نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں میں نظر کی کمزوری



بچوں میں نظر کی کمزوری   کی وجوہات

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

میری بیٹی قرآن پاک حفظ کررہی ہیں انھوں نے گھر میں ماں کو کئ بات بتایا کہ سر میں درد ہوتاہے مجھ ٹھیک سے نظر نہیں آرہاہے ۔مجھےمعلوم ہواتو میں نے بچی کی نظر چیک کروائی تو معلوم ہواکہ ان کی تو نظر کمزور ہوچکی ہے ۔پریشان کن بات تھی لیکن پھر میں نے نظر اور نظر سے جُڑے ٹاپکس پر پڑھنا شروع کیاتو بہت سی چیزیں اور معلومات نے میرے ذہن کی گرہ کھولی ۔سوچاکیوں نہ بچوں میں نظر کمزور ہونے کے حوالے سے کچھ اہم باتیں آپ سے بھی شئیر کرلوں ۔۔

بچوں میں نظر کی کمزور کی کچھ وجوہات ہیں ۔آپ بھی پڑھ لیجئے ۔کبھی تفصیل سے اس پر بات کریں گے ۔

ینائی کی کمزوری کی مختلف وجوہات ہوسکتی ہیں ، ان میں سے 8 درج ذیل ہیں :

(1)آنکھ کا بھینگا پن (Strabismus

(2)آنکھ کے عدسے کا دُھندلا پَن یعنی موتیا(Cataract

(3)پیوٹے کا جھکاؤ (ptosis

(4)وقت سے پہلے پیدائش (Premature birth

(5) بھینگے پَن یا نظر کی کمزوری کا موروثی ہونا۔

(6)آنکھوں کا تِرچھا پن (Astigmatism

(7)کوئی بھی ایسی بیماری جس میں آنکھوں پر اثر پڑے۔

(8)نظر کی اضطراری خرابی (Refractive error

قارئین:ایک بنیادی بات رہ گئی جو بچوں کی نظر کمزور ہونے کے حوالے سے آپ کو بتانی تھی وہ یہ کہ بچّوں میں بینائی کی کمزوری کو ایمبلی اوپیا(Amblyopia) کہتے ہیں۔ جب دماغ پوری طرح بینائی کو آنکھ کی طرف منتقل نہیں کرتا تو ایمبلی اوپیا ہوجاتا ہے۔ یہ عام طور پر ایک آنکھ میں ہوتا ہے لیکن دونوں آنکھوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ ایمبلی اوپیا کو سُست آنکھ یعنی Lazy eye بھی کہتے ہیں۔نظر کی کمزوری کی وجوہات اور علاج کا جانناہم سب کے لیے بہت ضروری ہے ورنہ بینائی جیسی نعمت سے محرومی کا مطلب آپ سمجھ سکتے ہیں ۔گویا زندگی ہی داوپر لگ گئی ۔

مزید ایسے مضامین پڑھنے کے لیے اپنے اس بلاگ سے جڑے رہیے ۔ویڈیوز کی صورت میں بہترین معلومات کے حصول کے لیے آپ Dr Zahoor Danish چینل وزٹ کیجئے 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

رزق و روزگار کے لیے یہ مضمون پڑھیں:

https://www.blogger.com/blog/post/edit/633175920604818639/3204900819108126044?hl=en



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا