نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مشکلات و پریشانیوں سے نکلنے کے طریقے


تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

 مشکلات و پریشانیوں   سے نکلنے کے طریقے

ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے

جو دل پہ گزرتی ہے رقم کرتے رہیں گے

عزیر سرجھکائے نہ جانے کن فکروں و اندیشوں میں گُم بیٹھا تھا۔اُسے آس پاس کی خبر بھی نہ تھی ۔ایک عجب کش مکش اور پریشان پایاتو جب اس سے ملاقا ت کی ۔فکروں کا یہ حصار ٹوٹاتو بات چیت ہوئی تو وہ مہنگائی ،غربت ،بے روزگاری کے اس طوفان کی زد میں تھا۔لیکن اب وہ زندگی کی لذت سے اتنا دور آچکاتھا کہ اسے کچھ بھلا نہیں لگتاتھا۔



ہزار برق گرے لاکھ آندھیاں اٹھیں

وہ پھول کھل کے رہیں گے جو کھلنے والے ہیں

قارئین :اس میں کوئی شک نہیں انسان پریشان ہوتاہے ۔میں ایک عجب بات آپ کو بتاوں کے میں 2023تک گزشتہ 8سال سے سویانہیں ۔یعنی جسے عرفی ،اصطلاحی طور پر سونا نیند کہتے ہیں میں اس سے یکسر محروم ہوں ۔اس کی وجہ بھی آپ پیاروں کو کیا بتاوں ۔کئی ایسی فکریں آپ کے دل و دماغ پر گہرے نقش چھوڑ دیتی ہیں کہ مت پوچھیں ۔لیکن مجھ پر یہ رب کا کرم ہواکہ اللہ کی عطاسے مجھے مشکلات سے نکلنے کا ہنر مل گیا۔سوچاکیوں نہ اپنے پیاروں سے بھی شئیر کردوں ۔۔



ہمیں  زندگی میں کبھی معاشی خوشحالی ، خوشگوار گھریلو زندگی ، تندرستی ، مقاصد میں کامیابی اور اولادکی فرمانبرداری جیسی سینکڑوں خوشیاں اس کی زندگی میں بہار بن کر داخل ہوتی ہیں اور کبھی حالات ایسا پلٹا کھاتے ہیں کہ مالی تنگدستی ، گھریلو ناچاقی ، امتحان میں ناکامی ، دفتری پریشانی ، بیماری ، خاندانی دشمنی ، ناجائز مقدمہ بازی اور کاروباری پیچیدگی جیسی کئی مشکلیں اس کی زندگی کو خزاں رسیدہ اور ویران بنادیتی ہیں۔

ہم معاشرے کا مجموعی طور پر مطالعہ و مشاہدہ کریں تو ہمیں تین قسم کے لوگ ملتے ہیں ۔یعنی یوں کہ لیں کے ان کے سوچنے اور محسوس کرنے کا جداجدا رویہ و مزاج ہوتاہے ۔

پہلاطبقہ :

یہ طبقہ اعصاب کا مضبوط ہوتاہے ۔یہ ڈرتا نہیں ۔اپنے اعصاب کو خطا نہیں ہونے دیتا۔پوری طاقت و انرجی سے مشکل فیصلے کرکے حالات کی گرفت سے نکل جاتے ہیں ۔

دوسراطبقہ :

معاشرے کا یہ طبقہ کمزور افراد کے لوگ ہیں ۔جو مشکلات میں گھبراجاتے ہیں ۔بلکہ پریشانی و مشکل کو اتنا طاری کرلیتے ہیں کہ ہاتھ پاوں گویاچھوڑ دیتے ہیں ۔یہ بجائے مشکلا ت سے نکلنے کے مزید پریشانیوں و مشکلات کا شکار ہوجاتے ہیں ۔انکی مثال ایسی ہے کہ جیسے :خرگوش نے ایک مرتبہ شور مچایاتھا کہ ’’آسمان گر گیا ، آسمان گرگیا!‘‘ دیگر جانوروں نے جب اُوپر نظر اُٹھا کر دیکھا کہ آسمان تواپنی جگہ پر ہے تو خرگوش سے پوچھا کہ آسمان کہاں گِرا ہے؟ خرگوش کہنے لگا کہ میں بیری کے درخت کے نیچے کھڑا تھا وہاں میرے سر پر آسمان گرا تھا ۔جب سب جانور اکھٹےہوئے دیکھیں تو ماجرا کیاہے ۔نتیجہ یہ نکلا کہ درخت سے ایک بیر ٹوٹ کر خرگوش کے سر پر گرا تھا جسے اس نے بدحواسی میں آسمان سمجھا! یعنی معاشرے کا یہ طبقہ مشکل میں بدحواس ہوجاتاہے ۔

تیسراطبقہ :

یہ طبقہ مایوس ترین طبقہ ہے ۔یہ مشکل و پریشانی میں خوف زدہ ہوکر ہمت ہار جاتاہے ۔جس کا نتیجہ یہ نکلتاہے وہ پریشانی یا مشکل تو اپنی جگہ قائم رہتی ہے ۔لیکن یہ پریشان حال شخص کئی بیماریوں کے عارضہ میں مبتلاہوجاتاہے ۔ انہیں ہارٹ اٹیک ، ہائی بلڈ پریشر جیسی بیماریاں ہوجاتی ہیں اور بعض تو مایوس ہو کر خودکشی (Suicide)کرلیتے ہیں ان میں کوئی کسی اسپتال کے وینٹی لیٹرپر تو کوئی مایوسیوں کی تاریکیوں میں موت کی دعائیں و التجاکررہاہوتی ہے ۔

قابل غور بات :

ہمیں زندگی میں جوبھی مشکل پیش آتی ہے اس کی دوصورتیں ہی بنتی ہیں ۔

پہلی صورت:

وہ مشکلات جن کا متبال حل اور نکلنے کا طریقہ موجود ہوگا۔ہمیں اس مشکلات و پریشانی کا جائزہ لیتے ہوئے نکلنے کے راستے تلاش کرنے ہوں گے ۔مثلامہنگائی ہی کو لے لیتے ہیں ۔پہلے تنخواہ اچھی تھی تو یہ یہ یہ سہولیت تھی ۔اب یکسر مہنگائی نے کمر توڑ دی تو اب حالات کو کوسنا نہیں ۔بلکہ دانشمند سے  ہمیں دیکھنا ہوگاکہ وہ کونسے اخراجات ہیں جن کو کم کیا جاسکتاہے ۔جن پر سمجھوتاممکن ہے ۔قناعت سے کام لے کر اس بھنور سے نکلنے کا راستہ تلاش کریں گے ۔اب حالات کو کوسنے سے توکچھ نہیں ہوگااور نہ پریشان ہونے سے پریشانی ختم ہوگی ۔

دوسری صورت :

یہ پریشانی و مشکل کی و ہ صورت ہے جوہمارے دائرہ اختیار میں نہیں ۔یہ ہماری قدرت میں نہیں ۔مثال سے بات کو سمجھتے ہیں ۔والدین میں سے بہن بھائیوں میں سے کسی کا انتقال ہوجاتاہے ۔واقعی ایک مشکل گھڑی ہے یہاں ہمیں کچھ کرنہیں سکتے ۔جب کرنہیں سکتے تو ہمیں عقل مندی سے مثبت سوچ کے ٹول کو استعمال کرتے ہوئے حالات کی نزاکت سے دل کو منانا ہوگا۔

اللہ پاک سے تائید و مدد کی التجاو دعامانگنی ہوگی ۔واہ و آہ سے کم نہیں چلے گا۔(میرا کریم ہمیں سب کو ہر طرح کی مشکل و پریشانی سے محفوظ رکھے )

مشکل سے نکلنے کے لئے اپنی سوچ کو مثبت(Positive) بنانا ہوتا ہے۔

قارئین :پریشانی و مشکلات  سے نکلنے کے لیے کچھ ٹپس ہیں ۔ہمیں امید ہے کہ آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گیں ۔یہ مفید طریقے ہم نے ماہنامہ فیضان مدینہ سے اخذکئے ہیں آپ کے ذوق مطالعہ کے لیے اقتباسا پیش کرتے ہیں ۔

ہار ہو جاتی ہے جب مان لیا جاتا ہے

جیت تب ہوتی ہے جب ٹھان لیا جاتا ہے

 

 (1)سیلف کنٹرول :

 کسی بھی قسم کی مشکل آنے پر ردِّ عمل(Reaction) کے طور پر ہمارے اندر دوقسم کے خیالات پیدا ہوتے ہیں ، ایک مثبت دوسرا منفی! منفی سوچ ہمیں شدید قسم کے خوف ، غم ، گھبراہٹ اور غصے میں مبتلا کرتی ہے جبکہ مُثْبَت سوچ ہمیں برداشت ، ہمّت اور مسئلے کے حل کا راستہ دکھاتی ہے چنانچہ کسی بھی قسم کی صورتحال میں منفی سوچ کو خود پر حاوی نہ ہونے دیجئے ، نہ ہی گھبراہٹ کا شکار ہوں ، کسی نے سچ کہا ہے کہ مشکل حالات میں گھبرانا اصل مشکل ہے۔ سیلف کنٹرول (خود پر قابورکھنے کی صلاحیت) کو بہتر بنا کر ہم مشکل کی شدّت کو 50 فیصد تک بھی کم کرسکتے ہیں۔

سیاہ رات نہیں لیتی نام ڈھلنے کا

یہی تو وقت ہے سورج ترے نکلنے کا

 

 (2)سب سے بڑی طاقت سے مدد کی طلب : 

بے شک اللہ کی یاد میں دِلوں کا چین ہے ، اس لئے جب کبھی مشکل میں پھنس جائیں تو اپنے خالق و مالک ربِّ کائنات کو ضرور یادکریں ، دل کو ڈھارس ملے گی۔ اگر ہوسکے تو ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْن “ ( ہم اللہ ہی کے ہیں اور ہم اسی کی طرف لوٹنے والے ہیں) پڑھ لیجئے ، اس کی فضیلت نبیِّ کریم     صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم     نے یوں بیان فرمائی : جو مصیبت کے وقت ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّااِلَیْہِ رٰجِعُوْن “ کہتا ہے تو اللہ پاک اس کی پریشانی دُور فرمادیتا ہے اور اس کے کام کا انجام اچّھا فرماتا ہے اور اسے ایسا بدل عطا فرماتا ہے جس پروہ راضی ہوجاتا ہے۔ )

میں آندھیوں کے پاس تلاش صبا میں ہوں

تم مجھ سے پوچھتے ہو مرا حوصلہ ہے کیا

 

 (3)زندوں کے لیے مشکل ہیں  :

ایک بات ذہن نشین کرلیں کہ مؤمن کی زندگی میں کچھ نہ کچھ مشکلات اور مصیبتیں ضرور آتی ہیں ، ہمارا پیارا ربِّ عظیم ارشاد فرماتا ہے : ( وَ لَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَ الْجُوْ عِ وَ نَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَ الْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِؕ-

ترجمہ :اور ضرور ہم تمہیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے۔ 

جہاں پہنچ کے قدم ڈگمگائے ہیں سب کے

اسی مقام سے اب اپنا راستا ہوگا

  (4)جو ہوناہے وہ ہوکر رہے گا:

 جس مشکل یا مصیبت کا پہنچنا تقدیر میں لکھا ہے وہ پہنچ کررہے گی ، یہ سوچ بنانے سے ایک تو ہمارا تقدیر پر ایمان مضبوط ہوگا فرمانِ مصطَفےٰ     صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم     ہے : بندہ اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اچھی بُری تقدیر پر ایمان نہ لے آئے اوراس بات پر یقین نہ کرے کہ اسے جو مصیبت پہنچنے والی ہے وہ اس سے خطا نہ ہو گی (یعنی پہنچ کر رہے گی) اور جو اس سے خطا ہونے (یعنی نہیں پہنچنے)والی ہے وہ اسے نہیں پہنچ سکتی۔ )

ساحل کے سکوں سے کسے انکار ہے لیکن

طوفان سے لڑنے میں مزا اور ہی کچھ ہے

 

 (5)اندیشوں و اندازوں سے نکلیں  :

 بعض لوگ اگر مگرکےچکر میں پڑجاتے ہیں مثال سے سمجھیں:

“ اگر میں اپنے بیٹے کو بائیک نہ دیتا تو اس کا ایکسیڈنٹ نہ ہوتا “ وغیرہ

جبکہ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے ہمیں تو ایسا سوچنے سے منع فرمایاہے :

 اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچے تو یہ مت کہو : ’’اگر میں ایسا کرتا تو ایسا ہوتا‘‘بلکہ یہ کہو : ’’قَدَرُ اللّٰہِ ، وَمَا شَاءَ فَعَلَ یعنی اللہ نے ایسا ہی لکھاتھا اور اس نے جو چاہا وہی کیا۔ ‘‘

بھنور سے لڑو تند لہروں سے الجھو

کہاں تک چلو گے کنارے کنارے

 (6)اللہ پاک کی تدبیر  :

 مشکل آنے پر اپنا یہ بھی ذہن بنالیجئے کہ ہو سکتا ہے چھوٹی مصیبت میں مبتلا کر کے مجھ سے کوئی بہت بڑی مصیبت دُو ر کردی گئی ہو۔

 

 (7)آخر مشکل ختم ہی ہوجائے گی :

 مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمیں اس بات کا یقین رکھنا چاہئے کہ جس طرح دنیاوی زندگی عارضی اور مختصر ہے اسی طرح اس زندگی کے دوران پہنچنے والی مصیبتیں اور مشکلیں بھی عارضی ہیں جو آج نہیں تو کل ختْم ہوجائیں گی۔

 (8)اس مشکل کی وجہ میرے کرتوت :

 اپنی مشکلات کا ذمہ دارکسی اور کو ٹھہرانے کے بجائے یہ ذہن بنائیے کہ اس کا سبب میرے گناہ ہیں اور سچی توبہ کی طرف قدم بڑھائیے .

وقت کی گردشوں کا غم نہ کرو

حوصلے مشکلوں میں پلتے ہیں

  (9)فکروں و اندیشوں کے رخ بدلیں:

 اپنی توجہ کسی اور طرف پھیر لیں .

(10)ہمت مرداں مدد خدا :

 مشکل کے حل کی طرف قدم بڑھانے کے لئے اپنا ذہن بنائیے ، جذبہ اُبھارئیے۔ اس کے لئے بُزُرگانِ دین کی سیرت کی طرف نظر دوڑائیے کہ انہیں اپنی زندگی میں کیسی کیسی مشکلات کا سامنا ہوا

یہ کہہ کے دل نے مرے حوصلے بڑھائے ہیں

غموں کی دھوپ کے آگے خوشی کے سائے ہیں

(11)مشکلات کا  حل تلاش کیجئے :

 پہلے اپنے ربِّ کریم سے دعا مانگئے ، پھر ضرورتاً تجربہ کار اور مہارت رکھنے والےافراد سے مشورہ کیجئے اور ان مشکلات کے حل کی طرف قدم بڑھا دیجئے ۔

قارئین:ہمیں امید ہے کہ ہماری پیش کردہ باتیں آپ کو سکھ چین دیں گیں ۔آپ خوش رہیں ۔آباد رہیں ۔ہماری مغفرت کی دعابھی کردیجئے گا۔

موجوں کی سیاست سے مایوس نہ ہو فانیؔ

گرداب کی ہر تہہ میں ساحل نظر آتا ہے

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا