نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلال انڈسٹری اور حائل رکاوٹیں



حلال انڈسٹری اور حائل رکاوٹیں 

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمدانش

حلال فوڈ انڈسٹری ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے ۔لیکن میں سوچتاہوں کہ اتنی بڑی انڈسٹری میں پاکستان کوئی تعمیری و توسیعی کام کرنے میں ابھی تک کچھ زیادہ متحرک دکھائی نہیں دیتا۔آخر کیا وجہ ہے ؟حالانکہ پاکستان تو اسلامی ملک ہے اس کو اس میدان میں شب وروز کود جاناچاہے تاکہ عالمی منڈی میں اس نظر سے اپنی ٹریڈ کرسکے لیکن ایسانہیں ۔آئیے ان محرکات کو جانتے ہیں جو اس جانب رکاوٹیں ہیں ۔

ایسی کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان اس میدان(sectors) میں اپنا کردار ادا نہیں کر پارہا؟ یعنی اس 4 ٹریلین ڈالرز کی انڈسٹری میں پاکستان اپنی جگہ نہیں بناپارہا؟ آئیے ان محرکات اور وجوہات کو جاننے کی کوشش کرتےہیں ۔ میں ڈاکٹرظہوراحمددانش ہر اعتبار سے آپ کو حلال فوڈ کی دنیا سے اپ ڈیٹ رکھنے کی کوشش کررہاہوں ۔اب آپ نے سنجیدگی سے اسٹڈی شروع کردینی ہے نہ صرف خود اپ ڈیٹ رہناہے بلکہ دوسروں کو بھی باشعور بناناہے ۔آئیے رکاوٹوں کی وجوہات پر کچھ غورکرلیتے ہیں

شرح خواندگی اور بے روزگاری :

1۔ اس کی ایک بنیادی وجہ ملک میں بے روزگاری کا ہونا اور شرح خواندگی (literacy rate) کی کمی کا ہونا ہے۔

ریسرچ کی کمی :

2۔ نئے کاروبار اور نئے خیالات کو تلاش نہ کرنا بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے، جس کی طرف ہم متوجہ نہیں ہوتے۔

سہولیات سے محرومی :

3۔ ہمارے ہاں بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے مناسب نظام کا نہ ہونا بھی ان میادین میں آگے نہ بڑھنے کا ایک سبب ہے۔

پیکجنگ فیلئیر :

4۔ ہمارے پاس پیکجنگ کی بہتر سہولت میسر نہیں ہے۔

ٹیکس :

5۔ ٹیکسیشن کی پالیسیز اچھی نہیں ہیں۔

توانائی بحران:

۔ انرجی بہت مہنگی ہے۔

سیکورٹی ایشو:

۔ ہمارے ہاں سیکیورٹی ایشوز ہیں جن کی وجہ سے لوگ پاکستان میں سفر کرنے کو محفوظ نہیں سمجھتے۔ نیا سرمایہ کار (investor) ہمیشہ محفوظ مقام کی طرف جانا چاہتا ہے جہاں پر اس کی دولت دوگنی چوگنی ہوجائے۔ پاکستان جتنا اس بات پر دنیا کو قائل کرنے پر توانائی ضائع کرتا ہے کہ پاکستان ایک محفوظ ملک ہے، اگر اتنی انرجی سیکیورٹی کو مضبوط بنانے پر خرچ کرے تو بہتر نتائج مل سکتے ہیں۔

سرمائیہ کا عدم تحفظ:

گورنمنٹ بھی سرمایہ کار کو سپورٹ نہیں کرتی۔ حتی کہ ان سیکٹر کو بہتر بنانے کے لیے پالیسیز بھی وضع نہیں کرتی۔۔ ہمارے ہاں اسلامک فنانس میں بھی معیار کا فقدان ہے، کوالیفائیڈ سٹاف بنکس میں نہیں ہے ۔ اسی طرح اسلامک فنانشل انڈسٹری کو گورنمنٹ کی تائید حاصل نہیں ہے۔

۔ حلال فیشن اور وہ حلال اشیاء جن میں ہم revenue پیدا نہیں کررہے، ان تمام سیکٹرز سے متعلق آگہی (awareness)کا فقدان ہے۔

یہ وہ تمام امور ہیں جن کی وجہ سے پاکستان مسلم دنیا کو حلال فوڈز سمیت دیگر حلال اشیاء مہیا نہیں کرپارہا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ایسے سیکٹرز جنہیں ہم بڑھا (grow) سکتے ہیں اور ایسے خاص سیکٹرز جو برانڈ یعنی ایک خاص نام اور پہچان بن سکتے ہیں، ان کی طرف متوجہ ہوا جائے۔ اگر پاکستانی اشیاء کا معیار اچھا ہو تو مسلم ممالک کی مارکیٹ بن سکتی ہے۔ پاکستان کا المیہ ہے کہ بعض اوقات حلال سرٹیفیکیٹس کا کام بھی نان مسلم کررہے ہوتے ہیں۔ ان امور کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ ہم حلال انڈسٹری کے ذریعے عالمی سطح پر اپنا مقام بناسکیں اور اس کے ذریعے آمدنی(revenue )پیدا ہوسکے۔

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا