سورۃ
ہُمَزَہ
تمہید:
قرآن مجید اللہ تعالیٰ
کا کلام ،اس کی آخری کتاب اور اس کا ایک معجزہ ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی
جانے والی کتاب ہے۔اس نے اپنے سے پہلے کی سب الہامی کتابوں کو منسوخ کردیا ہے۔
اوران میں سےکوئی بھی آج اپنی اصل صورت میں محفوظ نہیں ۔ البتہ قرآن تمام پہلی کتابوں
کی تعلیمات کواپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔اور قرآن مجید واحد ایسی کتاب کے جو پوری
انسانیت کےلیے رشد وہدایت کا ذریعہ ہے اللہ تعالی نے اس کتاب ِہدایت میں انسان کو
پیش آنے والےتما م مسائل کو تفصیل سے بیان کردیا ہے جیسے کہ ارشادگرامی ہے کہ و نزلنا عليك الكتاب تبيانا لكل شيء قرآن مجید سیکڑوں
موضوعا ت پرمشتمل ہے۔مسلمانوں کی دینی زندگی کا انحصار اس مقدس کتاب سے وابستگی پر
ہے اور یہ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اسے پڑ ھا اور سمجھا نہ جائے۔ قرآن کریم کا
یہ اعجاز ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ خود لیا۔اور قرآن کریم ایک
ایسا معجزہ ہے کہ تمام مخلوقات مل کر بھی اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہیں۔قرآن کی
عظمت کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے ہ یہ کتاب جس سرزمین پر نازل ہوئی
اس نے وہاں کے لوگوں کو فرشِ خاک سے اوجِ ثریا تک پہنچا دیا۔اس نےان کو دنیا کی
عظیم ترین طاقت بنا دیا.
سورۃ
ہُمَزَہ تعارف
مقامِ نزول: سورۂ ہُمَزَہْ مکہ
مکرمہ میں نازل ہوئی ہے۔
رکوع اور
آیات کی تعداد: اس سورت میں 1رکوع
اور 9آیتیں
ہیں ۔
’’ہُمَزَہْ ‘‘نام رکھنے کی
وجہ :ہُمَزَہْکا معنی ہے لوگوں کے منہ پر عیب نکالنے والا،اور اس سورت کی پہلی
آیت میں یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے
اسے ’’سورۂ ہُمَزَہْ
‘‘ کہتے
ہیں ۔
طاقت بنا دیا.
سورۃ
ہُمَزَہ کے مضامین
اس
سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں غیبت
کرنے والے اورمنہ پر عیب نکالنے والے کی مذمت بیان کی گئی ہے اور اس سورت میں یہ مضامین بیان ہوئے ہیں
(1) …اس سورت کی ابتدا
میں غیبت کرنے والے اور عیب نکالنے والے
کے لئے آخرت میں شدید عذاب کی خبر دی گئی
ہے۔
(2) …ان لوگوں کی مذمت کی گئی ہے جو دنیا کا مال جمع کرنے کے
ایسے حریص ہیں جیسے انہوں نے دنیا میں
ہمیشہ رہنا ہے اور یہ بتایاگیا کہ انہیں
جہنم کے اس دَرَکہ(یعنی طبقے) میں پھینکا جائے گا
جہاں آگ ان کی ہڈیاں پسلیاں
توڑ ڈالے گی۔
طاقت بنا دیا.
مال
جمع کرنے کی مذموم صورتیں
یاد رہے کہ مال جمع کرنا اور گن گن کر
رکھنا چند صورتوں میں برا ہے،(1) حرام ذرائع سے مال جمع کیا جائے۔
(2) جمع شدہ مال سے شرعی حقوق ادا نہ کئے جائیں ۔ (3)مال جمع کرنے میں ایسا مشغول ہو جانا کہ اللّٰہ تعالیٰ کو بھول جائے۔(4)اللّٰہ
تعالیٰ پر توکُّل کرنے کی بجائے صرف مال کو آفات دور کرنے کا ذریعہ سمجھا جائے۔
یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ
اَخْلَدَهٗۚ(۳)كَلَّا
لَیُنْۢبَذَنَّ فِی الْحُطَمَةِ٘ۖ(۴)وَ مَاۤ اَدْرٰىكَ مَا الْحُطَمَةُؕ(۵) نَارُ اللّٰهِ الْمُوْقَدَةُۙ(۶)الَّتِیْ تَطَّلِعُ
عَلَى الْاَفْـٕدَةِؕ(۷) اِنَّهَا عَلَیْهِمْ مُّؤْصَدَةٌۙ(۸) فِیْ عَمَدٍ مُّمَدَّدَةٍ۠(۹)
ترجمۂ کنزالایمان: کیا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے دنیا میں ہمیشہ رکھے گا۔ہر گز نہیں ضرور وہ روندنے والی میں پھینکا جائے گا۔اور تو نے کیا جانا کیا روندنے
والی۔ اللّٰہ کی آگ کہ بھڑک رہی ہے۔وہ جو دلوں پر چڑھ جائے گی۔بیشک وہ ان پر بند کردی جائے
گی۔لمبے لمبے ستونوں میں ۔
ترجمۂ کنزُالعِرفان: وہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے (دنیا
میں ) ہمیشہ رکھے گا۔ ہر گز نہیں ،وہ ضرور ضرور چورا چورا کردینے
والی
میں پھینکا جائے گا۔اور تجھے کیا معلوم کہ
وہ چورا چورا کردینے والی کیا ہے؟وہ اللّٰہ کی
بھڑکائی ہوئی آگ ہے ۔وہ جو دلوں پر چڑھ
جائے گی۔بیشک وہ ان پر بند کردی جائے گی۔لمبے لمبے ستونوں میں ۔
{یَحْسَبُ اَنَّ مَالَهٗۤ اَخْلَدَهٗ: وہ
سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے (دنیا میں ) ہمیشہ رکھے گا۔} اس آیت اور اس کے بعد والی6آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ
لوگوں کے منہ پر عیب نکالنے، پیٹھ پیچھے
برائی کرنے، مال جوڑنے اور گن گن کر رکھنے والا یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مال اسے
دنیا میں ہمیشہ رکھے گا اور مرنے
نہیں دے گا جس کی وجہ سے وہ مال کی محبت
میں مست ہے اور نیک عمل کی طرف مائل
نہیں ہوتا،ایساہر گز نہیں ہوگا بلکہ وہ ضرور ضرور جہنم کے چورا چورا
کردینے والے طبقے میں پھینکا جائے گا
جہاں آگ اس کی ہڈیاں پسلیاں
توڑ ڈالے گی اور تجھے کیا معلوم کہ وہ چورا چورا کردینے والی کیا ہے؟وہ اللّٰہ کی بھڑکائی ہوئی آگ ہے جو کبھی سرد نہیں ہوتی اور اس کا وصف یہ ہے کہ وہ جسم کے ظاہری
حصے کو بھی جلائے گی اور جسم کے اندر بھی پہنچے گی اور دِلوں کو بھی جلائے گی ۔ بیشک انہیں آگ میں
ڈال کر دروازے بند کردیئے جائیں گے
اور دروازوں کی بندش آتشیں لوہے کے ستونوں سے مضبوط کردی جائے گی تاکہ کبھی دروازہ نہ
کھلے اور بعض مفسرین نے اس کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ دروازے بند کرکے آتشیں ستونوں
سے اُن کے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے
جائیں گے۔( خازن،
الہمزۃ، تحت الآیۃ: ۳-۹، ۴
/ ۴۰۶، ملخصاً)
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ
گزر گئے
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں