نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

تحریر:ظہوراحمد دانش
حضرت ابو بکرصدیق رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ(٢)
یوں توحضور رحمۃ للعالمین صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے اپنے بہت سے صحابیوں رضی اللّٰہ تعالیٰ عَنْہُمْ کو مختلف اوقات میں جنت کی بشارت دی اوردنیا ہی میں ان کے جنتی ہونے کااعلان فرمادیامگردس ایسے جلیل القدر اورخوش نصیب صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں جن کو آ پ نے مسجد نبوی کے منبر شریف پر کھڑے ہوکرایک ساتھ ان کا نام لے کر جنتی ہونے کی خوش خبری سنائی ۔ تاریخ میں ان خوش نصیبوں کا لقب ''عشرہ مبشرہ ''ہے ۔انہی خوش نصیبو ں میں ایک عظیم المرتبت ہستی خلیفہ ئ اوّل حضرت ابوبکر صدیق بھی ہیں ۔آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عَنْہ کی سیرت رہتی دنیا کے لیے ایک عمدہ مثال ہے ۔آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عَنْہ کی سیرت کے متعلق جانتے ہیں ۔
خلیفہ اول جانشین پیغمبرامیرالمؤمنین حضرت سدینا صدیق اکبررضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کا نام نامی ''عبداللہ ''''ابو بکر'' آ پ کی کنیت اور''صدیق وعتیق''آپ کے القاب ہیں۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ قریشی ہیں اورساتویں پشت میں آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہکا شجرہ نسب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے خاندانی شجرہ سے مل جاتاہے ۔ آپ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ عام الفیل کے تقریباََ ڈھائی برس بعد مکہ مکرمہ میں پیدا ہوئے (الاکمال فی اسماء الرجال٣٨٧)۔ آپ اس قدر جامع الکمالات اورمجمع الفضائل ہیں کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کے بعد تمام اگلے اور پچھلے انسانوں میں سب سے افضل واعلیٰ ہیں ۔
کتب تاریخ اور سیرت کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ :
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آزادمردوں میں سب سے پہلے اسلام قبول کیا اور زندگی کے تمام فیصلوں میں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وزیر ومشیر بن کر رفیق وجاں نثار رہے ۔( دو برس تین ماہ گیارہ دن ) ٢سال ٧ ماہ مسند خلافت پر رونق افروز رہ کر ٢٢جمادی الاخریٰ(جمادی الاولٰی) ١٣ ھ ؁کو وفات پائی ۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نماز جنازہ پڑھائی اور روضہ منورہ میں حضور رحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پہلو ئے مقدس میں دفن ہوئے ۔ (اکمال وتاریخ الخلفاء )(الاکمال فی اسماء الرجال٣٨٧)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مال وجان آقائے دو جہاں پر قربان
صاحِبِ مَروِیات کثیرہ حضرتِ سیِّدُناابوہُریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مَروی ہے کہ رحمتِ عالَمِیان، مکّی مَدَنی سُلطان، محبوبِ رَحمن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ حقیقت نشان ہے: مَا نَفَعَنِیْ مَالٌ قَطُّ مَا نَفَعَنِیْ مَالُ اَبِیْ بَکْریعنی مجھے کبھی کسی کے مال نے وہ فائدہ نہ دیا جو ابوبکر کے مال نے دیا۔ بارگاہِ نُبُوّت سے یہ بِشارت سُن کر حضرتِ سیِّدُناابوبکر (رضی اللہ تعالٰی عنہ )رو دئیے اور عَرض کی: یا رسولَ اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّمْ!میرے اورمیرے مال کے مالِک آپصلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی تو ہیں۔
(سنن ابن ماجہ ،ج١،ص٧٢،الحدیث ٩٤ ،دارالمعرفۃ بیروت)
مُشیرِ رسولِ انور،عاشقِ شَہنشاہِ بحرو بر حضر تِ سیِّدُنا صِدِّیقِ اَکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں مجھے تین چیزیں پسند ہیں :اَلنَّظْرُ اِلَیْکَ وَاِنْفَاقُ مَالِیْ عَلَیْکَ وَالْجُلُوْسُ بَیْنَ یَدَیْکَ یعنی ()آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چہرہ پُراَنوار کا دیدارکرتے رہنا()آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم پر اپنامال خرچ کرنا اور()آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضِر رہنا۔(تفسیر روح البیان ج٦،٢٦٤)(عاشقِ اکبر ،ص١٤)
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آرزوئیں
یہ تو فطرت انسانی ہے کہ انسان خواہشات کرتاہے ۔پھر ان کے پورے ہونے کی آرزو بھی کرتاہے ۔اللہ عزوجل کے نیک و پاکباز بندے جب بھی کوئی آرزو کرتے ہیں ان کے پیشِ نظر اخروی نفع اخروی فائدہ ہوتاہے ۔چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بھی تین آرزوئیں و خواہشیں تھی جو پوری ہوئیں ۔(١)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سفر و حَضَر میں رَفاقت ِ حَبیب ؐ نصیب رہی ۔یہاں تک کہ غارِ ثور کی تنہائی میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا کوئی اور زیارت سے مشرف ہونے والا نہ تھا۔(٢)اسی طرح آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنا سارا مال ومتاع سرکارِ دوجہاں صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے قدموں پرقربان کردیا۔(٣)کرم بالائے کرم یہ کہ دنیا میں رفاقت کے مشتاق اور آرزو مند حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مزارپرانوار میں بھی پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کی دائمی رفاقت و قربت نصیب ہوئی ۔(عاشقِ اکبر ،ص١٤،ملخصاََ)
اسی بلند پائیہ ہستی نے غارثور میں اپنے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ سلم کی خاطر سانپ کا ڈنک برداشت کیا اور اُف تک نہ کہا۔
مدفن کے بارے میں غیبی آواز
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ امیرالمؤمنین حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعدصحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آپ کو کہاں دفن کیاجائے ؟بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو شہدائے کرام کے قبرستان میں دفن کرناچاہیے اوربعض حضرات چاہتے تھے کہ آپ کی قبر شریف جنت البقیع میں بنائی جائے، لیکن میری دلی خواہش یہی تھی کہ آپ میرے اسی حجرہ میں سپردخاک کئے جائیں جس میں حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی قبرمنور ہے یہ گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا اورخواب میں یہ آوازمیں نے سنی کہ کوئی کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ ضُمُّوا الْحَبِیْبَ اِلَی الْحَبِیْب(یعنی حبیب کو حبیب سے ملادو)خواب سے بیدارہوکر میں نے لوگوں سے اس آوازکا ذکر کیا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ آوازہم لوگوں نے بھی سنی ہے اورمسجد نبوی علیٰ صاحبہا الصلوۃ والسلام کے اندربہت سے لوگوں کے کانوں میں یہ آوازآئی ہے ۔ اس کے بعد تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ آپ کی قبراطہر روضہ منورہ کے اندربنائی جائے۔ اس طرح آپ حضورانور صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پہلوئے اقدس میں مدفون ہوکراپنے حبیب صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے قرب خاص سے سرفراز ہوگئے ۔ (شواہد النبوۃ،ص١٥٠)

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا