نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

قران اور شہد کی مکھی

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمد دانش
شہد کا نام سنتے ہی منہ میں پانی آجاتاہے ۔کیوں نہ آئے پانی ہوتا ہی اتنا میٹھاہے ۔اور اگر میں آپ سے یہ کہوں کہ شہد اور شہد کی مکھی کا قرآن میں ذکر ہے تو!!
جی ہاں !!شہد اور شہد کی مکھی کا قرآن مجید فرقانِ حمید میں ذکر ہے ۔
شہد کی مکھی
عربی میں شہد کی مکھی کو ''نحل'' کہتے ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے ایک سورہ نازل فرمائی جس کا نام سورہ نحل ہے۔ اس سورہ میں شہد اور شہد کی مکھی کے فضائل اور اس کے فوائد و منافع کا تذکرہ فرمایا ہے، جو قابل ذکر ہے اور درحقیقت یہ مکھیاں عجائباتِ عالم کی فہرست میں ایک بہت ہی نمایاں مقام رکھتی ہیں۔ اس مکھی کی چند خصوصیات حسب ِ ذیل ہیں:۔
()اس مکھی کے گھروں یعنی چھتّوں کا ڈسپلن اور نظام ِ عمل اتنا منظم اور باقاعدہ ہے گویا ایک ترقی یافتہ ملک کا ''نظام سلطنت''ہے۔ جو پورے نظام و انتظام کے ساتھ نظم مملکت چلا رہا ہے جس میں کوئی خلل اور فساد رونما نہیں ہوتا۔
()ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں یہ مکھیاں اس طرح رہتی ہیں کہ ان کا ایک بادشاہ ہوتا ہے جو جسم اور قد میں تمام مکھیوں سے بڑا ہوتا ہے۔ تمام مکھیاں اسی کی قیادت میں سفر اور قیام کرتی ہیں اس بادشاہ کو ''یعسوب'' کہتے ہیں۔
()ان کا ''یعسوب'' ان مکھیوں کے لئے تقسیم کار کرتا ہے اور سب کو اپنی اپنی ڈیوٹی پر لگا کر کام کراتا ہے۔ چنانچہ کچھ مکھیاں مکان بناتی ہیں جو سوراخوں کی شکل میں ہوتا ہے یہ مکھیاں ان سوراخوں کو اتنی خوبصورتی اور یکسانیت کے ساتھ مسدس (چھ گوشوں والا)شکل کا بناتی ہیں کہ گویا کسی ماہر انجینئر نے پرکار کی مدد سے ان سوراخوں کو بنایا ہے۔ سب کی شکل بالکل یکساں اور ایک جیسی، سب کی لمبائی چوڑائی اور گہرائی بالکل برابر ہوتی ہے۔
()کچھ مکھیاں ''یعسوب'' کے حکم سے انڈے بچے پیدا کرنے کا کام انجام دیتی ہیں، کچھ شہد تیار کرتی ہیں، کچھ موم بناتی ہیں، کچھ پانی لاتی ہیں، کچھ پہرہ دیتی رہتی ہیں، مجال نہیں کہ کوئی دوسری مکھی ان کے گھر میں داخل ہوسکے۔
()یہ مکھیاں پھلوں پھولوں وغیرہ کا رس چوس چوس کر لاتی ہیں اور شہد کے خزانے میں جمع کرتی رہتی ہیں اور پھلوں پھولوں کی تلاش میں جنگلوں اور میدانوں میں سینکڑوں میل الگ الگ دور دور تک چلی جاتی ہیں مگر یہ اپنے چھتوں کو نہیں بھولتی ہیں اور بلا تکلف کسی تلاش کے سیدھے سینکڑوں میل کی دوری سے اپنے چھتوں میں پہنچ جاتی ہیں۔
()یہ مکھیاں مختلف رنگوں اور مختلف ذائقوں کا شہد تیار کرتی ہیں، کبھی سرخ، کبھی سفید، کبھی سیاہ، کبھی زرد، کبھی پتلا، کبھی گاڑھا، مختلف موسموں میں اور مختلف پھلوں پھولوں کی بدولت شہد کے مختلف رنگ اور ذائقے بدلتے رہتے ہیں۔
()یہ اپنے چھتے کبھی درختوں پر ،کبھی پہاڑوں پر ،کبھی گھروں میں ،کبھی دیواروں کے سوراخوں میں ،کبھی زمین کے اندر بنایا کرتی ہیں اور ہر جگہ یکساں ڈسپلن اور نظام کے ساتھ ان کا کارخانہ چلتا رہتا ہے۔
()نافرمان اور باغی مکھیوں کو ان کا ''یعسوب'' مناسب سزائیں بھی دیتا ہے یہاں تک کہ بعض کو قتل بھی کروادیتا ہے اور سب کو اپنے کنٹرول میں رکھتا ہے۔ کبھی کوئی شہد کی مکھی کسی نجاست پر نہیں بیٹھ سکتی اور اگر کوئی کبھی بیٹھ جائے تو ان کا بادشاہ ''یعسوب''اس کو سخت سزا دے کر چھتے سے نکال دیتا ہے۔
قرآن مجید نے اس شہد کی مکھیوں کے مسائل کا خطبہ پڑھتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:۔
وَ اَوْحٰی رَبُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ ()ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلًا یَخْرُجُ مِنْ بُطُوْنِہَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُہ فِیْہِ شِفَآء ٌ لِّلنَّاسِ اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ()()
ترجمہ کنزالایمان:۔اور تمہارے رب نے شہد کی مکھی کو الہام کیا کہ پہاڑوں میں گھر بنا اور درختوں میں اور چھتوں میں پھر ہر قسم کے پھل میں سے کھا اور اپنے رب کی راہیں چل کہ تیرے لئے نرم و آسان ہیں اس کے پیٹ سے ایک پینے کی چیز رنگ برنگ نکلتی ہے جس میں لوگوں کی تندرستی ہے بیشک اس میں نشانی ہے دھیان کرنے والوں کو۔(پ14،النحل:68۔69))
دیکھتاآپ نے کہ اللہ عزوجل کی بنائی ہوئی شہد کی مکھی میں کس قدر قدرت کے عجائبات ہیں ۔جنھیں پڑھ یا سن کا بے اختیار زبان سے جاری ہوجاتاہے ۔سبحان تیری قدرت !!سبحان تیری قدرت

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا