نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈینگی بخار کا علاج

Roznama dunya


ڈینگی بخار کا علاج

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

بیماری کوئی بھی ہو انسان کمزور ہے وہ صرف و صرف اللہ کے فضل و کرم ہی کی بدولت ہی زندگی گزار سکتاہے۔ایک معمولی سی بیماری بھی انسان کو توڑ کررکھ دیتی ہے ۔

قارئین:

آئیے ہم آپ کو ڈینگی جیسے مرض کے علاج کے بارے میں بتاتے  ہیں تاکہ آپ اس جان لیوامرض سے محفوظ رہ سکیں اور اپنے پیاروں کو بھی اس سے محفوظ رکھنے کی کوشش میں کامیاب ہوسکیں ۔

آج کے اس مضمون میں بہت ہی اہم ترین ہے ۔مضمون مکمل  پڑھیں

آپ یا آپ کا کوئی عزیز ڈینگی کا شکار ہے تو پریشان نہ ہوں ۔ہم بتانے جارہے ہیں آپ کو بہت ہی زبردست اور مجرب علاج کے طریقے مگر آپ پوری توجہ سے کے ساتھ ہماری پیش کردہ معلومات سنیں بھی اور اچھے سے سمجھ بھی لیں ۔

آئیے بڑھتے ہیں ۔ڈینگی بخار کے علاج کی جانب ۔


ڈینگی سے بچاؤ کے لیے احتیاطی اقدامات کرنا بہت ضروری ہیں۔ جو مچھر ڈینگی کی افزائش کرتے ہیں وہ ٹھہرے ہوئے پانی میں پروان چڑھتے ہیں جن میں ٹائر، پلاسٹک کے غلاف، پھولوں کے گملے، پالتو جانوروں کے پانی کے پیالے وغیرہ شامل ہیں۔ ان مچھروں کی رہائش گاہ کو کم کرنا (افزائش روکنے کے لیے ٹھہرے ہوئے پانی کو ضائع کریں) ڈینگی کو روکنے میں مدد کر سکتا ہے۔

آپ کے اے سی سےخارج ہونے والا پانی یا باغ میں جمع پانی بھی ان کی افزائش گاہ ہوسکتا ہے۔ اگر گھر کے اندر سٹور روم یا کچن کی اونچی جگہیں موجود ہیں جہاں آپ پرانی چیزوں کا ڈھیر لگاتے ہیں تو ان جگہوں کو صاف کریں کیونکہ وہاں مچھروں  کے گھر بننے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔ اپنے گھر کے بالکل باہر خالی گڑھوں کو بھرلیں تاکہ آپ کے گھر کے آس پاس یہ کم ہوجائیں اور نالیوں کو باقاعدگی سے صاف کرکے ڈھک دیا جائے۔


قارئین:

مچھر دانی کے نیچے سونا آپ کو اور آپ کے بچوں کو مچھروں کے کاٹنے سے اور ڈینگی سے بچاسکتا ہے۔ مچھروں کے کاٹنے سے خود کو بچانے کا مچھر دانی بہترین طریقہ ہے۔

اگرچہ ڈینگی ایک شخص سے دوسرے شخص میں نہیں پھیلتا لیکن مچھر ڈینگی بخار میں مبتلا کسی کو کاٹنے کے بعد بھی انفیکشن کا شکار ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم محتاط رہیں اور معاشرے میں اس خطرناک بیماری کو پھیلنے سے روکیں۔


قارئین:

آئیے ڈینگی بخار سے حفاظت کے لیے وظیفہ جانتے ہیں ۔

وضوکرکے پوری توجہ کے ساتھ پارہ 7سورۃُ الانعام کی آیت نمبر 17 ، 16 کاغذ پر لکھ کر پلاسٹک کوٹنگ کروا کر گھر کے دروازے پر لٹکا دیجئے اِن شآءَ اللہ تمام گھر والے ڈینگی وائرس سے محفوظ رہیں گے۔قراٰنِ کریم سے یہ آیتیں فوٹو کاپی بھی کروا سکتے ہیں۔

آپ خود اس وظیفے کی برکات محسوس کریں گے ۔مزیدروحانی وظیفہ بھی جان لیجئے ۔تاکہ خیر و برکت کے اس سفر میں زیادہ سے زیادہ فیضیاب ہوسکیں ۔

  ” یَاشَافِیَ الْاَمْرَاض  “ 100 بار روزانہ صبح و شام پڑھ کر ڈینگی کے مریض پر دَم کیجئے اِن شآءَ اللہ تین دن میں شفاء ملے گی اوّل آخر ایک بار درود شریف بھی پڑھ لیجئے۔

قارئین

فضل و کرم کے تمام راستے یاد الہی کی کی جانب جاتے ہیں آپ اللہ پاک کی یاد سے جُڑ جائیں ۔سب دکھ درد ،بیماریاں  دور ہوجائیں گیں ۔کرم ہی کرم ہوجائے گا۔

آپ ایک اور روحانی علاج بھی جان لیجئے گا جو ڈینگی کے مرض میں آپ کو دے گا صحت وتندرسی کی برکتیں۔

آپ سورۃ الفاتحہ 41 مرتبہ اول و آخر درود ابراہیمی کے ساتھ پڑھ کر صبح و شام مریض پر دم کریں اور پانی پر دم کرکے پلائیں۔ اللہ کے فضل وکرم سے مریض جلد صحت یاب ہوگا۔

نیز سورۂ رحمن اور سورۂ تغابن مریض پر پڑھ کر دم کریں اور پانی پر دم کرکے پلائیں اور سورۂ رحمن مریض کو سنائیں تین دن میں شفایابی ہوگی۔

عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ڈینگی سے ہونے والی اموات دنیا میں ہونے والی اموات کا 4 فیصد ہیں اور احتیاط کے ذریعے ہی اس مرض سے بچنا ممکن بنایا جا سکتا ہے ڈینگی کے مچھر صاف پانی میں رہنا پسند کرتے ہیں اور طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے وقت زیادہ نمودار ہوتے ہیں، اس لیے گھر میں کھانے پینے کی تمام اشیاء،گھروں میں موجود پینے کے پانی کے برتن بھی ڈانپ کر رکھے جائیں تبھی اس خطرناک بیماری سے بچا جاسکتا ہے۔

گھروں میں استعمال ہونے والی ٹنکیوں کو اچھی طرح صاف کیا جائے اور اس بات کا خیال رکھا جائے کہ پانی اسٹور کرنے والے برتن صبح و شام صاف کیے جائیں۔ ڈینگی مچھر کے حملے سے بچنے کے لیے سب سے ضروری ہے کہ اس کی افزائش نسل کو روکا جائے، جس کے لیے ضروری ہے کہ گھروں میں صفائی ستھرائی کا خاص خیال رکھا جائے ۔ آس پاس موجود پینے کے پانی خاص طور پر گڑھوں میں ٖصفائی کا مکمل خیال رکھا جائے تاکہ ان میں مچھر پیدا نہ ہو۔گھر میں ہرمل اور گوگل کی دھونی دینے سے ہر قسم کے کیڑے مکوڑے، مچھروں ،لال بیگ اور چهپکلی و غیره ختم ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اگر ہرمل کا پودا کمرے میں رکھا جائے تو اس سے مچھر کمرے میں داخل نہیں ہوں گے۔

اگر جسم کے کھلے حصے پر کڑوا تیل جیسے کہ تارا میرا کا تیل لگایا جائے تو مچھر کاٹنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ اس کے علاوہ جسم کے کھلے حصے پر لوشن وغیرہ لگانا بھی بہتر ہے۔

ڈینگی مچھر سے بچنے کے لیے اپنے گھروں میں مچھر مار سپرے کروانا بہت ضروری ہے۔ مچھر بھگاؤ لوشن کا استعمال کریں۔ پورے جسم کو ڈھکنے والے کپڑے استعمال کریں۔ اپنے گھروں کے دروازوں کے سوراخ اور دیگر روشن دان کو بند کر دیں۔ اگر آپ کو شک ہے کہ آپکا کوئی عزیز یا آپ خود اس بیماری کا شکار ہیں تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

قارئین:

ایک بات ذہن نشین کرلیں کے جب بھی روحانی علاج کے وظیفہ پرعمل کرلیں تو اپنے دل ودماغ میں یہ بات راسخ کرلیں کہ میرا کریم رب مجھے ضرور شفاعطافرمائے گا۔اللہ کریم ہمارے بیماروں کو شفاعطافرمائے ۔آمین ۔

ایک اور بہترین مضمون کے ساتھ پھر حاضر ہوں گے ۔تب تک کے لیے اللہ حافظ

 

 

 

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا