبڑھانے کے مواقع ہوں ۔

کھلے دل سے بات چیت کریں: Communicate Openly:

 اپنے بچوں سے اسکرین ٹائم کو دیگر سرگرمیوں کے ساتھ متوازن کرنے کی اہمیت کے بارے میں بات کریں۔ ضرورت سے زیادہ گیجٹ کے استعمال کے منفی اثرات کو سمجھنے میں ان کی مدد کریں، جیسے کہ نظر کمزور ہونے، ذہن پر اثرااور ایسے دیگر نقصانات سے انھیں آگاہ کریں ۔

اسکرین فری بیڈ ٹائم روٹین قائم کریں: Establish Screen-Free Bedtime Routine:

 سونے کے وقت کا ایک آرام دہ معمول بنائیں جس میں اسکرین شامل نہ ہو۔ بچوں کو سونے سے پہلے آرام کرنے اور نیند کے بہتر معیار کو فروغ دینے کے لیے پڑھنے، تلاوت و نعت سننے، کہانی سنانے  ،کوئیز مقابلہ جیسی سرگرمیوں کی حوصلہ افزائی کریں۔

نگرانی اور جانچ پڑتال: Monitor and Supervise:

 اپنے بچوں کے گیجٹ کے استعمال پر نظر رکھیں اور اگر ضروری ہو تو مداخلت کریں۔ اسکرین ٹائم کو ٹریک کرنے اور نامناسب مواد تک رسائی کو مسدود کرنے کے لیے پیرنٹل کنٹرولز اور مانیٹرنگ ایپس کا استعمال کریں۔ ان حکمت عملیوں کو مستقل طور پر نافذ کرنے اور ایک معاون ماحول فراہم کرنے سے، آپ بچوں کو گیجٹ کے ضرورت سے زیادہ استعمال کی عادت کو توڑنے اور صحت مند سکرین کی عادتیں پیدا کرنے میں مدد کر سکتے ہیں۔

ہمیں امید ہے کہ والدین ان ٹپس پروعمل کرکے اپنے بچوں  گیجٹس کے بے جا استعمال سے بچاسکتے ہیں اللہ پاک ہمیں  اپنی اولادوں کی اچھی تربیت کرنے اور ہماری اولادوں کو نیک بنائے آمین ۔

رابطہ  نمبر:03462914283

وٹس ایپ:03112268353

ای میل:zahoordanish98@gmail.com

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا