نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ضدی بچوں کی تربیت کیسے کریں؟


ضدی بچوں کی تربیت کیسے کریں؟

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

انسان کو اپنی اولاد بہت پیاری ہوتی ہے گھر کے آنگن میں  کھیلتے  ہنستے مسکراتے بچے والدین کی خوشیوں کو دوبالاکردیتے ہیں ۔ان سے نہ جانے والدین کی کیسی کیسی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں ۔لیکن اگر یہ بچے ضدی ہو اپنی بات پراَڑجانے والے ہوں تو والدین ندامت و پشیمانی میں گھُلتے چلے جاتے ہیں ۔آخران ضدی بچوں کی تربیت کیسے ممکن ہے ؟آئیے ہم ایسے طریقے جان لیتے ہیں جن کی مدد سے ہم ان ضدی بچوں   کو شخصی تعمیر  کے سانچے میں ڈھال کر بہترین تربیت کرسکتے ہیں ۔

قارئین:

بچوں کی تربیت یا رہنمائی کرنا، خاص طور پر وہ بچے جوضدی ہیں یقینا ایک مشکل مرحلہ ہے لیکن یہاں  صبر، سمجھ اور مثبت انداز اور رویہ کو روارکھنے کی ضرورت ہے ۔کچھ مشورے ہیں جو آپ کے بچے یا بچی کو اس ضدی پن سے نجات دے کر ایک  معتدل مزاج بچہ بناسکتے ہیں ۔پوری توجہ سے ان نکات کو پہلے تو اپنے ذہن میں نقش کرلیں پھر آہستہ آہستہ ان پر عمل کی کوشش کرنا شروع کردیجئے اللہ کریم فضل و کرم فرمائے گااور بچے اپنے ضدی و چڑچڑے پن کی عادت سے نجات پاجائیں گے ۔


فقط مال و زر دیوار و در اچھا نہیں لگتا

جہاں بچے نہیں ہوتے وہ گھر اچھا نہیں لگتا

پرسکون رہیں: Stay Calm:

اپنے جذبات کو قابو میں رکھیں۔ آپ والدین ہیں   بچے آپکی اولاد ہے ۔بہت relaxہوکران کے سوال جواب دیں اور ان کی  Demand  یا ضد کو بہت پُرسکون ہوکر فیس کریں ۔ان لمحوں میں آپ کا جذباتی پن غصہ بچے کی personalityکوبہت بُرے طریقے سے متاثر کرے گا۔



ان کے نقطہ نظر کو سمجھیں: Understand Their Perspective:

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ یہ بچے ہیں انھوں نے نہ تو آپ جتنا وقت اس کائنات میں گزارہ ہے اور نہ ہی ان کا اتنا مشاہدہ و تجربہ اور مطالعہ ہے ۔یعنی یہ ابھی learning process  میں ہیں ۔آپ چیزوں کو بچے کے نقطہ نظر سے دیکھنے کی کوشش کریں۔ ان کے جذبات اور خیالات کو سمجھنے سے آپ کو ان کے ساتھ بہتر طور پر جڑنے کے لیے اپنا نقطہ نظر تیار کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ان کی ذہنی سطح پر آکر ان کی بات کو سمجھنے کی کوشش کیجئے ۔


واضح توقعات قائم کریں: Set Clear Expectations:

والدین اپنی اولاد سے توقعات رکھتے ہیں لیکن یہ بات سمجھ لیجئے کہ اپنے بچے کی ذہنی استعداد اور قابلیت و صلاحیت کے مطابق ان سے اپنی امیدوں کو ترتیب دیں اور ساتھ ساتھ ان expectation   ان بچوں کو بھی بتادیں اور انھیں ان کو پورے کرنے کا حوصلہ اور ہمت بھی فراہم کردیں کہ you can do it .

پیشکش کے اختیارات: Offer Choices:

ایک عمومی مشاہد ہ ہے کہ اولاد کو  dictate  کیا جاتاہے ۔یہ کرویہ نہ کرو۔یعنی جو والدین کہیں وہی حتمی ہے جو بچہ کرے گا وہ غلط ہی ہوگا۔پلیز ایسا ہرگز نہ کریں ۔اپنے بچوں کو اختیار دیں ۔انھیں چوائس فراہم کریں ۔


مثبت مدد فراہم کریں  : Use Positive Reinforcement:

بچوں کے مثبت رویے کی تعریف کریں اور انعام دیں انہیں مطلوبہ طرز عمل کو دہرانے کی ترغیب دیتا ہے۔

منطقی نتائج فراہم کریں: Provide Logical Consequences:

جب کوئی بچہ  گھر میں بنائے گے اصولوں کے خلاف کرتاہے  یا  کوئی غلطی کرتاہے تو logicallyاپنے بچے کو اس غلط کام  یا حرکت کا انجام ضرور بتادیں ۔تاکہ وہ اس کے نقصانات سے مطلع ہوکر آئندہ اس سے بچے ۔وہ اس غلطی کو مزاج نہ بنالے ۔بلکہ انجام جان کر بچنے کی کوشش کرے ۔

بچوں کو  خیالات کے اظہار پرافزائی کریں: Encourage Communication:

بچے کو اپنے خیالات اور احساسات کا اظہار کرنے کی ترغیب دیں، اور جو کچھ وہ کہتاہے اسے پوری توجہ سے سنیں  بچہ کہہ کر اُسے ignore  ہرگز نہ کریں ۔

رول ماڈل بنیں: Be a Role Model:

اپنے بچوں کو بہترین شخصیت کے طورپر دیکھنا چاہتے ہیں توپھر ان کے لیے آپ خود نمونہ بن جائیں تاکہ وہ آپ کو دیکھ دیکھ کر سیکھتے چلے جائیں آپ ان کے لیے رول ماڈل بنیں

مزاح کا استعمال کریں: Use Humor:

اپنے بچوں سے مسکرانے اور ادب کے دائرے میں رہ کر مزاح بھی کرلیاکریں ۔تاکہ بچوں کا ذہنی تناؤ  کم ہوسکے ۔ان کے زوال پزیل ہومن ایموشنز ایکٹوہوسکیں ۔

اگر ضرورت ہو تو پیشہ ورانہ مدد حاصل کریں: Seek Professional Help if Needed:

اگر آپ کو مسلسل چیلنجز کا سامنا ہے تو، ماہر اطفال، بچوں کے ماہر نفسیات، یا مشیر سے رہنمائی حاصل کرنے پر غور کریں۔ وہ آپ کے بچے کی مخصوص ضروریات کے مطابق بصیرت اور حکمت عملی پیش کر سکتے ہیں۔


اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں

پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں آتے

اولاد اللہ کریم کی بڑی عظیم نعمت ہے، اس نعمت کی قَدْر یہ ہے کہ اس کی اچھی تربیت کی جائے تبھی یہ نعمت نعمت ہوگی، وگرنہ کتنے ہی ایسے لوگ  ہیں جو اولاد کی صحیح تربیت نہیں کرتے نتیجۃً ایک وقت آتا ہے کہ اپنی ہی اولاد کے ہاتھوں دکھ اور تکالیف اٹھاتے ہیں۔اللہ کریم ہم سب کی اولادوں کو نیک اور صالح بنادے ۔آمین

نوٹ:

بچوں کی کونسلنگ اور شارٹ کورسسز کے لیے آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ:03112268353

 

 

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا