نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلال فوڈ (کلاس 2)حلال کا کانسپٹ اور اسلامی قانون


 

حلال فوڈ (کلاس 2)حلال کا کانسپٹ اور اسلامی قانون

concept of Halal and its significance in Islamic dietary laws

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش 

بے شک! حلال سے مراد وہ خوراک اور مشروبات ہیں جو اسلامی غذائی قوانین کے مطابق حلال یا جائز ہیں۔ یہ ہدایات مسلمانوں کو اس بات کا تعین کرنے میں مدد کرتی ہیں کہ وہ کیا کھا سکتے ہیں۔ آئیے تفصیلات کا جائزہ لیتے ہیں:

حلال خوراک اور مشروبات:

مسلمانوں کو وہ کھانے کی اجازت ہے جسے قرآن کے مطابق "اچھا" سمجھا جاتا ہے (قرآن 2:168)۔ اس میں کھانے پینے کی چیزیں شامل ہیں:

خالص: صاف، صحت بخش، پرورش بخش، اور ذائقہ کو خوش کرنے والا۔

جائز: ہر چیز جائز ہے (حلال) سوائے اس کے جو خاص طور پر حرام کی گئی ہو۔

بعض حالات میں ممنوعہ کھانے پینے کو بھی گناہ تصور کیے بغیر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر ممکنہ فاقہ کشی کی وجہ سے کوئی قابل عمل متبادل موجود نہیں ہے، تو دوسری صورت میں حرام کھانے یا مشروبات کا استعمال گناہ نہیں ہوگا۔

جانوروں کا صحیح ذبح کرنا: اسلام میں خوراک کے لیے جانوروں کی جان لینے کے طریقے پر بہت زیادہ توجہ دی گئی ہے۔ "خدا کے نام پر، خدا سب سے بڑا ہے" (قرآن 6:118-121) کی تلاوت کرتے ہوئے جانوروں کو تیزی سے ان کے گلے کاٹ کر ذبح کیا جاتا ہے۔ جانور کو تکلیف نہیں ہونی چاہئے اور ذبح کرنے سے پہلے بلیڈ نہیں دیکھنا چاہئے۔

حرام کھانے اور مشروبات:

مسلمانوں کو ان کے مذہب کے ذریعہ کچھ کھانے سے پرہیز کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ شامل ہیں:

مردہ گوشت: پہلے سے مردہ جانور کی لاش (صحیح طریقے سے ذبح نہیں کیا گیا)۔

خون

سور کا گوشت: سور کا گوشت۔

نشہ آور مشروبات

بتوں کے لیے قربانی کا گوشت

بجلی سے مارے گئے، گلا گھونٹ کر مارے گئے یا بلنٹ فورس سے مارے گئے جانوروں کا گوشت

جنگلی جانوروں کا گوشت 1۔

اہمیت:

پاکیزگی اور پابندی: حلال غذائی قوانین پاکیزگی اور مذہبی رہنما اصولوں کی پابندی پر زور دیتے ہیں۔

منفرد شناخت: ان اصولوں پر عمل کرنے سے ایک منفرد اسلامی شناخت قائم ہوتی ہے اور پیروکاروں کو ایک مربوط گروپ کے حصے کے طور پر ایک ساتھ جوڑتا ہے۔

یہودیت کے ساتھ مماثلت: اسلامی غذائی قوانین ان ابراہیمی مذہبی گروہوں کے نسلی پس منظر کی وجہ سے یہودی غذائی قوانین کے ساتھ مماثلت رکھتے ہیں۔

خلاصہ یہ کہ حلال کھانا اجزاء اور تیاری کے طریقوں سے بالاتر ہے۔ اس میں اسلامی قانون کے مطابق خوراک کی فراہمی، تیاری اور استعمال کے لیے اخلاقی اور انسانی رہنما خطوط شامل ہیں۔ 

نوٹ:رابطہ نمبر :03462914283/

وٹس ایپ:03112268353


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا