ریر:ظہوراحمد دانش
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
تاریخ اسلام
خلیفہ دوم جانشین پیغمبر حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ''ابوحفص'' اورلقب ''فاروق اعظم''ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشرافِ قریش میں اپنی ذاتی وخاندانی وجاہت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز ہیں ۔ آٹھویں پشت میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندانی شجرہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے شجرہ نسب سے ملتاہے ۔آپ واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیداہوئے اوراعلان نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے ،جبکہ ایک روایت میں آپ سے پہلے کل انتالیس آدمی اسلام قبول کرچکے تھے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلما ن ہوجانے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اوران کو ایک بہت بڑا سہارا مل گیا ۔یہاں تک کہ حضوررحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ خانہ کعبہ کی مسجد میں اعلانیہ نماز ادافرمائی ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور پیغمبراسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تمام اسلامی تحریکات اورصلح وجنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں حضورسلطان مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وزیر ومشیر کی حیثیت سے وفادار ورفیق کار رہے ۔
امیرالمؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا اوردس برس چھ ماہ چاردن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت پر رونق افروز ہو کر جانشینی رسول کی تمام ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا۔٢٦ذی الحجہ٢٣ ھ چہار شنبہ کے دن نماز فجر میں ابولؤلوہ فیروز مجوسی کافر نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکم میں خنجر مارا اور آپ یہ زخم کھا کر تیسرے دن شرف شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ بوقت وفات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف تریسٹھ برس کی تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور روضہ مبارکہ کے اندر حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے ۔ (۔الاکمال فی اسماء الرجال ، حرف العین ، فصل فی الصحابۃ ،ص٦٠٢)
روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصرکا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اوریہ کہا کہ مصر کی تمام ترپیداوارکا دارومداراسی دریائے نیل کے پانی پر ہے ۔ اے امیر!اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتاتھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا جاری ہوجایا کرتاتھا اب ہم کیا کریں؟ گورنر نے جواب دیا کہ ارحم الراحمین اوررحمۃ للعالمین کا رحمت بھرا دین ہمارا اسلام ہرگز ہرگزکبھی بھی اس بے رحمی اورظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا تم لوگ انتظار کرو میں دربار خلافت میں خط لکھ کر دریافت کرتاہوں وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اسپر عمل کریں گے چنانچہ ایک قاصدگورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اوراگر تواللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا۔"
امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خط کو قاصد کے حوالہ فرمایا اورحکم دیا کہ میرے اس خط کو دریائے نیل میں دفن کردیا جائے ۔چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل کی خشک ریت میں دفن کردیا، خدا کی شان کہ جیسے ہی امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دریا میں دفن کیا گیا فوراًہی دریا جاری ہوگیا اوراس کے بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔ (حجۃ اللہ،ج٢،ص٨٦١)
اللہ عزوجل کے نیک بندے دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کاموں کے احسن انداز میں نبھاتے ہوئے آخرت کی تیاری کرتے ہیں ۔انھیں کتنا ہی بلند دنیاوی منصب ہی کیوں نہ مل جائے لیکن وہ خوف ِ خداسے کانپتے رہتے ہیں اور اپنے ربّ کو کسی لمحے بھی نہیں بھولتے ۔
سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر آسمان سے ندا کی جائے کہ'' تمام روئے زمین کے آدمی بخش دیئے گئے مگر ایک شخص ،تو میں خوف کروں گا کہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں ۔''اور اگر ندا کی جائے ''روئے زمین کے تمام آدمی دوزخی ہیں سوائے ایک شخص کے ،تو میں امید کروں گا کہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں ۔''
(احیاء علوم الدین،کتاب الخوف،بیان ان الافضل،ج٤،ص٢٠٢)
یہ تاریخ ساز ہستیاں ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ بتاگئیں ۔انکی سیرت ہمارے لیے مشعل رہ ہے ۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ
تاریخ اسلام
خلیفہ دوم جانشین پیغمبر حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی کنیت ''ابوحفص'' اورلقب ''فاروق اعظم''ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اشرافِ قریش میں اپنی ذاتی وخاندانی وجاہت کے لحاظ سے بہت ہی ممتاز ہیں ۔ آٹھویں پشت میں آ پ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خاندانی شجرہ رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے شجرہ نسب سے ملتاہے ۔آپ واقعہ فیل کے تیرہ برس بعد مکہ مکرمہ میں پیداہوئے اوراعلان نبوت کے چھٹے سال ستائیس برس کی عمر میں مشرف بہ اسلام ہوئے ،جبکہ ایک روایت میں آپ سے پہلے کل انتالیس آدمی اسلام قبول کرچکے تھے ۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے مسلما ن ہوجانے سے مسلمانوں کو بے حد خوشی ہوئی اوران کو ایک بہت بڑا سہارا مل گیا ۔یہاں تک کہ حضوررحمت عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم نے مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ خانہ کعبہ کی مسجد میں اعلانیہ نماز ادافرمائی ۔
آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمام اسلامی جنگوں میں مجاہدانہ شان کے ساتھ کفار سے لڑتے رہے اور پیغمبراسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کی تمام اسلامی تحریکات اورصلح وجنگ وغیرہ کی تمام منصوبہ بندیوں میں حضورسلطان مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ والہ وسلم کے وزیر ومشیر کی حیثیت سے وفادار ورفیق کار رہے ۔
امیرالمؤمنین حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ منتخب فرمایا اوردس برس چھ ماہ چاردن آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تخت خلافت پر رونق افروز ہو کر جانشینی رسول کی تمام ذمہ داریوں کو باحسن وجوہ انجام دیا۔٢٦ذی الحجہ٢٣ ھ چہار شنبہ کے دن نماز فجر میں ابولؤلوہ فیروز مجوسی کافر نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو شکم میں خنجر مارا اور آپ یہ زخم کھا کر تیسرے دن شرف شہادت سے سرفراز ہوگئے ۔ بوقت وفات آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی عمر شریف تریسٹھ برس کی تھی۔ حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی نماز جنازہ پڑھائی اور روضہ مبارکہ کے اندر حضرت صدیق اکبر رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کے پہلوئے انور میں مدفون ہوئے ۔ (۔الاکمال فی اسماء الرجال ، حرف العین ، فصل فی الصحابۃ ،ص٦٠٢)
روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں ایک مرتبہ مصرکا دریائے نیل خشک ہوگیا۔ مصری باشندوں نے مصر کے گورنر عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فریاد کی اوریہ کہا کہ مصر کی تمام ترپیداوارکا دارومداراسی دریائے نیل کے پانی پر ہے ۔ اے امیر!اب تک ہمارا یہ دستور رہا ہے کہ جب کبھی بھی یہ دریا سوکھ جاتاتھا تو ہم لوگ ایک خوبصورت کنواری لڑکی کو اس دریا میں زندہ دفن کر کے دریا کی بھینٹ چڑھایا کرتے تھے تو یہ دریا جاری ہوجایا کرتاتھا اب ہم کیا کریں؟ گورنر نے جواب دیا کہ ارحم الراحمین اوررحمۃ للعالمین کا رحمت بھرا دین ہمارا اسلام ہرگز ہرگزکبھی بھی اس بے رحمی اورظالمانہ فعل کی اجازت نہیں دے سکتا لہٰذا تم لوگ انتظار کرو میں دربار خلافت میں خط لکھ کر دریافت کرتاہوں وہاں سے جو حکم ملے گا ہم اسپر عمل کریں گے چنانچہ ایک قاصدگورنر کا خط لے کر مدینہ منورہ دربار خلافت میں حاضر ہوا امیرالمومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے گورنر کا خط پڑھ کر دریائے نیل کے نام ایک خط تحریر فرمایا جس کا مضمون یہ تھا کہ اے دریائے نیل ! اگر تو خود بخود جاری ہوا کرتا تھا تو ہم کو تیری کوئی ضرورت نہیں ہے اوراگر تواللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوتا تھا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے جاری ہوجا۔"
امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس خط کو قاصد کے حوالہ فرمایا اورحکم دیا کہ میرے اس خط کو دریائے نیل میں دفن کردیا جائے ۔چنانچہ آپ کے فرمان کے مطابق گورنر مصر نے اس خط کو دریائے نیل کی خشک ریت میں دفن کردیا، خدا کی شان کہ جیسے ہی امیر المومنین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا خط دریا میں دفن کیا گیا فوراًہی دریا جاری ہوگیا اوراس کے بعد پھر کبھی خشک نہیں ہوا۔ (حجۃ اللہ،ج٢،ص٨٦١)
اللہ عزوجل کے نیک بندے دنیا میں رہتے ہوئے دنیا کے کاموں کے احسن انداز میں نبھاتے ہوئے آخرت کی تیاری کرتے ہیں ۔انھیں کتنا ہی بلند دنیاوی منصب ہی کیوں نہ مل جائے لیکن وہ خوف ِ خداسے کانپتے رہتے ہیں اور اپنے ربّ کو کسی لمحے بھی نہیں بھولتے ۔
سیدنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر آسمان سے ندا کی جائے کہ'' تمام روئے زمین کے آدمی بخش دیئے گئے مگر ایک شخص ،تو میں خوف کروں گا کہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں ۔''اور اگر ندا کی جائے ''روئے زمین کے تمام آدمی دوزخی ہیں سوائے ایک شخص کے ،تو میں امید کروں گا کہ وہ شخص میں ہی نہ ہوں ۔''
(احیاء علوم الدین،کتاب الخوف،بیان ان الافضل،ج٤،ص٢٠٢)
یہ تاریخ ساز ہستیاں ہمیں زندگی گزارنے کا سلیقہ بتاگئیں ۔انکی سیرت ہمارے لیے مشعل رہ ہے ۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں