نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سورۃماعون کے بارے میں معلومات



سورۃماعون

تمہید:

ایمان اسے کہتے ہیں کہ سچے دل سے اُن سب باتوں کی تصدیق کرے جو ضروریاتِ دین ہیں اور کسی ایک ضرورتِ دینی کے انکار کو کفر کہتے ہیں ، اگرچہ باقی تمام ضروریات کی تصدیق کرتا ہو۔ ضروریاتِ دین وہ مسائلِ دین ہیں جن کو ہر خاص و عام جانتے ہوں ، جیسے اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی وحدانیت، انبیا کی نبوت، جنت و نار، حشر و نشر وغیرہا مثلاً یہ اعتقاد کہ حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَخاتم النبیین ہیں ، حضور (صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ کے بعد کوئی نیا نبی نہیں ہوسکتا۔ عوام سے مراد وہ مسلمان ہیں جو طبقۂ علما میں نہ شمار کیے جاتے ہوں ، مگر علما کی صحبت سے شرفیاب ہوں اور مسائلِ علمیہ سے ذوق رکھتے ہوں نہ وہ کہ کوردہ اور جنگل اور پہاڑوں کے رہنے والے ہوں جو کلمہ بھی صحیح نہیں پڑھ سکتے، کہ ایسے لوگوں کا ضروریاتِ دین سے ناواقف ہونا اُس ضروری کو غیر ضروری نہ کر دے گا، البتہ ان کے مسلمان ہونے کے لیے یہ بات ضروری ہے کہ ضروریاتِ دین کے منکر نہ ہوں اور یہ اعتقاد رکھتے ہوں کہ اسلام میں جو کچھ ہے حق ہے، ان سب پر اِجمالاً ایما ن لائے ہوں ۔

قہاری و غفاری و قدوسی و جبروت

یہ چار عناصر ہوں تو بنتا ہے مسلمان

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے

مومن کی یہ پہچان کہ گم اُس میں ہیں آفاق

تعارف سورۃماعون

مقامِ نزول: سورۂ ماعون مکیہ ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ سورت آدھی عاص بن وائل کے بارے میں  مکہ مکرمہ میں  نازل ہوئی اور آدھی عبداللّٰہ بن ابی سلول منافق کے بارے میں مدینہ طیبہ میں  نازل ہوئی۔( خازن، تفسیر سورۃ الماعون، ۴  /  ۴۱۲)

رکوع اور آیات کی تعداد:اس سورت میں  1رکوع اور 7 آیتیں  ہیں ۔

’’ماعون ‘‘نام رکھنے کی وجہ :ماعون کا معنی ہے استعمال کی معمولی چیز،اور اس سورت کی آخری آیت میں  یہ لفظ موجود ہے اس مناسبت سے اسے ’’سورۂ ماعون‘‘ کہتے ہیں ۔

 

سورۃ  ماعون کے مضامین

اس سورت کا مرکزی مضمون یہ ہے کہ اس میں  کافروں  اور منافقوں  کی مذمت بیان کی گئی ہے اور اس میں  یہ مضامین بیان ہوئے ہیں :

(1) اس سورت کی ابتدائی آیات میں  ان کافروں  کی مذمت کی گئی جو حساب اور جزا کے دن کو جھٹلاتے ہیں  ،یتیم کو دھکے دیتے ہیں  اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتے۔

(2) آخری آیات میں  ان منافقوں  کی مذمت کی گئی جو لوگوں  کے سامنے نمازی بنتے اور تنہائی میں  نمازیں  چھوڑتے تھے اور لوگوں  کے سامنے بھی جو نمازیں  ادا کرتے ان سے اللّٰہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے لوگوں  کو یہ دکھانا مقصود ہوتا تھا کہ ہم بھی نمازی ہیں  اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی ایک بری خصلت یہ تھی کہ اگر ان سے کوئی استعمال کی   معمولی چیز مانگتا تو وہ اسے منع کردیتے تھے۔

 

 

 

ترجمہ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔۔ترجمۂ کنزالایمان: اللّٰہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان رحم والا۔ترجمۂ کنزُالعِرفان: اللّٰہ کے نام سے شروع جو نہایت مہربان ، رحمت والاہے ۔

اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱)

ترجمۂ کنزالایمان: بھلا دیکھو تو جو دین کو جھٹلاتا ہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔

{اَرَءَیْتَ الَّذِیْ یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِ:

 کیا تم نے اس شخص کو دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے۔} شانِ نزول : اس آیت کے

فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲)

ترجمۂ کنزالایمان: پھر وہ وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِؕ(۳)

ترجمۂ کنزالایمان: اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہیں  دیتا ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتا۔

 

 

 

تفصیلات

شانِ نزول کے بارے میں:

ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت عاص بن وائل سہمی کے بارے میں  نازل ہوئی ،وہ قیامت کے دن کا انکار کرتا تھا اور برے کام بھی کیا کرتا تھا۔

            دوسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ولید بن مغیرہ کے بارے میں  نازل ہوئی۔

 

تیسرا قول یہ ہے کہ یہ آیت ابو جہل کے بارے میں  نازل ہوئی،مروی ہے کہ ابو جہل نے ایک یتیم کی پرورش کی ذمہ داری لی،ایک دن وہ یتیم ننگے بدن اس کے پاس آیا اور اپنے مال میں  سے کچھ طلب کیا،اُس نے اسے دھکے دے کر نکال دیا ۔قریش کے سرداروں  نے اس سے کہا کہ تم محمد(مصطفٰی صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ ) کے پاس جاؤ وہ تمہاری سفارش کر دیں  گے،اس سے ان لوگوں  کا مقصد نبیٔ  کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کا مذاق اڑانا تھا لیکن یتیم کو یہ چیز معلوم نہ تھی،چنانچہ وہ یتیم تاجدارِ رسالت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کی بارگاہ میں  حاضر ہوا اور اپنی فریاد پیش کی اور سیّد المرسَلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ کبھی کسی       محتاج کو خالی ہاتھ نہ لوٹاتے تھے،چنانچہ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اس یتیم کے ساتھ ابو جہل کے پاس گئے ،اس نے رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  کو دیکھ کر مرحبا کہا اور فوراً یتیم کا مال اس کے حوالے کر دیا۔یہ دیکھ کر قبیلہ قریش کے لوگوں  نے اسے عار دلایا اور کہا کہ تو اپنے دین سے پھر گیا ہے۔ ابو جہل نے جواب دیا : خدا کی قسم!میں  اپنے دین سے پھرا نہیں  ،اصل بات یہ ہے کہ میں  نے اُن کی دائیں  اور بائیں  طرف ایک نیزہ دیکھا اور مجھے یہ ڈر لگا کہ اگر میں  نے ان کی بات نہ مانی تو یہ نیزہ مجھے پھاڑ ڈالے گا۔

             چوتھا قول یہ ہے کہ یہ آیت کسی خاص آدمی کے بارے میں  نازل نہیں  ہوئی بلکہ اس میں  ہر وہ شخص داخل ہے جو قیامت کے دن کا انکار کرتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کا نیک اعمال کرنا اور ممنوعات سے رکنا ثواب میں  رغبت اور عذاب کے ڈر سے ہوتا ہے تو جب وہ قیامت کا ہی منکر ہو گا تو وہ نفسانی خواہشات اور لذتوں  میں  سے کچھ نہ چھوڑے گا ،اس سے ثابت ہوا کہ قیامت کا انکارکفر اور گناہوں  کی تمام اَقسام کی بنیاد کی طرح ہے۔اس آیت اور اس کے بعد والی دو آیات کا خلاصہ یہ ہے کہ اے انسان!کیا تم اس شخص کو پہچانتے ہوجو دلائل واضح ہونے کے باوجود حساب اور جزاکا انکار کرتا ہے، اگر نہیں  پہچانتے تو سنو:یہ وہ شخص ہے جو اپنے کفر کی وجہ سے یتیم کو دھکے دیتا،ڈانٹتا اور مارتا ہے اور اس کے ساتھ ظلم کرتے ہوئے اس کا حق اور اس کا مال اسے نہیں  دیتا اور اپنے انتہا درجے کے بخل،دل کی سختی اور کمینے پن کی وجہ سے مسکین کو کھانا نہیں  دیتا اور نہ ہی وہ کسی اور کویتیم کو کھانا دینے کی ترغیب دیتا ہے کیو نکہ وہ اس عمل پر ثواب ملنے کا اعتقاد نہیں  رکھتا،اگر وہ جزا پر ایمان لاتا اور وعید پر یقین رکھتا تو اس سے یہ اَفعال صادر نہ ہوتے۔( تفسیر کبیر، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۱۱  /  ۳۰۱-۳۰۳، خازن، الماعون، تحت الآیۃ: ۱-۳، ۴  /  ۴۱۲، ملتقطاً)

 

{فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَ: پھر وہ ایسا ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔} یعنی دین کو جھٹلانے والے شخص کا اخلاقی حال یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔

 

 

اسلام کی نظر میں یتیم

اس آیت میں  کفار کا یتیموں  کے ساتھ سلوک بیان کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے یتیموں  کے بارے میں  اسلام کی تعلیمات ملاحظہ کیجئے۔چنانچہ اللّٰہ تعالیٰ یتیموں  کے سرپرستوں  سے ارشاد فرماتا ہے: 

’’وَ  اٰتُوا  الْیَتٰمٰۤى  اَمْوَالَهُمْ  وَ  لَا  تَتَبَدَّلُوا  الْخَبِیْثَ  بِالطَّیِّبِ۪-  وَ  لَا  تَاْكُلُوْۤا  اَمْوَالَهُمْ  اِلٰۤى  اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ  كَانَ  حُوْبًا  كَبِیْرًا‘‘(النساء:۲)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور یتیموں  کو ان کے مال دیدو اور پاکیزہ مال کے بدلے گندا مال نہ لواور ان کے مالوں  کو اپنے مالوں  میں  ملاکر نہ کھا جاؤ بیشک یہ بڑا گناہ ہے۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  لَا  تُؤْتُوا  السُّفَهَآءَ  اَمْوَالَكُمُ  الَّتِیْ  جَعَلَ  اللّٰهُ  لَكُمْ  قِیٰمًا  وَّ  ارْزُقُوْهُمْ  فِیْهَا  وَ  اكْسُوْهُمْ  وَ  قُوْلُوْا  لَهُمْ  قَوْلًا  مَّعْرُوْفًا‘‘(النساء:۵)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اورکم عقلوں  کوان کے وہ مال نہ دو جسے اللّٰہ نے تمہارے لئے گزر بسر کا ذریعہ بنایاہے اور انہیںاس مال میں  سے کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھی بات کہو۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’وَ  لْیَخْشَ الَّذِیْنَ  لَوْ  تَرَكُوْا  مِنْ  خَلْفِهِمْ  ذُرِّیَّةً  ضِعٰفًا  خَافُوْا  عَلَیْهِمْ   ۪-  فَلْیَتَّقُوا  اللّٰهَ

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور وہ لوگ ڈریں جو اگر اپنے پیچھے کمزور اولاد چھوڑ تے تو ان کے بارے میں  کیسے اندیشوں  کا وَ  لْیَقُوْلُوْا  قَوْلًا  سَدِیْدًا‘‘ (النساء:۹)

شکار ہوتے۔تو انہیں  چاہیے کہ اللّٰہ سے ڈریں  اور درستبات کہیں ۔

            اور ارشاد فرمایا:

’’اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا‘‘ (النساء:۱۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک و ہ لوگ جو ظلم کرتے ہوئے یتیموں  کا مال کھاتے ہیں  وہ اپنے پیٹ میں  بالکل آ گ بھرتے ہیں اور عنقریب یہ لوگ بھڑکتی ہوئی آگ میں  جائیں  گے۔

            اورحضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’مسلمانوں  میں  بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں  یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھاسلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں  میں  بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں  یتیم ہو اور اس کے ساتھ براسلوک کیا جاتا ہو ۔( ابن ماجہ، کتاب الادب، باب حقّ الیتیم، ۴  /  ۱۹۳، الحدیث: ۳۶۷۹)

            اورحضرت ابو امامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے،  رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’ جو کسی یتیم کے سر پر اللّٰہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ہاتھ پھیرے تو اس کے لیے ہر اس بال کے عِوَض نیکیاں  ہوں  گی جس پر اس کا ہاتھ پھرے اور جو اپنے پاس رہنے والے یتیم لڑکے یا یتیم لڑکی سے بھلائی کرے توجنت میں  مَیں  اور وہ ان کی طرح ہوں  گے، اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ اپنی دو انگلیاں  ملائیں  ۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حدیث ابی امامۃ الباہلی... الخ، ۸  /  ۳۰۰، الحدیث: ۲۲۳۴۷)

            کفار کے طرزِ عمل اور اسلام کی تعلیمات کو سامنے رکھتے ہوئے ہر شخص بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ بچوں  کے حقوق کی حفاظت کے لئے جو اِقدامات دین ِاسلام نے کئے اور جو احکامات دین ِاسلام نے دئیے ان کی مثال کسی اور دین میں  نہیں  مل سکتی۔

{وَ لَا یَحُضُّ عَلٰى طَعَامِ الْمِسْكِیْنِ: اور مسکین کو کھانا دینے کی ترغیب نہیں  دیتا۔} یعنی دین کو جھٹلانے والے کا حال یہ ہے کہ وہ اپنے گھر والوں  اور دیگر مالداروں  کو اس بات کی ترغیب نہیں  دیتا کہ وہ مسکین کو کھانا دیں ۔( روح البیان، الماعون، تحت الآیۃ: ۳، ۱۰  /  ۵۲۲)

 

 

ایک ایما افروز واقعہ

ایک بُزُرْگ کا بیان ہے کہ میں پہلے بڑا گنہگارتھا، ایک دن کسی یتیم(Orphanکو دیکھا تو میں نے اس سے اتنا زیادہ عزّت و محبت بھرا سلوک کیا جتنا کہ کوئی باپ بھی اپنی اولاد سے نہیں کرتا ہوگا۔ رات کو جب میں سویا تو خواب میں دیکھا کہ جہنّم کے فِرِشتے بڑے بُرے طریقےسے مجھے گھسیٹتے ہوئے جہنّم کی طرف لے جارہے ہیں اور اچانک وہ یتیم درمیان میں آ گیا اور کہنے لگا: اسے چھوڑدو تاکہ میں ربِّ کریم سے اس کے بارے میں گفتگو کرلوں، مگر فِرشتوں نے انکار کردیا، پھر ایک نِداسنائی دی:اسے چھوڑ دو! ہم نے یتیم پر رَحم کرنے کی وجہ سے اسے بخش دیا ہے۔ خواب ختم ہوتے ہی میری آنکھ کُھل گئی، اس دن سےہی میں یتیموں کے ساتھ انتہائی باوقارسلوک کرتا ہوں۔(مکاشفۃ القلوب، ص231معلوم ہوا کہ یتیم سے کیا گیا حُسنِ سُلوک دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی بہتر بنا سکتا ہے۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

فلسطین کی باتیں (فلسطین کے معنی)

 ف ل س ط ي ن  کی باتیں ( ف ل س ط ي ن  کے معنی) تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) میں ایک عرصے سے تحریر و تحقیق سے وابستہ ہوں ۔کئی موضوعات پر لکھابھی اور بولابھی ۔لیکن آج اپریل 2025 کو جب میں فلسطین کے بارے میں لکھنے لگاتو میری روح کانپ رہی تھی ۔ضمیر ندامت و پشیمان ،ہاتھ کپکپارہے تھے ۔ذہن پر ایک عجیب ہیجانی کیفیت طاری ہے ۔لیکن سوچا کہ میں اپنے حصے کا جو کام کرسکتاہوں کہیں اس میں مجھ سے کوئی غفلت نہ ہو ۔چنانچہ سوچاآپ پیاروں سے کیوں نہ فلسطین کی باتیں کرلی جائیں ۔ قارئین :میں نے سوچا کیوں نہ لفظ فلسطین کی لفظی و لغوی بحث کو آپ کی معلومات کے لیے پیش کیاجائے ۔ فلسطین! ایک ایسا نام جو صرف جغرافیائی حدود یا قوموں کی پہچان نہیں، بلکہ ایک مقدس سرزمین، انبیاء کی جائے قیام، مسلمانوں کا قبلۂ اول، اور دنیا بھر کے مظلوموں کی علامت بن چکا ہے۔ اس تحریر میں ہم "فلسطین" کے معنی اور مفہوم کو لغوی، تاریخی، اور اسلامی زاویوں سے اجاگر کریں گے۔ لغوی تجزیہ: لفظ "فلسطین" " فلسطین" کا لفظ غالباً قدیم سامی زبانوں جیسے عبرانی یا آرامی سے آیا ہے۔ اکثر ...

بیٹیوں کی باتیں

بیٹیوں کی باتیں تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) یہ بات ہے آج سے ٹھیک 15سال پہلے کی جب ہم اسٹار گیٹ کراچی میں رہتے تھے ۔اللہ کریم نے مجھے بیٹی کی نعمت سے نوازا۔جب علی میڈیکل اسپتال کی ڈاکٹرنے مجھے بتایاکہ اللہ پاک نے آپکو بیٹی عطافرمائی ہے ۔میری خوشی کی انتہانہیں تھی ۔آپ یقین کریں اس بیٹی کی ولادت کے صدقے رب نے مجھے بہت نواز مجھے خیر ہی خیر ملی ۔آج وہ بیٹی نورالایمان  کے نام سے حافظہ نورالایمان  بن چکی ہیں ایک اچھی رائٹر کے طورپر مضامین بھی لکھتی ہیں ۔بیانات بھی کرتی ہیں اور اپنے بابا کو آئے دن دینی مسائل  کے بارے میں بھی بتاتی ہیں،گھر میں فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں و توفیق من اللہ سے تہجد کا اہتمام بھی کرواتی ہیں ، میراخیال بھی بہت رکھتی ہیں ۔جبکہ نورالعین سب سے چھوٹی بیٹی ہیں جو بے انتہاپیارکرتی ہیں کتناہی تھکان ہو وہ سینے سے لپٹ جاتی ہیں تو سب غم غلط ہوجاتے ہیں ۔میں اپنی بیٹیوں کی داستان و کہانی آپ پیاروں کو اس لیے سنارہاوہوں کہ تاکہ آپ کو ٹھیک سے معلوم ہوسکے کہ ایک باپ بیٹیوں کو کیسا محسوس کرتاہے اور بیٹیوں کو والدین سے کتنا حسین تعلق...

"ڈی این اے میں چھپا روحانی کوڈ؟"

" DNA میں چھپا روحانی کوڈ؟ " تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)  ہم روٹین کی روایتی زندگی گزاررہے ہوتے ہیں ۔لیکن ہم اس کائنات کے رازوں پر غور کی زحمت نہیں کرتے ۔میں بھی  عمومی زندگی گزارنے والا شخص ہی ہوں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ جیسے جیسے مطالعہ ،مشاہد ہ بڑھتارہامجھے کھوج لگانے ،سوچنے اور سمجھنے کا ذوق ملا۔اس کافائدہ یہ ہوا کہ مجھ پر علم نئی جہات کھُلی ۔بات کہیں طویل نہ ہوجائے ۔میں کافی وقت سے سوچ رہاتھا کہ اس دور میں سائنس نے بہت ترقی کرلی ۔ڈین این اے کے ذریعے انسان کی نسلوں تک کےراز معلوم کیے جارہے ہیں ۔میں سوچ رہاتھاکہ کیا ڈین این اے ہماری عبادت یاپھر عبادت میں غفلت کوئی اثر ڈالتی ہے یانہیں ۔بہت غوروفکر اور اسٹڈی کے بعد کچھ نتائج ملے ۔ایک طالب علم کی حیثیت سے آپ سے شئیر بھی کرتاہوں ۔ممکن ہے کہ میری یہ کوشش آپ کے لیے بھی ایک لرننگ پراسس ثابت ہو۔ قارئین: ایک سوال ذہن میں آتاہے کہ کیاکیا نماز پڑھنے، روزہ رکھنے یا ذکر کرنے سے صرف ثواب ملتا ہے؟یا … آپ کی عبادتیں آپ کے DNA پر بھی اثر ڈالتی ہیں؟ یہ ہے تواچھوتاسوال آئیے ذرا اس کو حل کرتے ہیں ۔۔۔ قارئی...