نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قرآن حفظ کرنے کے آسان طریقے



قرآن حفظ کرنے کے آسان طریقے

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(ایم اے عربی /اسلامیات ۔ایم اے ماس کمیونیکیشن)


ددکک
اللہ پاک نے مجھے  بیٹے کی نعمت سے نواز تو میں نے نیت کی کہ میں اِسے حفظ قرآن کرواوں  گا۔تاکہ اس کے دل و دماغ میں  لاریب و عزت وشان والے پاکیزہ کلام  کی روحانیت ہوگی تو یہ راہ ہدایت پر باآسانی چلتارہے گااور پھرآگے چل کر جب ترجمہ و تفسیر کی جانب بڑھے گاتو آیات زبانی یاد ہوں گی تو مزید اپنے اہداف کی جانب آسانی ہوجائے گی ۔چنانچہ نوررضا نے ناظرہ کلام مجید پڑھا اور پھر اُس کے بعد یہ مرحلہ تھا کہ انھیں حفظ قرآن کے لیے کہاں داخل کروایاجائے

چنانچہ ہم نے باہمی مشاورت سے ایک ادارے  کا انتخاب کیا ۔وہاں نوررضا صاحب نے پڑھناشروع کیا۔لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔خیر چھوڑیں ۔مجھے کس کس  مرحلے سے گزرنا پڑھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس بات کو ذکر کرنے میں فائدہ نہیں ۔کیوں نہ ہم مثبت اور مفید پہلوپر بات کرلیں ۔بس آپ اتنا سمجھ لیں کہ مایوس کُن صورتحال سے گُزرنا پڑا۔۔بس ۔۔۔۔

میں کوچنگ پڑھاتاہوں ۔میرے پاس حفاظ بچے بھی اسکول کالج کی کوچنگ کے لیے آتے ہیں وہ اپنی  حفظ کی باتیں بتاتے ہیں تو مجھے بہت صدمہ ہوتاہے کہ اتنا تشدد،اتنی ذہنی اذیت الامان والحفیظ

یہ مرحلہ میرے لیے بہت  تکلیف دہ تھا۔قاری صاحب میرے لیے محترم ہیں ان کی شفقت رہیں ۔لیکن ہمارے ہاں ایک بہت بڑاحادثہ ہے کہ ہم ادارے اور نظام ان افراد کے حوالے کردیتے ہیں ۔جو تربیت یافتہ نہیں ہوتے۔میری مراد آپ سمجھ رہے ہوں گے کہ وہ خود تو جیسے تیسے پڑھ لیا یا ادارہ  قائم کرلیا ۔لیکن جیسے حفظ کروانا چاہیے اور جیسے نظام چلانا چاہیے ان نفسیاتی اور تیکنیکی باریکیوں سے یکسر نابلد ہوتے ہیں ۔نتیجہ وہی نکلتاہے کہ پھر ایسے اداروں سے سخت ،تلخ ،غصیلے  افراد کی ایک کھیپ معاشرے میں پھر سے ایک نئی نسل کو اسی بھٹی میں کندھن بنانے کی ناکام کوشش کررہی ہوتی ہے ۔

ایم فل میں ایڈمیشن کے بارے میں جاننے کے لیے کلک کریں

لیکن اس سے کوئی ہرگز یہ مراد نہ لے کے تمام ہی مدارس میں ایسا ہوتاہے بلکہ میں عرض کروں کہ مدارس ہی تو وہ مقام ہیں جہاں سے خیر و برکت کی قندیلیں روشن ہوتی ہیں ۔مدارس ہی کی بدولت حق کو تقویت ملی ۔نیکی کی دعوت عام ہوئی۔

اس مضمون کی ابتدامیں بطور تمثیل بات ذکرکرکے اپنےمضمون کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ اس موضوع پر ہمیں کتنا سنجید ہ ہوناپڑے گا۔ورنہ حفظ کی کلاسوں میں مدارس میں وزٹ کریں تو  پیارے صاف ستھرے تربیت کی خوشبو سے مہکتے بچے نظر آتے ہیں جنھیں دیکھ کر جی چاہتاہے کہ اپنی اولادوں کو ایسابنایاجائے ۔لیکن ایک دوسرا پہلوبھی ہے جہاں سختی ،تلخی ،مار دھاڑ نے لے رکھی ہے ہم اس کا بھی انکارنہیں کرسکتے ۔

قارئین :

بات طویل ہوجائے گی ۔بیٹے کو حفظ کروانے کے دوران میں بہت کرب سے گزرا۔ڈانٹ ڈپٹ ،بچے کی ذہنی ساکھ کو ناقبل تلافی نقصان پہنچا۔نوررضا  کی بات بتاتاچلوں کہ اللہ پاک نے انھیں تقریر اور آرٹ کا ہنر بہت کم عمر میں عطافرمایا۔انھوں نے تین سال کی عمر میں  پہلی تقریر کی اور پھر سلسلہ جاری رہا۔لیکن درمیان میں ایسی بریک لگی کہ نوررضا کا اعتماد بھی ختم ہوااور طبی اعتبار سے بھی خوف و ڈر کی وجہ سے انکی صحت گری ۔جوکہ مجھ والد کے لیے ایک تشویش کی بات تھی ۔اسی تکلیف اور درد کو محسوس کرتے ہوئے ۔خالصتاخیر خواہی کی نیت سے آپ کے لیے یہ مضمون لکھ رہاہوں کہ قاری حضرات ،مہتم حضرات ،والدین سب ہی اس پر توجہ دے سکیں ۔ہم بچے کو ادارے  میں تو بھیج کر سمجھتے ہیں کہ بس اب سب کام قاری صاحب کا ہے تو یہ بھی درست نہیں ۔قرآن مجید میرے پیارے اللہ پاک کا کلام ہے ۔آپ ادب ملحوظ رکھیں ۔خالص نیت رکھیں اور حفظ کرنے کے بنیادی اُصولوں کو پیش نظر رکھیں تو حفظ کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔

قارئین :آئیے حفظ قرآن کے لیے آسان طریقے جانتے ہیں ۔

حفظ کرنا ایک ذمہ داری ہے

حفظ کرنے سے قبل حفظ کرنے والے یا اس کے والدین کو اس بات کا شدت سے احساس ہونا چاہیے کہ قرآن کو حفظ کرنے کے بعد اسے یاد رکھنا واجب ہو جاتا ہے۔ حافظ قرآن کو اپنی منزل پختہ رکھنے کے لیے مسلسل اتنا وقت نکالنا ہو گا کہ اسے کئی معاشرتی سرگرمیوں کو خیر باد کہنا پڑے گا اور اپنی سرگرمیوں کو محدود کر کے قرآن کی طرف ہی لانا ہو گا۔ مگر قرآن سے اس پختہ تعلق کے باعث جس تفقہ فی الدین اور دوسری برکات سے مستفید ہو گا اسے الفاظ میں بیان کرنا ناممکن ہے۔

والدین  کی ذمہ داری

یہ ناممکن ہے کہ کوئی بچہ والدین کی خاص توجہ کے بغیر ہی قرآن حفظ کر لے اور اس کی منزل درست ہو لہذا والدین کو ابتداء ہی سے یہ ذہن بنانا چاہیے کہ انہیں بچے کی مستقل نگرانی اور راہنمائی (Follow up) کرنی ہو گی۔ورنہ وقت کے ساتھ ساتھ بچہ لاپرواہ ہوتا چلا جائے گا۔

چھوٹی عمر میں حفظ کرائیں

یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ حفظ قرآن کے لیے ابتدائی عمر بہترین ہے۔سوشل میڈیا پر میں نے کئی بچوں کے بارے میں سنا کہ کسی نے 6 سال کی عمر میں کسی نے 9 سال کی عمر میں اور کسی نے 6 ماہ میں حفظ کی سعادت حاصل کی ۔

سبق یاد کرنے کے اوقات

ہم شوق میں اپنے بچے یا بچی کو حفظ تو شروع کروادیتے ہیں لیکن ان کے لیے موذوں و مناسب اوقات کار کے بارے میں ہمیں علم نہیں ہوتا۔جب جی کیا چل پُتر پڑھ قرآن ۔یہ انداز بھی درست نہیں بلکہ بچے کے لیے سبق یاد کرنے کا مناسب ترین وقت فجر ہے ۔اس میں نیند سے اُٹھنے کے بعد بچہ فریش اُٹھاہواہوتاہے نیز اس وقت کی اپنی برکات بھی ہیں بچہ اس وقت اپنا سبق یاد کرے توباآسانی یاد ہوجائے گا۔

بچوں کو عبادت کا ذوق دیں

اللہ پاک کا کلام حفظ کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ دنیا کے بڑے اعزازوں میں سے ایک بڑااعزاز ہے چنانچہ اس ہم کام کو سرانجام دیتے وقت والدین  و اساتذہ عبادت  کا عادی بنائیں ۔انھیں نیکیوں کا حریص بنائیں ۔عبادت بوجھ نہیں شوق سمجھ کر وہ اداکریں ۔یہ عمل بھی انھیں حفظ قرآن میں آسانی کا باعث بنے گا۔

مصحف یعنی قرآن کا انتخاب

جب حفظ اسٹارٹ کیا تو کتنی لائنوں والا قرآن ہے اس کو اچھی طرح دیکھ لیں کیوں کہ حافظ کا تعلق یاداشت سے ہے ۔لہذاجتنی لائنوں والے قرآن سے  حفظ اسٹارٹ کریں اسی پر پڑھنے کا معمول بنائیں تاکہ وہ سطر صفحہ ذہن میں نقش ہوجائے ۔

جدید ٹیکنالوجی کی ضرورت کیوں ؟

قاری صاحب کا انتخاب

آپ بچے یا بچی کو حفظ کرواناچاہتے ہیں یہ اچھی بات ہے لیکن ایسی باجی یا قاری صاحب کے پاس حفظ کروائیں جن کی اپنی منزل مضبوط ہو۔تاکہ وہ پوری طاقت کے ساتھ بچے پر وقت صرف کرسکیں ۔

 ایسا نہ کریں

ایک عمومی مشاہدہ ہے کہ والدین یہ کہتے ہیں کہ بچہ حفظ میں ڈالا ہے یہ کھال آپ کی اور ہڈیاں ہماری ۔یعنی قاری صاحب آپ نے حفظ کروانا ہے آپ جیسے چاہیں تشدد کرگُزریں ۔ایک لمحے کے لیے سوچئیے گا۔آپ بچے کو کرائم پڑھنے بھیج رہیں یا اللہ کاکلام پڑھنے کے لیے ؟بچہ سعادت مند ہے یا مجرم ؟خود سوچیں یہ تو خوش بخت اور مقدر والا بچہ ہے جو حفظ کو جارہاہے ۔اور آپ اس کو مارمار کے ذہنی مریض بنانے پر تُلے ہوئے ہیں ۔قاری صاحب بھی اس بات کو سمجھ لیں یہ اللہ کا مہمان ہے اس کے ساتھ یہ رویہ مت رکھیں ۔یہ انسان ہے اس کے احساس ہیں ۔یہ یاد نہیں کرتا۔آپ ٹیچنگ میتھڈ کے طریقے سیکھیں ۔مختلف انداز اپنائیں ۔تاکہ بچے  کو اس بھنور سے نکال سکیں نہ یہ کہ آ پ اُس پر لاتوں گھوسوں کی برسات کردیں ۔ہاتھ جُوڑ کے عرض ہے پلیز مزاج بدلیں ۔لوگ بہت تیزی سے فتنوں کی زد میں آرہے ہیں یہ جو مدرسوں کی جانب آرہے ہیں انھیں اپنے سینے سے لگالیں یہ قیمتی نگینے ہیں ۔


قاری صاحب بچوں کو انعام دیں

بچے کو اچھی منزل ،صاف ستھرارہنے اور عبادت کرنے پر اس کا حوصلہ بڑھانے کے لیے کبھی کبھاتحفہ بھی پیش کردیاکریں اگر خود نہیں دے سکتے تو ان کے والدین  سے مشاورت کے بعد والدین ہی کے پیسوں سے بچے کو کچھ پیش کردیں یا پھر ادارے کے بجٹ سے ۔آپ کو اندازہ بھی نہیں کہ اس ننھے پیارے اللہ کے دین کے سفیر کا کتنا حوصلہ بلند ہوجائے گا۔آپ کے لیے کتنی محبت پیداہوگی ۔مدرسے آنے اور قرآن پڑھنے کا کتنا ذوق بڑھے گا۔

مقابلے کروائیں

حفظ کے بچوں میں ہفتہ یا مہینہ میں ایک بزم رکھ لیں اور قرآن سے مختلف سوالات کا سیشن رکھ لیں جو اچھے جوابات دے اُس کو انعام دے دیں ۔بچے ہر ہفتے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے ۔

سبق سنانے میں اہم بات

جو سبق حفظ کے لیے تیار کیا جائے اسے استاد کو سنا کر تسلی کر لی جائے۔بچہ اپنے کلاس فیلو کو دو تین بار سنا دے ۔قاری صاحب پھر سبق خود سنیں تاکہ یہ سب آگے چل کر کمزور منزل کا ذریعہ نہ بنے  ۔


متشابہ مقامات کا حل :

قاری صاحب جس جس پارے میں متشابہ ہو بچے کو وہ آیات و مقام ذہن میں نقش کرودیں نیز اُن آیات کے اختتام اور ابتدا بچوں کو  بتادیں ۔نیز ممکن ہوتو ان آیات کے مفہوم بتادیں اس سے متشابہ کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گاْ۔

خود اعتماد ی

بچے کی نفسیات سمجھیں

استاد طالب علم کی استعداد کے مطابق اُسے سبق دے ۔تاکہ بچہ باآسانی یادکرسکے ۔وہ بچے جنکا حافظہ مضبوط ہے اور زیادہ سبق یاد ہوسکتاہے استاد انھیں ان کے مطابق ہی یادکروائیں ہر بچے کی ذہنی سطح ایک جیسی نہیں ہوتی ۔لہذابچوں کی نفسیاتی کیفیت کاادراک بہت ضروری ہے ۔

 

سبقی پارہ ،منزل :

روزانہ گزشتہ تقربیاً بیس اسباق پہ مشتمل سبقی سیپارہ سنایا جائے۔ روزانہ اپنے سبق کو سبقی سیپارہ میں شامل کیا جائے اور آخری سبق کو سبقی سیپارہ سے حذف کر دیا جائے۔ سبقی سیپارہ کی مقدار تقریباً ایک سیپارہ پہ مشتمل ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ روزانہ کم از کم ایک یا دو سیپاروں پہ مشتمل منزل سنائی جائے۔ منزل کم کرنے کا نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر سیپارے کی باری تاخیر سے آئے گی اور اس طرح منزل کی پختگی برقرار رکھنا مشکل ہو جائے گی۔

منزل کا بھروقت سننے کے فائدے

قرآن حفظ کرنے کے دوران سب سے زیادہ پریشان کن مرحلہ وہ ہوتا ہے جب کوئی زیادہ سیپارےحفظ کر چکا ہو اور اس کی منزل کچی ہو۔ اس مسلہ سے تقریباً ہر حافظ کبھی نہ کبھی دوچار ہوتا ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ عمومی حالات میں منزل ایک سیپارے سے کم نہ رکھی جائے۔ 2 سیپارے ہوں تو بہتر ہے تا کہ ہر سیپارے کی باری جلدی آئے اور منزل کا عمومی معیار بہتر ہو۔

بنیاد مضبوط رکھیں:

جن کی منزل کم ہو وہ بھی ممکن حد تک زیادہ سے زیادہ منزل ہی سنائیں تا کہ ابتدائی بنیادیں مضبوط ہوں اور وہ اس پریشان کن مرحلہ میں اپنا دل نہ چھوڑ بیٹھیں۔

حافظہ کی کمزوری کاحل :

اگر کوئی حافظ اپنی منزل کی کمزوری کی وجہ سے روزانہ دو سیپارے یا ایک سیپارا منزل نہیں سنا سکتا تو ایسی صورت میں مزید سبق فوری طور پہ بند کر کے منزل کی طرف مکمل توجہ دی جائے حتیٰ کہ جب منزل پختہ ہو جائے تو پھر دوبارہ سبق شروع کیا جائے۔ کچی منزل سے بعض دفعہ معاملہ ایسا بھی بگڑ سکتا ہے کہ معاملہ سنبھالنا بہت ہی مشکل ہو جائے۔ لہذا ہر حالت میں منزل کچی نہ ہونے دی جائے۔ حافظ قرآن کو دَور کرنے کی عادت ڈالنی چاہیے یعنی دو حافظٖ مل کر اپنی منزل ایک دوسرے کو سنائیں۔

 

قارئین :

یہ ایسا مضمون ہے کہ میں اس پر گھنٹوں لکھ سکتاہوں اس کی دو بڑی وجہ ہیں ایک تو میرا قرآنیات سے جنون کی حد تک پیار ہے دوسرایہ کہ میں نے مشاہدہ و تجربہ دونوں کررکھاہے مجھے جوجو مسائل پیش آئے یا سر کی آنکھوں سے ملاحظہ کیے ۔سوچا کیوں نہ اپنے پیاروں کو بھی بتادوں ۔

آخر میں حفاظ کرام سے عرض ہے کہ آپ نے حفظ کرلیا۔اب اپنے حفط کو آپ نے قائم بھی رکھناہے اس کے لیے ہم کچھ  نکات آپ کو بتانے لگے ہیں آپ عمل کیجئے گاآپکو فائدہ ہوگا۔

()نوافل پڑھیں

()قرآن سننے و سنانے کا معمول رکھیں

()اللہ پاک سے دعاوں کا سلسلہ جاری رکھیں نیز حافظہ کے مضبوط ہونے کے لیے عربی دعائیں و وظائف کا اہتمام کیجئے

()سفر و حضر میں فارغ اوقات میں قرآن پڑھتے رہاکریں

()اپنے موبائل میں قرآن ایپ ڈاون لوڈ کریں ۔

()آڈیو کی صورت میں تلاوت کلام سنتے رہاکریں

()قرات کے مقابلوں میں حصہ لیتے رہاکریں ۔

()جب جب موقع ملے اپنے استاد صاحب سے رابطے میں رہیں ۔ان کی خدمت کرتے رہیں ۔انکی دعا آپکو سرخرو کردے گی ۔

()روزانہ اپنے پڑھنے کے لیے پارے طے کرلیں کہ مجھے ان اوقات میں اتنے پارے ہر حال میں دورانے ہیں

()ہر سال تراویح میں قرآن سننے یا سنانے  میں سستی مت کریں

()کوشش کریں حفظ کے بعد ایسی فیلڈ اپنائیں جہاں قرآن پڑھنے پڑھانے سے تعلق باقی رہے ۔

()کسی کو قرآن پڑھانے کی کوشش کریں کسی کوحفظ کروانے کی نیت کرلیں ۔

قارئین :مضمون بہت طویل ہوگیا۔آخر میں بس اتنا ہی کہ حفظ قرآن عظیم کام ہے ۔اس کے لیے اہل اساتذہ کا انتخاب ضروری ہے نیز والدین اپنی ذمہ داری کا پوراخیال رکھیں اور بچہ اپنے مقام اور شرف کو سمجھے ۔

اللہ کریم ہمیں  قرآن پاک کی برکتوں سے بہرہ مند فرمائے ۔ہماری کوشش آپ کے لیے  خیر ثابت ہوتو ہماری مغفرت کی دعاکردیجئے گا۔

...................................................................................................................


نوٹ:کیرئیر کونسلنگ ،طبی مشوروں اور آن لائن کورسز کے لیے آپ ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔

رابطہ :03462914283/وٹس ایپ :03112268353 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا