نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

()مکڑی کاگھر()



تحریر:ڈاکٹر ظہوراحمد دانش
(03462914282)
()مکڑی کاگھر()
کفار نے بتوں کو معبود بنا کر ان کی امداد و اعانت اور نصرت و نفع رسانی پر جو اعتماد اور بھروسا رکھا ہے، اللہ تعالیٰ نے کفار کی اس حماقت مـآبی کے اظہار اور ان کی خود فریبیوں کا پردہ چاک کرنے کے لئے ایک عجیب مثال بیان فرمائی ہے جو بہت زیادہ عبرت خیز اور اعلیٰ درجے کی نصیحت آموز ہے۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ:
مَثَلُ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْلِیَآء َ کَمَثَلِ الْعَنْکَبُوْتِ اِتَّخَذَتْ بَیْتًا وَ اِنَّ اَوْہَنَ الْبُیُوْتِ لَبَیْتُ الْعَنْکَبُوْتِ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ()(پ٢٠،العنکبوت،آیت:٤٢)
ترجمہ کنزالایمان:۔ان کی مثال جنہوں نے اللہ کے سوا اور مالک بنالیے ہیں مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا اچھا ہوتااگر جانتے۔
مکڑی:۔مکڑی ایک عجیب الخلقت جانور ہے اس کے آٹھ پاؤں اورچھ آنکھیں ہوتی ہیں یہ بہت ہی قناعت پسند جانور ہے۔ مگر خدا کی شان کہ سب سے حریص جانور یعنی مکھی اور مچھر اس کی غذا ہیں۔ مکڑی کئی کئی دنوں تک بھوکی پیاسی بیٹھی رہتی ہے مگر اپنے جالے سے نکل کر غذا تلاش نہیں کرتی۔ جب جالے کے اندر کوئی مکھی یا مچھر پھنس جاتا ہے تو یہ اس کو کھا لیتی ہے ورنہ صبر و قناعت کر کے پڑی رہتی ہے۔
مکڑی کے فضائل میں یہ بات خاص طور پر قابل ذکر ہے کہ ہجرت کے وقت جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم غارِ ثور میں تشریف فرما تھے تو مکڑی نے غار کے منہ پر جالا تن دیا تھا اور کبوتری نے انڈے دے دیئے تھے۔ جس کو دیکھ کر کفار واپس چلے گئے کہ اگر غار میں کوئی شخص گیا ہوتا تو مکڑی کا جالا اور انڈا ٹوٹ گیا ہوتا۔
(عجائب القران مع غرائب القران) (تفسیر صاوی،ج٤، ص١٥٦٤ ، العنکبوت٤١)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا