نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اعضاء میں درد و تکلیف کی عمومی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟



https://www.youtube.com/watch?v=kJG-qZc30DI



اعضاء    میں درد و تکلیف کی عمومی کیا وجوہات ہوسکتی ہیں ؟

بہت سی پیتھولوجیکل اور نان پیتھولوجیکل وجوہات ہیں جو اعضاء میں بے حسی کا باعث بنتی ہیں، اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ ان میں سے کچھ وجوہات خطرناک نہیں 

ہیں اور ذیل میں اس کی تفصیلی وضاحت ہے:


اعضاء میں بے حسی کی غیر تسلی بخش وجوہات اعضاء میں بے حسی کی وجہ غیر تسلی بخش ہو سکتی ہے اور اس کا تعلق کسی شخص کے طرز زندگی یا موجودہ حالات کے سامنے آنے سے ہو سکتا ہے اور ان وجوہات میں سے سب سے اہم کی 

وضاحت درج ذیل ہے:



غلط حالت میں سونا یا بیٹھنا بعض کو نیند کے دوران اور اس سے بیدار ہونے پر اعضاء میں بے حسی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور یہ غلط حالت میں سونے کی وجہ سے ہوتا ہے جس سے کسی ایک اعضاء میں خون کی گردش متاثر ہوتی ہے اور بے حسی کا احساس ہوتا ہے۔ اکثر اوقات سونے کی پوزیشن کو ایڈجسٹ کرنے یا بیٹھنے کی غلط پوزیشن منٹوں میں غائب ہو جاتی ہے۔

غلط پوزیشن میں سونے کی وجہ سے اعضاء کی بے حسی کو کم کرنے کے لیے

 درج ذیل طریقوں میں سے ایک استعمال کیا جا سکتا ہے۔


غلط پوزیشن میں سونے کے نتیجے میں اعضاء میں بے حسی کو کم کرنے کے لیے درج ذیل طریقوں میں سے ایک کا سہارا لیا جا سکتا ہے: اچھی کوالٹی کے تکیے حاصل کرنا یقینی بنائیں جو نرم لیکن معاون ہوں، اور اس طرح گردن پر دباؤ نہ پڑے۔ ، کندھے یا جسم کے اعضاء۔ گردن اور ریڑھ کی ہڈی کے لیے آرام دہ اور معاون پوزیشن میں سونا یقینی بنائیں۔آپ سونے کی پوزیشن کو بھی تبدیل کر سکتے ہیں اور ایک طرف سونے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ سوتے وقت کلائی کو مستحکم کرنے کے لیے کلائی کا پٹا یا تسمہ پہننا۔ اعصاب پر دباؤ کو روکنے کے لیے سوتے وقت اپنے ہاتھ تکیے کے نیچے نہ رکھیں، اور کلائیوں کو موڑنے سے گریز کرنے کا مشورہ دیا جاتا ہے، کیونکہ انہیں موڑنے سے بے حسی کا احساس ہوسکتا ہے۔ سونے سے پہلے ہاتھوں کے لیے کچھ ورزش اور کھینچنے کی مشقیں کریں، جس سے اعضاء میں بے حسی کے مسئلے کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش


https://www.youtube.com/watch?v=kJG-qZc30DI


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا