ایک مرض جس نے آبادی کی آبادی اجاڑ دی
دنیا وآخرت کی بھلائی اللہ عزوجل کے نیک بندوں کی اتباع اور اللہ عزوجل کے
احکام کی بجاوآری ہی میں ہے ۔جو قومیں ربّ عَزَّوَجَلَّ کی نافرمانی کرتے ہیں وہ
نشان عبرت بن جاتی ہیں ۔تمام کامیابیوں کا سرچشمہ اللہ عزوجل کی فرمانبرداری ہی میں
ہے ۔بنی اسرائیل پر طاعون کا عذاب!!
جب ''میدان تیہ'' میں بنی اسرائیل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم زمین سے اگنے والے غلے اور ترکاریاں کھائیں گے تو ان لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ تم لوگ 'من و سلویٰ'' کے نفیس کھانے کو چھوڑ کر گیہوں، دال اور ترکاریوں جیسی خسیس اور گھٹیا غذائیں کیوں طلب کررہے ہو؟ مگر جب بنی اسرائیل اپنی ضد پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم لوگ میدان تیہ سے نکل کر شہر بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ اور وہاں بے روک ٹوک اپنی پسند کی اور من بھاتی غذائیں کھاؤ مگر یہ ضروری ہے کہ تم لوگ بیت المقدس کے دروازے میں کمال ادب و احترام کے ساتھ جھک کر داخل ہونا اور داخل ہوتے وقت یہ دعا مانگتے رہنا کہ یا اللہ! تو ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے تو ہم تمہارے گناہوں کو بخش دیں گے۔
مگر بنی اسرائیل جو ہمیشہ سے سرکش اور شرارتوں کے عادی اور خدا کی نافرمانیوں کے خوگر تھے، بیت المقدس کے قریب پہنچ کر ایک دم ان لوگو ں کی رگ شرارت بھڑک اٹھی اور یہ نافرمان لوگ بجائے جھک کے داخل ہونے کے اپنی سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے اور حِطَّۃٌ(معافی کی دعا )کے بدلے حبۃ فی شعرۃ (ایک دانہ ہے ایک بال میں)کہتے ہوئے اور مذاق و تمسخر کرتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے میں گھستے چلے گئے۔ فرمانِ ربانی کی اس نافرمانی اور حکم الٰہی کے ساتھ تمسخر کی وجہ سے ان لوگوں پر قہر خداوندی بصورت عذاب نازل ہو گیا کہ اچانک ان لوگوں میں طاعون کی بیماری وبائی شکل میں پھیل گئی اور گھنٹہ بھر میں ستر ہزار بنی اسرائیل درد و کرب سے مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
(صاوی،ج ١،ص ٣١) جلالین)
(عجائب القرآن مع غرائب القران،ص٢٥٧)
اے اللہ عزوجل !ہمیں نیک بننے اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے کی توفیق عطافرما۔آمین
جب ''میدان تیہ'' میں بنی اسرائیل نے یہ خواہش ظاہر کی کہ ہم زمین سے اگنے والے غلے اور ترکاریاں کھائیں گے تو ان لوگوں کو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سمجھایا کہ تم لوگ 'من و سلویٰ'' کے نفیس کھانے کو چھوڑ کر گیہوں، دال اور ترکاریوں جیسی خسیس اور گھٹیا غذائیں کیوں طلب کررہے ہو؟ مگر جب بنی اسرائیل اپنی ضد پر اڑے رہے تو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ تم لوگ میدان تیہ سے نکل کر شہر بیت المقدس میں داخل ہوجاؤ اور وہاں بے روک ٹوک اپنی پسند کی اور من بھاتی غذائیں کھاؤ مگر یہ ضروری ہے کہ تم لوگ بیت المقدس کے دروازے میں کمال ادب و احترام کے ساتھ جھک کر داخل ہونا اور داخل ہوتے وقت یہ دعا مانگتے رہنا کہ یا اللہ! تو ہمارے گناہوں کو معاف فرما دے تو ہم تمہارے گناہوں کو بخش دیں گے۔
مگر بنی اسرائیل جو ہمیشہ سے سرکش اور شرارتوں کے عادی اور خدا کی نافرمانیوں کے خوگر تھے، بیت المقدس کے قریب پہنچ کر ایک دم ان لوگو ں کی رگ شرارت بھڑک اٹھی اور یہ نافرمان لوگ بجائے جھک کے داخل ہونے کے اپنی سرینوں پر گھسٹتے ہوئے دروازے میں داخل ہوئے اور حِطَّۃٌ(معافی کی دعا )کے بدلے حبۃ فی شعرۃ (ایک دانہ ہے ایک بال میں)کہتے ہوئے اور مذاق و تمسخر کرتے ہوئے بیت المقدس کے دروازے میں گھستے چلے گئے۔ فرمانِ ربانی کی اس نافرمانی اور حکم الٰہی کے ساتھ تمسخر کی وجہ سے ان لوگوں پر قہر خداوندی بصورت عذاب نازل ہو گیا کہ اچانک ان لوگوں میں طاعون کی بیماری وبائی شکل میں پھیل گئی اور گھنٹہ بھر میں ستر ہزار بنی اسرائیل درد و کرب سے مچھلی کی طرح تڑپ تڑپ کر مر گئے۔
(صاوی،ج ١،ص ٣١) جلالین)
(عجائب القرآن مع غرائب القران،ص٢٥٧)
اے اللہ عزوجل !ہمیں نیک بننے اور دوسروں کو نیکی کی دعوت دینے کی توفیق عطافرما۔آمین
طالب دعا:
ڈاکٹر ظہوراحمد دانش
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں