نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ایسا بھی ہوتاہے

تحریر:ظہوراحمد دانش


ایسا بھی ہوتاہے
    ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ کسی شہر میں ایک بہت ہی غریب لڑکا رہتا تھا - لڑکا غریب ضرور تھا مگر انتہائی باہمت بھی تھا - وہ اپنی روز مرّہ زندگی کے اخراجات کو پورا کرنے کے لیئے مزدوری کیا کرتا تھا - ان دنوں وہ گلی محلوں میںچھوٹی موٹی چیزیں بیچ کر اپنے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچہ نکالتا تھا - ایک دن وہ ایک محلے سے گزر رہا تھا کہ اسے شدید بھوک کا احساس ہوا - اس نے روپے دیکھنے کے لیئے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا مگر اسے اس وقت شدید مایوسی ہوئی جب اسے یہ معلوم ہوا کہ جیب میں تو صرف ایک ہی سکہ باقی رہ گیا ہے اور اس ایک سکے سے تو کھانے پینے کی کوئی بھی چیز نہیں خریدی جا سکتی ہے - اس نے فیصلہ کیا کہ کسی قریبی گھر سے غذا مانگ لی جائے - اتفاقی طور پر اس نے ایک گھر کا دروازہ کھٹکھٹایا ۔ایک جوان اور باادب لڑکے نے دروازہ کھولا - لڑکے تو جب اس لڑکے کو دیکھا تو اپنے حواس کھو بیٹھا اور کھانے کے لیئے کچھ مانگنے کی بجائے صرف پانی کا ایک گلاس ہی طلب کیا - لڑکا سمجھ گیاکہ کہ یہ لڑکا بہت بھوکا ہے اس لیئے اس نے دودھ کا ایک گلاس لا کر لڑکے کو دیا - لڑکے نے بڑے آرام کے ساتھ دودھ پیا اورگھر میں موجودلڑکے کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگا کہ اس دودھ کے 
کتنے پیسے دوں ؟

اس لڑکے نے جواب دیا کہ کچھ دینے کی ضرورت نہیں ہے - ہماری ماں نے ہمیں یہ سکھایا ہے کہ نیکی کرکے اس کا صلہ مت مانگو لڑکے نے اس لڑکے کا بڑے مدبانہ انداز میں شکریہ ادا کیا اور وہاں سے رخصت ہو گیا -سالوں کے بعد وہ جوان لڑکا بیمار ہو گیا - اس علاقے کے ڈاکٹروں نے اس کی بیماری کا علاج کرنے سے معذرت کر لی اور اسے علاج کے لیئے شہر بھیج دیا تاکہ شاید شہر کے ماہر ڈاکٹر اس کی بیماری کا علاج کرنے میں کامیاب ہو جائیں -


اس لڑکے کا معائنہ کرنے کے لیئے ڈاکٹر کو بلایا گیا - جب ڈاکٹر کو معلوم ہوا کہ مریض فلاں شہر سے آیا ہے تو اس پر ایک عجیب سی کیفیت طاری ہو گئی - تیزی کے ساتھ اس نے ڈاکٹروں کا مخصوص لباس پہنا اور اس مریض کے کمرے کی طرف گیا - جیسے ہی وہ کمرے میں داخل ہوا اس نے پہلی ہی نظر میں اس نیکی کرنے والے لڑکے کو پہچان لیا -
ڈاکٹر نے اپنے عملے کو فوری حکم دیا کہ اس مریض کے معالجے کے لیئے فوری طور پر تمام ضروری اقدامات کیے جائیں - اس مریض کی ہر طرح سے دیکھ بھال کی گئی اور اس کا بڑی محنت اور دقت کے ساتھ علاج کیا گیا -
آج اس مریض کا ہسپتال میں آخری دن تھا - ہسپتال کا بل ادا کرنے کے لیئے وہ لڑکا بےحد پریشان تھااور یہ سوچ رہی تھی کہ شاید ساری عمر اس ہسپتال کا بل ادا نہیں کر پائے گی ۔ڈاکٹر نے بل اپنے پاس منگوایا اور اس کاغذ کے کنارے پر ایک جملہ لکھا اور اسے ایک پیکٹ میں بند کرکے لڑکے کو ارسال کر دیا 
-

اس نیکی کرنے والے لڑکے کے ہاتھ میں جب یہ لفافہ پہنچا تو اس نے پریشانی کے عالم میں اس لفافے کو کھولا - وہ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوا کہ بل پر اعداد کی بجائے چند کلمات درج ہیں - لڑکے نے آہستہ سے ان کلمات کو پڑھا - بل پر درج تھا۔اس بل کی ادائیگی پہلے ہی دودھ کے ایک گلاس کی صورت میں ہو چکی ہے "* " میرے خیال میں ڈاکٹر یہ کہنا چاہتے تھے کہ نیکی کرنے کے لیئے قیمت مقرر نہیں کی جاتی " ۔دیکھا آپ نے کے جب آپ نیکی کرتے وقت عوض طلب نہیں کرتے اور مخلوق سے صلہ نہیں چاہتے تو اس نیکی کا اجر بھی ملتاہے اور دنیا میں کہیں نہ کہیں اس کا صلہ بھی ضرور مل جاتا ہے ۔تو پھر نیکی کریں اور جی بھر کرکریں ۔زندگی میں اطمینان بھی ملے گا اور آخرت میں اس کا انعام بھی ملے گا۔


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا