نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

گلیشئر کی دنیا کی کہانی


  گلیشئر کی دنیا  کی کہانی

تمہید:

( وَ مَنْ شَكَرَ فَاِنَّمَا یَشْكُرُ لِنَفْسِهٖۚ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ كَرِیْمٌ(۴۰)ترجمہ : اور جو شکر کرے تووہ اپنی ذات کیلئے ہی شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پرواہ ہے ، کرم فرمانے والا ہے۔ (پ19 ، النمل : 40)  

اللہ تعالیٰ کی نعمتوں پر اُس کا شکر ادا کرنا ہم پر حق ہے اور اُس حق کی ادائیگی خدا کو پسند ہے ، جبکہ ناشکری اُسے ناپسند ہے اور یہ عقیدہ بھی ذہن نشین رہے کہ شکر کا فائدہ ہماری ذات کو ہے اور ناشکری کا نقصان بھی ہم ہی کو ہے ، کیونکہ خداوندِ قُدُّوس بے نیاز ہے ، اُسے کسی کے شکر یا ناشکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے ۔

اس کائنات میں اللہ کی کیسی کیسی نعمتیں ہیں ۔جس میں ہمارے لیے خیر و برکت اور ضروریات زندگی کو پوری کرنے  لیے ساماں ہوتاہے ۔چنانچہ ہمیں ہرلمحہ اس کا شکر اداکرتے رہنا چاہیے ۔

:انہی نعمتوں میں سے  برف کے بنے بڑے بڑے گلیشئیر بھی کسی نعمت سے کم نہیں ۔آئیے جانتے ہیں ان گلیشئرز کے بارے میں ۔۔



کسی شاعر نے پہاڑوں کے متعلق اپنی کیفیت پیش کی

پہاڑوں کی بلندی پر کھڑا ہوں

زمیں والوں کو چھوٹا لگ رہا ہوں

ہر اک رستے پہ خود کو ڈھونڈھتا ہوں

میں اپنے آپ سے بچھڑا ہوا ہوں


عربی شعر

برف کے متعلق عربی شعر

؎ إنْ کُنْتَ تَغْدُوْ فِی الذُّنُوْبِ جَلِیْدًا                  وَتَخَافُ فِیْ یَومِ الْمَعَادِ وَعِیْدًا

اگر تو  گناہوں میں پگھل کر برف بن چکا ہے اور اب قیامت کے دن کی سزا سے ڈر رہاہے تو یاد رکھ!حفاظت فرمانے

(حکایتیں اور نصیحتیں )

حضرت سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبي اکرم صَلَّی اللہ تَعَالیٰ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا ،''حسن اخلاق گناہوں کو اس طرح پگھلا دیتاہے۔جس طرح دھوپ برف کو پگھلا دیتی ہے ۔''         (شعب الایمان ، باب فی حسن الخلق ،رقم۸۰۳۶، ج۶، ص۲۴۷)


پاکستان میں  گلیشئر

پاکستان کے شمالی علاقہ جات کا ذکر یہاں کی عظیم برفوں کے بغیر مکمل نہیں ہو سکتا۔ دنیا کے ان بلند ترین علاقوں میں جہاں قراقرم، ہمالیہ، ہندوکش اور پامیر کے پہاڑی سلسلوں میں لاتعداد سربفلک پہاڑی چوٹیاں، منفرد ترین جنگلی حیوانات تیزرفتار و پرشور دریا اور حسین جنگلات وسبزہ زار ہیں وہاں دنیا کے طویل ترین گلیشئیر بھی شمالی علاقہ جات کی انفرادیت اور شہرت کا بڑا سبب ہیں۔ سیاچن، بیافو، بالتورو، بتورہ، ہسپر اور چوگولنگما وہ نام ہیں جوقطبی علاقوں کے برفانی خطے کے بعد دنیا میں برف کے سب سے بڑے ذخائر ہیں۔بہت سے دیگر گلیشئیر بھی پاکستان اور شمالی علاقہ جات کے مختلف حصوں میں واقع ہیں اور یا تو ان گلیشئرز میں ملتے ہیں یا دیگر اطراف میں واقع ہیں۔یہ تمام گلیشئیر سلسلہ کوہ قراقرم اور پاکستان میں واقع ہیں۔ ان گلیشئیرز کے اطراف موجود برفانی چوٹیاں بھی اسی طرح اپنی بلندی اور خطرناکی کی وجہ سے تمام دنیا میں بے نظیر مانی جاتی ہیں اور مجموعی طور پر یہ علاقے ‘پہاڑوں کی سلطنت ‘ اور پہاڑ ‘پہاڑوں کے دیوتا ‘کہلاتے ہیں۔

عام طور پر کسی بھی گلیشئیر کی موجودگی کے لئے تمام سال ٹھنڈک کا ہونا ضروری ہے اور یہ یقینی طور پر نہایت بلندی کی وجہ سے ہی ممکن ہے۔ عمومی طور پر گلیشئیر 4 سے 5 ہزار میٹر کی بلندی پر کسی پہاڑی چوٹی کی بنیادوں سے شروع ہوتے ہیں اور 3000 میٹر کی بلندی تک ختم ہو جاتے ہیں۔ لیکن شمالی علاقہ جات میں گلگت کے ضلع نگر میں واقع ہوپر گلیشئر اس حیثیت سے منفرد ہے کہ یہ دنیا کا کم بلند ترین گلیشئیر ہے اور 2400 میٹر کی بلندی پر قائم ہے۔ اپنے ماخذ مشہور راکا پوشی سلسلے کی ایک چوٹی دیران پیک سے شروع ہونے والا یہ گلیشئیر ہوپر اس گاؤں میں آکر ختم ہوتا ہے۔ ہوپر گلیشئیر کو ‘بالتر گلیشئیر’ بھی کہا جاتا ہے اور ان دونوں ناموں سے مشہور ہے۔ دیران پیک کے علاوہ اس گلیشئیر کے اطراف میں کیپل ڈوم ، شلتر اور متعدد دیگر چوٹیاں بھی ہیں جو یہاں کی خوبصورتی اور شہرت کا سبب ہیں۔



ہوپر میں داخل ہو کر آپ ہرگز یہ اندازہ نہیں لگا سکیں گے کہ آس پاس کوئی گلیشئیر بھی موجود ہے اور اگر ہے تو کس طرف ہے جب تک آپ کو بتایا نہ جائے اور آپ خود دیکھ نہ لیں۔ گاؤں کے آخری سرے پر ایک نسبتاً بلند ٹیلے یا نزدیکی پہاڑی پر جا کر گلیشئیر کا مشاہدہ کرنا ایک ایسا دلچسپ، حیرت انگیز اور اچھوتا تجربہ ہے جسے کسی ایک جملے میں بیان کرنا ناممکن ہے۔ گلیشئیر کی سطح سے وقفے وقفے سے ابھرنے والی آوازیں جو یہاں کے پرسکوت ماحول میں واضح سنائی دیتی ہیں، برف کے نیچے بہنے والے پانی کی آواز، کسی پگھلتے ہوئے حصے پر پڑے چھوٹے بڑے پتھروں کا اچانک لڑھکنا اور کسی تاریک تہہ میں غائب ہوجانا۔ حیرت ہی حیرت ، کائنات کے کھلتے ہوئے اسرار! نئے ابھرتے ہوئے سوالات اور ذہن کو وسعت دینے والے مناظر جو ہر دفعہ دیکھنے پر کوئی نیا ہی رنگ لئے ہوں گے! گلیشئر کی سطح پر چلتی ہوئی نگاہ بل کھاتے گلیشئر کے ساتھ چوٹی تک جاتی ہے، اگر چوٹی بادلوں میں چھپی نہ ہو تو۔ ‘کبھی عیاں کبھی نہاں’ چوٹیوں کا معاملہ تو ایسا ہی ہے۔

گلیشئر کی اقسام

، گلیشیر کی مختلف اقسام ہیں۔

  • الپائن گلیشیر  جو اونچے پہاڑوں میں بنتے ہیں۔
  • گلیشیر سرکس. وہ کریسنٹ فارمیشن ہیں جہاں پانی جمع ہوتا ہے۔
  • برفانی جھیلیں. وہ برفانی وادی کے افسردگیوں میں پانی کے ذخائر کے ذریعے بنتے ہیں۔
  • گلیشیر ویلی. یہ ایک ارضیاتی تشکیل ہے جس کا نتیجہ کسی گلیشیر کی زبان کی مستقل کٹاؤ ہے۔ دوسرے لفظوں میں ، ہر وہ علاقہ جہاں آئس سلائیڈنگ کر رہا ہوتا ہے اور شکلیں حاصل کرتا ہے۔


گلیشئر کس قدر انسانی زندگی کے لیے قیمتی ہیں

گلوبل وارمنگ کے ساتھ ، گلیشیروں کا وجود تیزی سے کمی آرہی ہے. وہ ندیوں اور جھیلوں کے ساتھ ساتھ کرہ ارض پر تازہ پانی کا ایک بہت بڑا وسیلہ ہیں۔ ایک گلیشیر کو آخری آئس ایج کا واسٹیج سمجھا جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اگرچہ درجہ حرارت بڑھ گیا ہے ، وہ پگھل نہیں سکے ہیں۔ وہ ہزاروں سالوں سے اپنے آپ کو برقرار رکھنے اور اپنے فطری کام کو پورا کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ جب برفانی دور ختم ہوا تو نچلے علاقوں میں زیادہ درجہ حرارت پگھلنے کا سبب بنا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

  •  

گلیشئر  اور کائنات کے ماحول پر اثرات

ہم نے آنیوالی نسلوں کے لیے اپنے ماحول کو بچانا ہے اور گلوبل وارمنگ کو روکنا ہے ، ہمار

ے گلیشیئر پگھل رہے ہیں اور شہروں میںماحولی

ات کے مسائل پیدا ہورہے ہیں ، ش

ہر پھیل رہے ہیں اور ان پر دباؤ بڑھ رہا ہے ، آبادیاں بڑھنے کی وجہ سے صاف پانی اور ہوا سمیت شہری مسائل کا سامنا ہے۔


سلسلہ کوہ ہمالیہ میں گلیشیئرز کے پگھلنے سے ملک کے

دریاؤں میں پانی کی سطح میں اضافے کا خطرہ ہے، جس سے بارشوں کے دوران ساحلی علاقوں میں سیلاب آنے کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔ درجہ حرارت کے بڑھنے سے مل

ک کے بنجر اور نیم بنجر علاقوں میں زرعی پیداوار متاثر ہو رہی ہے۔

 اس کے علاوہ آب و ہوا میں ہونے والی تیزی سے تبدیلی سے جنگلات میں پودوں اور درختوں کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے۔

 گلوبل وارمنگ سے ہونے والے ان تمام نقصانات کی وجہ س

ے پاکستان میں خوراک اور توانائی کی سلامتی کو خطر

ہ درپیش ہے، گزشتہ بیس برسوں میں صرف یور

پ میں لو لگنے سے ایک لاکھ اڑتیس ہزار

 لوگ زندگی کی بازی ہار گئے، ایشیا اور افریقہ میں مرنے والوں کی تعداد زیادہ تشویشناک ہے۔



حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نہ صرف دنیا

کے آب و ہوا سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک

 میں شامل ہے بلکہ یہ ماحولیاتی تبدیلی کے روزمرہ اثرات سے نمٹنے کے لیے تیزی

سے اقدامات بھی نہیں کر رہا ہے

، جس کا دائرہ موسم کی غیر یقینی ترتیب اور گرمی کی لہروں سے لے کر برفانی جھیل کے سیلابی ریلوں (جی ایل او ایفس) تک

ہے، جس سے پوری کمیونٹی خطرے میں پڑ جاتی ہے اور بے گھر ہوجاتی ہے۔

موسمیاتی شدت سنگین صورتحال اختیار کرتی جارہی ہے، پاکستان کا درجہ حرارت بھی پچھلی ایک صدی کے دوران میں اعشاریہ 83 ڈگری بڑھ چکا ہے۔


ملک کے بہت سے معروف گلیشیئر، دریا اور صحرا، بڑھتی آبادی

کے ساتھ مل کر، ایک پھندا سا بن گئے ہیں، جو شہریوں کے گرد مسلسل

 تنگ ہو رہا ہے، کیونکہ عالمی گرین ہاؤس گیسوں کا اخراج گلوبل وارمنگ کو مہلک ڈگری تک لے جا رہا ہے اور قدرتی آفات کو متحرک کررہا ہے،اگر گلوبل وارمنگ

 اپنی موجودہ رفتار پر جاری رہتی ہے اور عالمی

اوسط درجہ حرارت

3.2 ڈگری سینٹی گریڈ بڑھ جاتا ہے، تو پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال اور سری لنکا میں تقریباً 63 ملین افراد بے گھر ہوں گے

۔ توقع ہے کہ 2050 تک اکیلے پاکستان میں 20 لاکھ کے قریب افراد موسمی تبدیلی کی وجہ سے نقل مکانی پر مجبور ہونگے۔

  •  

برف پوش پہاڑوں کے متعلق شاعر اپنے احساس

مدنی چینل کے ناظرین :

شاعر نے کیا خوبصورت شعر کی زبان میں پہاڑوں کے متعلق اپنے احساسات کو پرویاہے ۔

برف پگھلے گی جب پہاڑوں سے       اور وادی سے کہرا سمٹے گا

بیج انگڑائی لے کے جاگیں گے                     اپنی السائی آنکھیں کھولیں گے

سبزہ بہہ نکلے گا ڈھلانوں پر                          غور سے دیکھنا بہاروں میں

پچھلے موسم کے بھی نشاں ہوں گے                           کونپلوں کی اداس آنکھوں میں

آنسوؤں کی نمی بچی ہوگی



تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا