آسانیاں پیداکریں
عن أنس - رضي الله عنه - قال: قال رسول الله - صلى الله عليه وسلم -: ((يسِّروا ولا تعسِّروا، وبشِّروا ولا
تنفِّروا))؛ متفق عليه.
مفہوم حدیث :آسانیاں پیداکرو مشکلات نہیں ۔خوشخبریاں دو نفرت نہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام کا حُسن ماتحتوں کے ساتھ شفقت و مہربانی کرنے کی مثالوں سے اسلامی تاریخ بھری پڑی ہے۔ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اپنے خدمت گاروں سے کیسا سلوک فرماتے تھے اس کی ایک مثال ملاحظہ کیجئے: حضرت سیّدُنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے (دس سال تک) سفر و حَضر میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت کی، لیکن جو کام میں نے کیا اس کے بارے میں آپ نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں کیا؟ اور جو کام میں نے نہ کیا اس کے بارے میں آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کبھی یہ نہیں فرمایا کہ تم نے یہ کام اس طرح کیوں نہیں کیا؟ (بخاری،ج2،ص243، حدیث: 2768
بَروقت وظیفہ کی ادائیگی
) ماتحتوں کو وظیفہ وقت پر ادا کیا جانا ان کا پہلا اور بنیادی حق ہے۔ کام کی تکمیل کے بعد وظیفہ دینے میں ٹالم ٹول اور حیلے بہانوں سے اس میں کمی اور کٹوتی بددیانتی، ظلم اور معاشرے کے امن کو تباہ کرنے والا کام ہے۔ حدیثِ قدسی ہے اللہ پاک فرماتا ہے:تین شخص وہ ہیں جن کا قیامت کے دن میں خصم ہوں (یعنی اُن سے مطالبہ کروں گا)، ان میں سے ایک وہ شخص ہے جو کسی مزدور کو اُجرت پر رکھے، اس سے پورا کام لے اور اسے اجرت نہ دے۔(مسند احمد،ج 3،ص278، حدیث: 8700 ملتقطاً)
نرمی کرنا
ماتحتوں سے بتقاضائے بشریت کوئی غلطی یا نقصان ہوجائے تو درگزر کیا جائے۔ موقع محل کی مناسبت سے دُرست طریقے سے تنبیہ کرنا اور غلطی کی اصلاح کرنا مالک کا حق ہے لیکن ان کو ہدفِ تنقید بنالینا، کَھری کَھری سنانا، ذلیل کرنا اور معمولی غلطیوں پر بھی گرفت کرنا سخت ناپسندیدہ عمل ہے۔ منقول ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ پاک علیہ الصَّلٰوۃ والسَّلام سے عرض کیا کہ اپنے خادم کی غلطیاں کس حد تک مُعاف کرنی چاہئیں، اس نے دوبار پوچھا، آپ خاموش رہے، تیسری بار اس کے پوچھنے پر ارشاد فرمایا:ہر روز 70 بار۔(ابو داؤد،ج 4،ص439، حدیث:5164)
حسن سلوک
ہمیشہ حُسنِ سلوک کرنا ماتحتوں سے ہمیشہ نیکی اوربھلائی کا برتاؤ کرنا چاہئے۔ صاحبِ منصب یا جس سے کام ہو اس سے تو اچھے انداز میں پیش آیا ہی جاتا ہے لیکن کمال یہ ہے کہ اپنے تنخواہ دار ملازم کے ساتھ بھی ہمیشہ حُسنِ سلوک کیا جائے۔ ان کی ضَروریات کا خیال رکھا جائے، اچھے طریقے سے خیر خیریت دریافت کی جائے اور مشکلات میں حسبِ استطاعت مدد کی جائے۔ رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:غلاموں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا خوش بختی اور بدخلقی سے پیش آنا بدبختی ہے۔
(ابوداؤد،ج 4،ص439، حدیث:5163)
جھوٹی گواہی کی مذمت
یاد رہے! کہ ”جھوٹی گواہی دینا“ اور کسی پر جان بوجھ کر ”غلط الزام لگانا“ انتہائی مذموم فعل ہے۔ یہاں ان سے متعلق تین احادیث ملاحظہ ہوں: (1)جھوٹے گواہ کے قدم ہٹنے بھی نہ پائیں گے کہ اللہ تعالیٰ اُس کے لئے جہنم واجب کر دے گا۔(ابنِ ماجہ،ج3، ص123، حدیث: 2373) (2)جس نے کسی مسلمان کو ذلیل کرنے کی غرض سے اس پر الزام عائد کیا تو اللہ تعالیٰ جہنم کے پل پر اُسے روک لے گا یہاں تک کہ اپنے کہنے کے مطابق عذاب پا لے۔(ابو داؤد،ج 4، ص354، حدیث: 4883) (3)جو کسی مسلمان پر ایسی چیز کا الزام لگائے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتا نہ ہو تو اللہتعالیٰ اسے (جہنمیوں کے خون اور پیپ جمع ہونے کے مقام) ”رَدْغَۃُ الْخَبَالْ“ میں اُس وقت تک رکھے گا جب تک کہ اپنے الزام کے مطابق عذاب نہ پا لے۔ (مصنف عبد الرزاق،ج11، ص425، حدیث: 20905)
الزام تراشی
افسوس! فی زمانہ جھوٹی گواہی دینا ایک معمولی کام سمجھا جاتا ہے اور الزام تراشی کرنا تو اس قدر عام ہے کہ کوئی حد ہی نہیں، جس کا جو دل کرتا ہے وہ دوسروں پر الزام لگا دیتا اور جگہ جگہ ذلیل کرتا ہے اور ثبوت مانگیں تو یہ دلیل کہ میں نے کہیں سُنا تھا یا مجھے کسی نے بتایا تھا یا آپ کی بات کا مطلب ہی یہی تھا، اب کس نے بتایا؟ بتانے والا کتنا مُعْتَبَر تھا؟ اُس کو کہاں سے پتا چلا؟ اُس کے پاس کیا قابلِ قبول ثبوت ہیں؟ اُس نے بات کرنے والے کے دل کا حال کیسے جان لیا؟ کوئی معلوم نہیں۔ زیرِ تفسیر آیت اور بیان کردہ احادیث کو سامنے رکھتے ہوئے ہر ایک کو اپنے اپنے طرز ِعمل پر غور کرنے کی شدید حاجت ہے۔
کان آنکھ اور دل کے بارے میں پوچھا جائے گا
کان، آنکھ اور دل کے بارے میں سوال ہوگا:
آیت کے آخر میں فرمایا کہ کان، آنکھ اور دل سب کے بارے میں سوال کیا جائے گا، یہ سوال اس طرح کا ہو گا کہ تم نے اُن سے کیا کام لیا؟ کان کو قراٰن و حدیث، عِلم و حکمت، وعظ و نصیحت اور ان کے علاوہ دیگر نیک باتیں سننے میں استعمال کیا یا لغو، بےکار، غیبت، اِلزام تراشی، زنا کی تہمت، گانےباجے اور فحش سننے میں لگایا۔ یونہی آنکھ سے جائز و حلال کو دیکھا یا فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور بدنگاہی کرنے میں استعمال کیا اور دل میں صحیح عقائد اور اچھے اور نیک خیالات و جذبات تھے یا غلط عقائد اور گندے منصوبے اور شہوت سے بھرے خیالات ہوتے تھے
ریسرچ :ڈاکٹرظہوراحمددانش
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں