نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دولت ایک جادور یا ضروت


دولت ایک جادور یا ضروت

رسول اللہ ﷺ نے قیامت کی اور قرب قیامت کی متعدد نشانیاں بتائی ہیں۔ قیامت کے قریب ایک نہایت پر فتن دور کی پیشین گوئی فرمائی ہے جس میں بے انتہا خون خرابہ ہوگا، طرح طرح کے فتنوں کا ظہور ہوگا اور ایمان کو بچانا مشکل ہوجائے گا۔ مسیحِ دجّال (جسے دجال اکبر یا کانا دجّال بھی کہا جاتا ہے) کے فتنے کی خبر دی گئی ہے جو بہت ہی ظالم اور غیر معمولی بلکہ مافوق الفطری قوتوں کا مالک ہوگا اور خدائی و نبوت کا دعوےدار ہوگا۔ مہدی کی آمد کے بارے میں بتایا گیا جو مسلمانوں کے ایک نہایت صالح اور باصلاحیت امام ہوں گے اور دنیا میں بے نظیر عدل و انصاف قائم کریں گے۔ اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی خبر دی گئی جو دجّال سے دنیا کو نجات دلائیں گے۔ یاجوج ماجوج کی یلغار پر مطلع کیا گیا جو دنیا بھر میں بدامنی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کریں گےاور آخر کار حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بددعا سے ہلاک ہوجائیں گے۔



ہم جس دور میں سانس لے رہے ہیں ۔آپ تنہائی میں اور یکسوئی کے ساتھ ذرا اپنا محاسبہ کیجئے گا ۔آپ کو خود اندازہ ہوجائے گا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ۔ہمارے چاروں طرف فتنوں کا طبل بچ چکا ہے ۔ایک ایک کرکے یہ فتن سراُٹھارہے ہیں ۔آج معاشی زندگی کو دیکھیں تو جس سمت دیکھوپیسے کی دوڑ اور ضرورت کے حصار توڑ کر اآسائش کی تلاش میں انسان سرگرداں ہے ۔میرے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ تو ذراپڑھ لیں ۔



کم کمانے کے طعنے اور سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا فرمان

نبیِّ اکرم   صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ اُس شخص کے عِلاوہ کسی دِین والے کا دِین محفوظ نہ رہے گا ،جواپنے دِین کو لے کر (یعنی اُس کی حفاظت کی خاطِر)ایک پہاڑ سے دوسرے پہاڑ اور ایک غارسے دوسرے غارکی طرف بھاگے۔اُس وَقْت روزی روٹی وغیرہ کا حاصل ہونااللہ پاک کو ناراض کیے بغیر نہ ہوگا۔جب یہ صورتِ حال ہوگی تو آدَمی اپنے بیوی بچوں کے ہاتھوں ہلاکت میں پڑجائے گا،اگر بیوی بچے نہ ہوں گے تو والِدَین کے ہاتھوں اُس کی ہلاکت ہوگی اور اگر والِدَین بھی نہ ہوں تو اُس کی ہلاکت رشتے داروں یا  پڑوسیوں کے ہاتھوں ہوگی۔صحابَۂ کِرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان نے عَرْض کی:یارسولَ اللہ صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم!یہ کیسے ہوگا؟تو رسولِ پاک صَلَّی اللّٰہُ  عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرْشاد فرمایا: وہ اُسے آمدنی کی کمی پر شرم دِلائیں گے،اُس وَقْت وہ اپنے آپ کو ہلاکت کی جگہوں میں لے جائے گا۔(الزهد الکبیر للبیهقی،الجزء الثانی،فصل فی ترک الدنیاالخ، ص۱۸۳، حدیث: ۴۳۹)

 


قارئین :ناچیز نے اپنے کانوں سے سنا اور معاشرے میں اس روش کو عام دیکھا: ” فُلاں کے پاس تو کئی کئی بنگلے،فیکٹریاں اور جائیدادیں(Properties) ہیں مگر آپ نے مجھے کرائے کے چھوٹے سے مکان میں رکھا ہوا ہے،میرا تو یہاں پر دَم گُھٹتا ہے، مجھے کُھلا گھر چاہئے،فُلاں کو تو دیکھو اپنیفیملی کے ساتھ عالیشان گاڑیوں میں گُھومتا پھرتاہے لیکن آپ مجھے بسوں،ٹیکسیوں اوررکشوں کے دھکّے کھلاتے ہیں،فُلاں نے تو لوڈشیڈنگ سے بچنے کے لئے جنریٹرلیا ہوا ہے آپ کم از کم یو پی ایس(U.P.S)یا چارجنگ فین ہی لے لیجئے،فُلاں نے توا ِس عِیْد پر اپنے بچوں کی اَمّی کو اِتنے ہزار کا لباس یاسونے(Gold) کاسیٹ بنواکردیا ہے مگرآپ مجھے عِیْد پر سونے کی انگوٹھی یا بریس لیٹ یا بالیاں ہی دِلوادیں،فُلاں نے اپنے بچوں کی اَمی کو فلاں شاپنگ مال سے شاپنگ کروائی ہے لہٰذا مجھے بھی کسی اچھے شاپنگ مال سے شاپنگ کروادیجئے،فُلاں کو دیکھو کتنا خوشحال ہوگیا ہے،آپ بھی تو کچھ کیجئے ،فُلاں کی تنخواہ لاکھوں میں ہے مگر آپ اتنا عرصہ کام کرنے کے بعد بھی وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔‘‘وغیرہ جبکہ بچوں کی فرمائشیں اِس کے علاوہ ہیں۔تو آئے روز جب بندہ فرمائشوں اور طعنوں کو سُنتا ہے توذِہنی تکلیف اور مایُوسی اُسے ہر طرف سے گھیر لیتی ہے،اُسے کچھ سمجھ نہیں آرہا ہوتا کہ آخر وہ کرے تو کرے کیا۔



اس مزاج نے ہمیں ناشکرا اور مضطرب اور بے چین کردیاہے ۔کسی پل سکون نہیں ۔حالانکہ جن لمحوں میں دل جلا رہاہوں اس وقت اس دن کی تمام ضرورتیں پوری ہیں لیکن مستقبل کا خدشہ اور اندیشہ آج بھی جینے نہیں دیتا۔اس رویے کہ وجہ سے ہم ایک ایسی دلددل میں دھنستے چلے جارہے ہیں کہ مادیت کے نام پر اُٹھنے والے فتنے عقل و شعور کو تہہ وبالا کردیتے ہیں اور ہم ایک اندھی گلی کے مسافر بن جاتے ہیں جس کا کوئی سرا نہیں ۔



ہم جس دور میں جی رہے ہیں اس میں فتن نے ہمیں گھیر لیاہے ہمیں رب کے فضل کے راستے تلاش کرنے ہوں گے ۔اللہ پاک ہمیں عقل و فہم عطافرمائے ۔۔آمین

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر



 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا