نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃماعون کے بارے میں معلومات



سورۃماعون

تمہید:

ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَخاتم النبیین ہیں ، حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقۂ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں ، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں نہ وہ کہ کوردہ اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں ۔

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق

تعارف سورۃماعون

مقامِ نزول: سورۂ ماعون مکیہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سورت آدھی عاص بن وائل کے بارے میں  مکہ مکرمہ میں  نازل ہوئی اور آدھی عبداللّٰہ بن ابی سلول منافق کے بارے میں مدینہ طیبہ میں  نازل ہوئی۔( خازن، تفسیر سورۃ الماعون، ۴  /  ۴۱۲)

رکوع اور آیات کی تعداد:اس سورت میں  1رکوع اور 7 آیتیں  ہیں ۔

’’ماعون ‘‘نام رکھنے کی وجہ :ماعون کا معنی ہے استعمال کی معمولی چیز،اور اس سورت کی آخری آیت میں  یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ ماعون‘‘ کہتے ہیں ۔

 

سورۃ  ماعون کے مضامین

اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں  کافروں  اور منافقوں  کی مذمت بیان کی گئی ہے اور اس میں  یہ مضامین بیان ہوئے ہیں :

(1) اس سورت کی ابتدائی آیات میں  ان کافروں  کی مذمت کی گئی جو حساب اور جزا کے دن کو جھٹلاتے ہیں  ،یتیم کو دھکے دیتے ہیں  اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتے۔

(2) آخری آیات میں  ان منافقوں  کی مذمت کی گئی جو لوگوں  کے سامنے نمازی بنتے اور تنہائی میں  نمازیں  چھوڑتے تھے اور لوگوں  کے سامنے بھی جو نمازیں  ادا کرتے ان سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے لوگوں  کو یہ دکھانا مقصود ہوتا تھا کہ ہم بھی نمازی ہیں  اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ایک بری خصلت یہ تھی کہ اگر ان سے کوئی استعمال کی   معمولی چیز مانگتا تو وہ اسے منع کردیتے تھے۔

 

 

 

ترجمہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔۔ترجمۂ کنزالایمان: اللّٰہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱)

ترجمۂ کنزالایمان: بھلا دیکھو تو جو دین کو جھٹلاتا ہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔

{اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِ:

 کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔} شانِ نزول : اس آیت کے

فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲)

ترجمۂ کنزالایمان: پھر وہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ(۳)

ترجمۂ کنزالایمان: اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں  دیتا ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتا۔

 

 

 

تفصیلات

شانِ نزول کے بارے میں:

ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے بارے میں  نازل ہوئی ،وہ قیامت کے دن کا انکار کرتا تھا اور برے کام بھی کیا کرتا تھا۔

            دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی۔

 

تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو جہل کے بارے میں  نازل ہوئی،مروی ہے کہ ابو جہل نے ایک یتیم کی پرورش کی ذمہ داری لی،ایک دن وہ یتیم ننگے بدن اس کے پاس آیا اور اپنے مال میں  سے کچھ طلب کیا،اُس نے اسے دھکے دے کر نکال دیا ۔قریش کے سرداروں  نے اس سے کہا کہ تم محمد(مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کر دیں  گے،اس سے ان لوگوں  کا مقصد نبیٔ  کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مذاق اڑانا تھا لیکن یتیم کو یہ چیز معلوم نہ تھی،چنانچہ وہ یتیم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور اپنی فریاد پیش کی اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کبھی کسی       محتاج کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے،چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس یتیم کے ساتھ ابو جہل کے پاس گئے ،اس نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دیکھ کر مرحبا کہا اور فوراً یتیم کا مال اس کے حوالے کر دیا۔یہ دیکھ کر قبیلہ قریش کے لوگوں  نے اسے عار دلایا اور کہا کہ تو اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ ابو جہل نے جواب دیا : خدا کی قسم!میں  اپنے دین سے پھرا نہیں  ،اصل بات یہ ہے کہ میں  نے اُن کی دائیں  اور بائیں  طرف ایک نیزہ دیکھا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں  نے ان کی بات نہ مانی تو یہ نیزہ مجھے پھاڑ ڈالے گا۔

             چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت کسی خاص آدمی کے بارے میں  نازل نہیں  ہوئی بلکہ اس میں  ہر وہ شخص داخل ہے جو قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نیک اعمال کرنا اور ممنوعات سے رکنا ثواب میں  رغبت اور عذاب کے ڈر سے ہوتا ہے تو جب وہ قیامت کا ہی منکر ہو گا تو وہ نفسانی خواہشات اور لذتوں  میں  سے کچھ نہ چھوڑے گا ،اس سے ثابت ہوا کہ قیامت کا انکارکفر اور گناہوں  کی تمام اَقسام کی بنیاد کی طرح ہے۔اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انسان!کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہوجو دلائل واضح ہونے کے باوجود حساب اور جزاکا انکار کرتا ہے، اگر نہیں  پہچانتے تو سنو:یہ وہ شخص ہے جو اپنے کفر کی وجہ سے یتیم کو دھکے دیتا،ڈانٹتا اور مارتا ہے اور اس کے ساتھ ظلم کرتے ہوئے اس کا حق اور اس کا مال اسے نہیں  دیتا اور اپنے انتہا درجے کے بخل،دل کی سختی اور کمینے پن کی وجہ سے مسکین کو کھانا نہیں  دیتا اور نہ ہی وہ کسی اور کویتیم کو کھانا دینے کی ترغیب دیتا ہے کیو نکہ وہ اس عمل پر ثواب ملنے کا اعتقاد نہیں  رکھتا،اگر وہ جزا پر ایمان لاتا اور وعید پر یقین رکھتا تو اس سے یہ اَفعال صادر نہ ہوتے۔( تفسیر کبیر، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۱۱  /  ۳۰۱-۳۰۳، خازن، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۴  /  ۴۱۲، ملتقطاً)

 

{فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ: پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔} یعنی دین کو جھٹلانے والے شخص کا اخلاقی حال یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

 

 

اسلام کی نظر میں یتیم

اس آیت میں  کفار کا یتیموں  کے ساتھ سلوک بیان کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے یتیموں  کے بارے میں  اسلام کی تعلیمات ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ یتیموں  کے سرپرستوں  سے ارشاد فرماتا ہے: 

’’وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا‘‘(النساء:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یتیموں  کو ان کے مال دیدو اور پاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لواور ان کے مالوں  کو اپنے مالوں  میں  ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  لَا  تُؤْتُوا  السُّفَهَآءَ  اَمْوَالَكُمُ  الَّتِیْ  جَعَلَ  اللّٰهُ  لَكُمْ  قِیٰمًا  وَّ  ارْزُقُوْهُمْ  فِیْهَا  وَ  اكْسُوْهُمْ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا‘‘(النساء:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورکم عقلوں  کوان کے وہ مال نہ دو جسے اللّٰہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایاہے اور انہیںاس مال میں  سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  لْیَخْشَ الَّذِیْنَ  لَوْ  تَرَكُوْا  مِنْ  خَلْفِهِمْ  ذُرِّیَّةً  ضِعٰفًا  خَافُوْا  عَلَیْهِمْ   ۪-  فَلْیَتَّقُوا  اللّٰهَ

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور وہ لوگ ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ تے تو ان کے بارے میں  کیسے اندیشوں  کا وَ  لْیَقُوْلُوْا  قَوْلًا  سَدِیْدًا‘‘ (النساء:۹)

شکار ہوتے۔تو انہیں  چاہیے کہ اللّٰہ سے ڈریں  اور درستبات کہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا‘‘ (النساء:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک و ہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں  کا مال کھاتے ہیں  وہ اپنے پیٹ میں  بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں  جائیں  گے۔

            اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں  میں  بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں  یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھاسلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں  میں  بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں  یتیم ہو اور اس کے ساتھ براسلوک کیا جاتا ہو ۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حقّ الیتیم، ۴  /  ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)

            اورحضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،  رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’ جو کسی یتیم کے سر پر اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرے تو اس کے لیے ہر اس بال کے عِوَض نیکیاں  ہوں  گی جس پر اس کا ہاتھ پھرے اور جو اپنے پاس رہنے والے یتیم لڑکے یا یتیم لڑکی سے بھلائی کرے توجنت میں  مَیں  اور وہ ان کی طرح ہوں  گے، اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دو انگلیاں  ملائیں  ۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی... الخ، ۸  /  ۳۰۰، الحدیث: ۲۲۳۴۷)

            کفار کے طرزِ عمل اور اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ بچوں  کے حقوق کی حفاظت کے لئے جو اِقدامات دین ِاسلام نے کئے اور جو احکامات دین ِاسلام نے دئیے ان کی مثال کسی اور دین میں  نہیں  مل سکتی۔

{وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ: اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتا۔} یعنی دین کو جھٹلانے والے کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں  اور دیگر مالداروں  کو اس بات کی ترغیب نہیں  دیتا کہ وہ مسکین کو کھانا دیں ۔( روح البیان، الماعون، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰  /  ۵۲۲)

 

 

ایک ایما افروز واقعہ

ایک بُزُرْگ کا بیان ہے کہ میں پہلے بڑا گنہگارتھا، ایک دن کسی یتیم(Orphanکو دیکھا تو میں نے اس سے اتنا زیادہ عزّت و محبت بھرا سلوک کیا جتنا کہ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں کرتا ہوگا۔ رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ جہنّم کے فِرِشتے بڑے بُرے طریقےسے مجھے گھسیٹتے ہوئے جہنّم کی طرف لے جارہے ہیں اور اچانک وہ یتیم درمیان میں آ گیا اور کہنے لگا: اسے چھوڑدو تاکہ میں ربِّ کریم سے اس کے بارے میں گفتگو کرلوں، مگر فِرشتوں نے انکار کردیا، پھر ایک نِداسنائی دی:اسے چھوڑ دو! ہم نے یتیم پر رَحم کرنے کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے۔ خواب ختم ہوتے ہی میری آنکھ کُھل گئی، اس دن سےہی میں یتیموں کے ساتھ انتہائی باوقارسلوک کرتا ہوں۔(مکاشفۃ القلوب، ص231معلوم ہوا کہ یتیم سے کیا گیا حُسنِ سُلوک دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا