نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ


تحریر:ظہوراحمد دانش


حضرت عثمان غنی رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ
حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں ایک چمکتا دمکتا ستارہ ، ایک مہر منیر ، ایک آفتابِ عالم تاب حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ !!
ملی تقدیر سے مجھ کو صحابہ کی ثناخوانی                 ملا فیضِ عثمانی ملاہے فیضِ  عثمانی
صا بروشاکر، زاہد و متقی ہستی جن کا کردار و گفتارانسانیت کی معراج ہے ۔جی ہاں !!
تاریخ اسلام میں اس عظیم ہستی کو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے جاناگیا۔
خلیفہ سوم امیرالمومنین حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت "ابوعمرو" اور لقب "ذوالنورین" (دونوروالے) ہے۔ آپ قریشی ہیں اورآپ کا نسب نامہ یہ ہے: عثمان بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبدمناف۔ آپ کاخاندانی شجرہ "عبد مناف" پر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے نسب نامہ سے مل جاتاہے ۔ آپ نے آغاز اسلام ہی میں اسلام قبول کرلیا تھا اورآپ کو آپ کے چچا اوردوسرے خاندانی کافروں نے مسلمان ہوجانے کی وجہ سے بے حد ستایا۔ آپ نے پہلے حبشہ کی طرف ہجرت فرمائی پھر مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی ا س لئے آپ "صاحب الہجرتین" (دو ہجرتوں والے)کہلاتے ہیں اور چونکہ حضوراکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اس لئے آپ کا لقب "ذوالنورین"ہے۔
حضرت امیرالمومنین عمرفاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد آ پ خلیفہ منتخب ہوئے اوربارہ برس تک تخت خلافت کو سرفراز فرماتے رہے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دورخلافت میں اسلامی حکومت کی حدود میں بہت زیادہ توسیع ہوئی اور افریقہ وغیرہ بہت سے ممالک مفتوح ہوکر خلافت راشدہ کے زیر نگیں ہوئے ۔
خواب میں پانی پی کر سیراب
    حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ جن دنوں باغیوں نے حضر ت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اوران کے گھر میں پانی کی ایک بوند تک کا جانا بند کردیا تھا اورحضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیاس کی شدت سے تڑپتے رہتے تھے میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ملاقات کے لیے حاضرہوا تو آپ اس دن روزہ دار تھے ۔ مجھ کو دیکھ کرآپ نے فرمایا کہ اے عبداللہ بن سلام!آج میں حضور نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے دیدار پرانوارسے خواب میں مشرف ہوا توآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ و الہ وسلم نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں ارشادفرمایا کہ اے عثمان! رضی اللہ تعالیٰ عنہ ظالموں نے پانی بند کر کے تمہیںپیاس سے بے قرار کردیا ہے؟میں نے عرض کیا کہ جی ہاں ! تو فوراً ہی آپ نے دریچی میں سے ایک ڈول میری طرف لٹکا دیا جو نہایت شیریں اور ٹھنڈے پانی سے بھر اہوا تھا ، میں اس کو پی کر سیراب ہوگیا اوراب اس و قت بیداری کی حالت میں بھی اس پانی کی ٹھنڈک میں اپنی دونوں چھاتیوں اوردونوں کندھوں کے درمیان محسوس کرتا ہوں ۔ پھر حضوراکرم صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ والہ وسلمنے مجھ سے فرمایا کہ اے عثمان!اگر تمہاری خواہش ہوتو ان باغیوں کے مقابلہ میں تمہاری امداد ونصرت کروں۔اوراگر تم چاہو تو ہمارے پاس آکر روزہ افطار کرو۔ اے عبداللہ بن سلام !میں نے خوش ہوکر یہ عرض کردیا کہ یارسول اللہ ! صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم آپ کے دربار پر انوار میں حاضر ہوکر روزہ افطار کرنا یہ زندگی سے ہزاروں لاکھوں درجے زیادہ مجھے عزیز ہے۔ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں اس کے بعد رخصت ہوکر چلا آیا اوراسی دن رات میں باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شہیدکردیا۔
(البدایۃ والنھایۃ، ذکرمجی الاحزاب الی عثمان...الخ، ذکر حصر امیر المومنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ج٥، ص
٢٦٩)


امیر المومنین حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب کسی قبر کے پاس کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے تھے کہ آنسوؤ ں سے ان کی داڑھی تر ہوجایاکرتی تھی۔ تو کسی نے کہا(اے امیرالمومنین)آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جنت و دوزخ کا ذکر کرتے ہیں تو نہیں روتے اور قبر کے پاس کیوں روتے ہیں؟ تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ یقین رکھو کہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے کہ قبر آخرت کی منزلوں میں سے پہلی منزل ہے اگر اس سے نجات مل گئی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ آسان ہوں گی اور اگر اس سے نجات نہ ملی تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوں گی، اور رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ قبر سے بڑھ کر خوفناک منظر کبھی میں نے 
دیکھا ہی نہیں(مشکوٰۃ،ج١،٢٦)(آئینہ عبرت ،٦٣)

اپنے مدفن کی خبر
    حضرت امام مالک رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ نے فرمایا کہ امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ ایک مرتبہ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع کے اس حصہ میں تشریف لے گئے جو "حش کوکب"کہلاتا ہے۔ توآپ نے وہاں کھڑے ہوکر ایک جگہ پر یہ فرمایا کہ عنقریب یہاں ایک مرد صالح دفن کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کے بعد ہی آپ کی شہادت ہوگئی ا ورباغیوں نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے ساتھ اس قدر ہلڑبازی کی کہ آپ کونہ روضہ منورہ کے قریب دفن کیا جاسکا نہ جنت البقیع کے اس حصہ میں مدفون کیے جاسکے جو کبارصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا قبرستان تھا بلکہ سب سے دورالگ تھلگ "حش کوکب"میں آپ سپردِ خا ک کئے گئے جہاں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہاں امیرالمومنین حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قبر مبارک بنے گی کیونکہ اس وقت تک وہاں کوئی قبر تھی ہی نہیں ۔
(زالۃ الخفاء عن خلافۃ الخلفاء ، مقصد دوم، اما مآثرامیرالمومنین عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ، ج٤، ص٣١٥)

تاریخ انسانیت کا انسانیت سوز واقعہ حضرت عثمان غنی کی شہادت بھی ہے ۔ مصر کے باغیوں نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مکان کا محاصرہ کرلیا اور بارہ ذوالحجہ یا اٹھارہ ذوالحجہ ٣٥ھ؁ جمعہ کے دن ان باغیوں میں سے ایک بدنصیب نے آپ کو رات کے وقت اس حال میں شہیدکردیا کہ آپ قرآنِ پاک کی تلاوت فرما رہے تھے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کے چند قطرات قرآن شریف کی آیت فَسَیَکْفِیْکَھُمُ اللّٰہُپر پڑے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے جنازہ کی نماز حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے پھوپھی زاد بھائی حضرت زبیر بن عوام رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھائی اورآپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں مدفون ہیں۔(تاریخ الخلفاء ، الخلفاء الراشدون، عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ص١١٨، فصل فی خلافتہ، ص١٢٧،١٢٢،١٢٩،۔ملتقطاً والاکمال فی اسماء الرجال، حرف العین)
تمہی کو جامع قرآن کا حق عزوجل نے دیا منصب                 جمع قرآن کو کرے کی عطا امّت کو آسانی
ہم ان کی یاد کی دھومیں مچائیں گے قیامت تک         پڑے ہوجائیں جل کر خاک سے سب اعدائے عثمانی


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا