نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فلو!!!!! اور اس کی علامات


فلو!!!!! اور اس کی علامات

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

ہم اپنی روٹین میں ایک لفظ سنتے ہیں فلو۔آپ نے کبھی غور کیا کہ یہ کیا ہے ؟کسے کہتے ہیں ؟اگر کیا تو بہت اچھی بات ہے اور اگر نہیں جانتے تو ہم آپ کو فلو کے بارے میں بہترین اور زبردست معلومات پیش کرنے جارہے ہیں ۔آئیے بڑھتے ہیں آج کے اہم ترین موضوع ’’فلو‘‘کی جانب!!!

فلو، انفلوآنزا کا مخفف ہےیہ وائرل مرض یعنی پھیلنے والا مرض ہے یہ انفلوآنزا وائرس  کی وجہ سے ہوتاہے ۔اس میں ہمارے ناک، گلہ وغیرہ متاثر ہوتے ہیں  ۔اہم بات یہ کہ  فلو سیزنی بیماری ہوتی ہے جو عام طور پر موسموں کے مطابق موسم میں پائی جاتی ہےجیسے ہی موسم تبدیلی ہوتاہے فلو اپنے پنجے گاڑلیتاہے۔

یوں تو انفلوآنزا وائرس کی کئی قسمیں ہیں ۔مگر یہ ہم اہم ترین باتیں ہی آپ سے شئیر کریں گے تاکہ آپ بور بھی نہ ہوں اور بہترین معلومات بھی کم وقت میں حاصل کرسکیں۔

ہم نےفلو کے بارے میں تعارفی بات تو جان لی اب ہم یہ بھی جان لیتے ہیں کہ فلو کی علامات کیاہیں ۔

جب انسان کو فلو ہوتاہے تو اس میں یہ چند علامات واضح نظر آتی ہیں ۔

بخار!!

سردی لگنا!!

کھانسی!!

گلہ خراب!!

ناک کا بہنا یا بند ہونا!!

پٹھوں یا جسم کا درد!!

سر درد!!

تھکاوٹ!!

اُلٹی اور دست (بچوں میں زیادہ طرف)!!

بہرحال فلو اپنی مدت پوری کرکے ختم ہونے والی بیماری ہے ۔لیکن یہ کمزور قوت مدافعت رکھنے والوں پر زیادہ اثرمرتب کرتاہے ۔کمزور اعصاب کے افراد پر اگر فُلو کی گرفت مضبوط ہوجائے تو اس صورت میں  انھیں نمونیا، برونکائٹس، سائنس انفیکشن بھی زور پکڑسکتاہے  ۔

روک تھامی کی تدابیر، جیسے سالانہ فلو ویکسین کا ٹیکا لگوانا اور اچھی ہاتھ دھونے کی طرف، فلو کو حاصل ہونے یا دوسروں کو منتقل کرنے کے خطرے کم کرنے میں مدد فراہم کر سکتی ہے۔ انفلوآنزا کا علاج کرنے کے لئے آم طور پر موصوف تدابیر کو اپنانا اور خود دیکھ بھال کرنا ضروری ہوتا ہے۔ ان کچھ مواقع پر، جیسے کہ علامات شدید ہوں یا بڑھتی ہوں، ڈاکٹر کی مشورہ حاصل کرنا بہترین تصویر پیش کرتا ہے۔

انفلو کا بہترین روک تھامی تدبیر فلو ویکسین ہے۔ زیادہ تر لوگوں کے لئے سالانہ فلو کی ٹیکا کا تنصیب کیا جاتا ہے، خصوصاً وہ لوگ جو تشدد کے خطرے میں ہوں یا جو تشدد کے خطرے والے افراد کے قریب ہوں۔

قارئین:

فلو نزلہ و زکام کی شکل اختیارکرلیاتاہے ۔آپ ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ  ان میں تھوڑا سا فرق کیا جاتا ہے۔ کبھی نزلہ اور زکام کے ساتھ کھانسی بھی ہوتی ہے۔ زکام ہونے پر بَلغَم ریشے کی صورت میں ناک میں جمع ہوجاتا ہے، اس میں نزلے کی بَنِسْبَت زیادہ تھکن محسوس ہوتی ہے۔

یہ بیماریاں اس قدر عام (Common)ہیں کہ تقریباً ہر دوسرا شخص ان میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ میرےآقا اعلیٰ حضرت امام ِاہلِ سنّترحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: غالباً جب سے دنیا بنی ہے اور کسی فرد نے چند سال کی عمرپائی ہو اُسےکبھی نہ کبھی زکام ضرور ہوا ہوگا۔(فتاویٰ رضویہ،ج 1،ص 366ملخصاً)

قارئین ::ہم آپ کو نزلہ اور زکام کی جداجداعلامات بھی بتادیتے ہیں تاکہ آپ فلو کو ٹھیک طریقے سے سمجھ کر اس کے علاج کی کوشش کرسکیں

نزلہ اور زکام کی علامات: 

ان دونوں کی علامات تقریباً یکساں (Same) ہیں مگر زُکام کی صورت میں ان میں کچھ شدّت ہوتی ہے۔

نزلے کی علامات:

 اس کی عمومی علامات میں سے ہَلکا بخار ہونا، ناک کا بہنا، گلے میں خَراشیں پڑ نا،تھکاوٹ ہونا، چھینکیں آنا اور کھانسی ہونا وغیرہ ہے۔

زکام کی علامات: 

اس کی علامات میں سے چند ایک یہ ہیں :

٭ تیز بخار ہوجاتاہے

٭سَراور جسم میں شدید درد، بھاری پَن، کمزوری (Weakness) اور سُستی محسوس ہوتی ہے

٭ناک سے رطوبت بہتی رہتی ہے

٭ چھینکیں آتی ہیں اور کھانسی ہوجاتی ہے

 ٭کبھی آنکھیں سُرخ ہو جاتی ہیں اور ان سے رطوبت نکلتی ہے ٭چہرے کی رَنگت میں بھی سُرخِی آجاتی ہے۔

قارئین:

امید ہے کہ آج کی یہ آپ کے لیے اور آپ کے گھروالوں کے لیے بہت مفید ثابت ہوگی ۔ہماری کوشش آپکو  کیسی لگی اپنے کامنٹ ضرور دیجئے گا۔اچھی بات بھلائی کی نیت سے آگے بڑھادیں نہ جانے آپ کی وجہ سے کتنے اس مرض سے محفوظ رہاکر صحت مند زندگی گزارسکیں گے ۔۔اپنا بہت خیال رکھئے گا۔اللہ حافظ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا