نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سود سے پاک پاکستان ایک امید یا حقیقت


سود سے پاک  پاکستان ایک امید یا حقیقت

سود کو عربی زبان میں "ربا" کہتے ہیں، جس کا لغوی معنی ہے: بڑھنا، اضافہ ہونا، بلندہونا۔



اور شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے:

 قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو۔"

اے ایمان والو سود مت کھاؤ (یعنی مت لو اصل سے) کئی حصے زائد (کرکے) اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو امید ہے کہ تم کامیاب ہو۔"

(سورۃ آلِ عمران، رقم الآیۃ:130، ترجمہ:بیان القرآن)  



نیز شریعتِ مطہرہ نے نہ صرف اسے قطعی حرام قرار دیاہے، بلکہ اسے اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ قرار دینے کے ساتھ مختلف وعیدوں کو بھی ذکر کیا۔

جی قارئین:یہ تو سود کی مذمت پر دلائل ہیں ۔لیکن افسوس کے ہماری زندگی اس کے برعکس ہے ۔ہمارانظام سود کے تعفن سے آلود ہ ہے ۔جس جانب دیکھیں لین دین میں سود کی آمیزش گویا جز لاینفک کی سی کیفیت اختیار کرگئی ہے ۔مملکت خداداپاکستان اللہ کے نام پر حاصل ہوااس میں اللہ کا دیا ہوانظام ہوناچاہیے یہ ہماری خواہش اور امید بھی ہے ۔لیکن ہم مایوس نہیں ۔

قارئین:پاکستان میں سود کے نظام کے خلاف گاہے گاہے عدالتوں کے دروازے کھٹکائے گئے ۔چنانچہ 2022 میں اس سلسلے میں ایک امید کی کرن فیصلہ منظر عام پر آیا۔آپ قارئین کے ذوق مطالعہ اور جذبہ ایمانی کو جلابخشنے کے لیے پیش خدمت 

ہے ۔



قارئین :

عدالتی فیصلے کے مندرجات کو اقتباس کے طورپر پیش کررہاہوں ۔پاکستان کی وفاقی شرعی عدالت نے سود کے خلاف دائر کیس کا  19 برس بعد فیصلہ سناتے ہوئے سود کی تمام اقسام اور سود کے حوالے سے تمام قوانین اور شقوں کو شریعت کے خلاف قرار دے دیا ہے۔ سود کے نظام کے خلاف دائر درخواستوں کا فیصلہ سناتے ہوئے وفاقی شرعی عدالت نے اس پر مکمل عملدرآمد کے لیے پانچ سال کی مہلت دی اور 31 دسمبر2027 تک تمام قوانین کو اسلامی اور سود سے پاک اصولوں میں ڈھالنے کا حکم دیا۔



شرعی عدالت نے انٹرسٹ ایکٹ 1839 اور یکم جون 2022 سے سود سے متعلق تمام شقوں کو غیر شرعی قرار دے دیا۔

عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’معاشی نظام سے سود کا خاتمہ شرعی اور قانونی ذمہ داری ہے۔ ملک سے ربا(سود) کا ہرصورت میں خاتمہ کرنا ہوگا۔ ربا کا خاتمہ اسلام 

کے بنیادی اصولوں میں سے ہے۔‘



 چیف جسٹس وفاقی شرعی عدالت کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ  نے سود کے خلاف

 درخواستوں کی سماعت کے بعد فیصلہ سنایا۔وفاقی شرعی عدالت کے جسٹس سید محمد انور نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ ’بینکوں کا قرض کی رقم سے زیادہ وصول کرنا ربا کے زمرے میں آتا ہے۔ قرض کسی بھی مد میں لیا گیا ہو اس پر لاگو نٹرسٹ 

ربا کہلائے گا۔‘


’بینکوں کا ہر قسم کا انٹرسٹ ربا ہی کہلاتا ہے۔ ربا مکمل طور پر اور ہر صورت میں

 غلط ہے۔چاہے اس کی مقدار کتنی ہی کم کیوں نہ ہو۔

قارئین:

عدالت کا کہنا تھا کہ ’دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ وفاقی حکومت کی جانب سے سود سے پاک بینکنگ کے منفی اثرات سے متفق نہیں۔ سمجھتے ہیں کہ معاشی نظام کو سود سے پاک کرنے میں وقت لگے گا۔‘

وفاقی شرعی عدالت نے فیصلے میں کہا کہ ’چین بھی سی پیک کے لیے اسلامی بینکاری نظام کا خواہاں ہے۔ ربا سے پاک نظام زیادہ فائدہ مند ہوگا۔ اسلامی بینکاری نظام رسک سے پاک اور استحصال کے خلاف ہے۔ سود سے پاک بینکاری دنیا بھر میں ممکن ہے۔‘

عدالت نے حکومت کو اندرونی اور بیرونی قرض سود سے پاک نظام کے تحت لینے کی ہدایت کی اور کہا کہ  ڈپازٹ کو فوری طور پر ربا سے پاک کیا جا سکتا ہے۔

عدالت نے قرار دیا کہ ’آرٹیکل 38 ایف پر عملدرآمد ہوتا تو ربا کا خاتمہ دہائیاں پہلے ہوچکا ہوتا۔ سٹیٹ بینک کے سٹریٹیجک پلان کے مطابق 30 فیصد بینکنگ اسلامی نظام پر منتقل ہو چکی ہے۔ اسلامی اور سود سے پاک بینکاری نظام کے لیے پانچ سال کا وقت کافی ہے۔‘’توقع ہے حکومت سود کے خاتمے کی سالانہ رپورٹ پارلیمنٹ میں پیش کرے گی۔‘



عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ’دو دہائیاں گزرنے کے بعد بھی سود سے پاک معاشی نظام کے لیے حکومت کا وقت مانگنا سمجھ سے بالاتر ہے۔  ویسٹ پاکستان منی لانڈر ایکٹ، انٹرسٹ ایکٹ 1839 مکمل طور پر اور سود کے لیے سہولت کاری کرنے والے تمام قوانین اور شقیں غیرشرعی قرار دی جاتی ہیں۔‘

سود کے خلاف کیس کیا ہے؟ 


1991 میں وفاقی شرعی عدالت میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں ایک

 جماعت سمیت کئی دیگر افراد پٹیشنر بنے۔ اس پٹیشن میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ملک میں سودی نظام کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ وفاقی شرعی عدالت نے درخواست گزاروں کے حق میں فیصلہ کرتے ہوئے ملک سے سودی نظام کا خاتمہ کرنے کا حکم دیا۔


 

اس وقت کی وفاقی حکومت نے اس فیصلے کو سپریم کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں چیلنج کر دیا تھا۔ عدالت نے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ برقرار رکھا لیکن وفاقی حکومت نے اس پر نظرثانی کی درخواست دائر کر دی۔2002 میں سپریم کورٹ نے نظرثانی کے لیے معاملہ واپس شرعی عدالت کو بھیج دیا۔ 2002 سے 2013 تک یہ کیس سماعت کے لیے مقرر ہی نہ ہو سکا تاہم 2013 کے بعد اس کیس کی متعدد سماعتیں ہوئیں۔



موجودہ چیف جسٹس کی سربراہی میں روزانہ کی بنیاد پر سماعت بھی ہوئی اور بالآخر 19 برس بعد فیصلہ سامنے آیا ہے۔ 

اس فیصلے کے حوالے سے ’جب عدالت نے کہہ دیا ہے کہ قوانین میں موجود لفظ انٹرسٹ غیرشرعی ہے تو ہمارا آئین کہتا ہے کہ خلاف شریعت کوئی قانون نہیں بن سکتا تو پھر سودی نظام خاتمہ حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘



قارئین :کہنے میں تو یہ عام سی بات ہے کہ ایک فیصلہ آیا لیکن یہ ایک طویل جدجہد

 اور کڑہن کا صلہ ہے ۔کیا ہی اچھا ہوکہ نفاذ شریعت اور اتباع شریعت ہماری ترجیح بن جائے ۔اللہ پاک ہمیں سود کی لعنت سے محفوظ فرمائے ۔آمین 



تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا