طب کی دنیا اور مصنوعی ذہانت
انسان، مشین اور شفا کی نئی داستان
تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش
(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)
میں ایک ڈاکٹرکی حیثیت سے دیکھ رہاہوں کہ بہت تیزی کے
ساتھ ہماری فیلڈ میں بھی تبدیلی آئی ہے ۔ٹیکنالوجی نے میڈیکل کی فیلڈ کے مینول
کاموں کو ڈیجیٹل آٹومیشن کی طرف ٹرانسفرکیاہے۔اس
شعبہ سے وابستہ افراد کا مصنوعی ذہانت کی دنیا سے واقف ہوگا اب ناگزیز ہوچکاہے
۔کیوں کہ جو وقت کے ساتھ قدم بہ قدم نہیں چلا وہ بہت پیچھے رہ گیا۔لہذامعالجین کو
بھی اپ ڈیٹ رہناہوگا۔چنانچہ یہ مضمون اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔
قارئین:
انسان نے صدیوں تک بیماری کو تقدیر، آزمائش اور کمزوری
سمجھا۔ پھر طب نے راستہ دکھایا اور علم نے اندھیروں کو چیر کر روشنی پھیلائی۔لیکن
اکیسویں صدی میں شفا کے سفر میں ایک نیا مسافر شامل ہوا ہے:
مصنوعی ذہانت۔یہ
عجیب ساتھی ہے۔نہ سانس لیتا ہے، نہ زخم محسوس کرتا ہے، مگر انسانی جسم کے راز ایسے
پڑھ لیتا ہے جیسے صدیوں سے اسی کے اندر رہتا ہو۔یہ ڈاکٹر کی معاون بھی ہے اور اس
کے علم کا امتحان بھی۔شفا کا چراغ بھی ہے اور کبھی کبھار خطرے کی چنگاری بھی۔طب اور AI کی یہ نئی داستان حیرت، سوال اور
امکانات سے بھری ہوئی ہے۔
قارئین:
مصنوعی ذہانت تشخیص کے
میدان میں ڈاکٹر کے مقابلے میں کئی گنا تیز رفتار ثابت ہوئی ہے۔آئیے ہم آپکو
مثالوں سے سمجھاتے ہیں تاکہ آپ بات کو آسانی سے سمجھ سکیں ۔X-Ray، CT اور MRI اسکین کی خودکار رپورٹنگ کرتی ہے۔دل
کے دورے کا خطرہ چند سیکنڈز میں بتا دیتی ہے۔کینسر کے خلیات کو 95 سے 99 فیصد
درستگی سے پہچان لیتی ہے۔آنکھ کی بیماریوں کی جلد تشخیص کر لیتی ہے۔خون، ہارمونز،
امیون اور جینیاتی ڈیٹا کا ڈیپ لرننگ تجزیہ کرتی ہے۔ہم نے اسٹڈی کیا کہ Nature
Journal (2020) کے مطابق
Google Health AI نے چھاتی کے کینسر کی تشخیص میں
انسانی ریڈیالوجسٹ سے بہتر نتائج دیے۔
قارئین:
مصنوعی ذہانت نظام طب میں انقلاب لا چکی ہے ۔اب سرجری میں روبوٹ
استعمال ہورہے ہیں ۔جن کے ہاتھ نہیں لرزاتے،غلطی کا امکان تقریباً 80 فیصد کم کرتے
ہیں،پیچیدہ سرجریز کو ملی میٹر سطح کی درستگی سے انجام دیتے ہیں۔دل، گردے اور دماغ
کی سرجریز میں یہ روبوٹ دنیا بھر میں ہزاروں مریضوں کو نئی زندگی دے چکے ہیں۔
قارئین:
جب ہم معالج کی بات کرتے ہیں دواسازی کے شعبہ کی بات نہ کرناگویا ادھوری معلومات کے مترادف ہے
۔اب دیکھتے ہیں کہ دواسازی کی دنیا میں مصنوعی ذہانت کی کیسی مداخلت اور آٹومیٹک
کردار ہے ۔AI نے
دوا سازی کے شعبے کو بے حد تیز کردیا ہے۔نئی دوائیں جو پہلے 10 سال میں تیار ہوتی
تھیں، اب 1 سے 2 سال میں ممکن ہو رہی ہیں۔تحقیق کا خرچ 90 فیصد کم ہو چکا ہے۔2021 میں دنیا کی پہلی AI-Designed دوا انسانوں پر ٹیسٹ
ہوئی۔
قارئین:
AI
ویڈیو کال پر مریض کے چہرے کا رنگ، خطاب، سانس، نبض اور
کھانسی کو پہچان کر حیرت انگیز تشخیص کرتی ہے۔یہ سہولت دیہات، جنگی علاقوں اور
بیرونِ ملک مقیم مریضوں کے لیے ایک نعمت ہے۔قارئین۔اب ہمیں یہ بھی تو معلوم ہوکہ
میں ایک ڈاکٹرہوں مصنوعی ذہانت کا میں کیسے استعمال کرسکتاہوں ۔چنانچہ ہم نے اسٹڈی
کے بعد آپ کے لیے ٹولز تلاش کیے ہیں جو آپ کے کام کو آسان سے آسان تر بناسکتے
ہیں ۔اب یہ آپ کے استعمال پر ہے آپ انھیں کیسے استعمال کرتے ہیں ۔کیونکہ پیش
کردہ ہرٹول کو ہم نے استعمال کیا ہویہ ضروری نہیں ۔نتائج کے لیے تجربہ شرط ہے
۔آپ ان ٹولز کے ڈیمو دیکھ لیں اس کے لیے یوٹیوب
آپ کے لیے بہترین نالج سورس ہے ۔لیجئے آپ کے لیے معاون ٹولز میں سرفہرست ٹولز یہ
ہیں ۔
1. ChatGPT / Medical GPT Assistants
Differential Diagnosis، رپورٹ کی وضاحت اور مریض کی Counseling۔
2. Google Med-PaLM 2
Evidence-based طبی مشورے۔
3. SkinVision App
جلدی کینسر کی تصویری شناخت۔
4. CardioAI Tools
ECG کی خودکار تشریح۔
5. Babylon Health / Ada Health
AI Symptoms Checker۔
6. PathAI
پیتھالوجی سلائیڈز کی 95 تا 99 فیصد درست تشخیص۔
7. IBM Watson Oncology
کینسر کے علاج پر دنیا بھر کی ریسرچ کا جامع خلاصہ اس کے ذریعے آپکو مل سکتاہے ۔کیا خیال ہے
مصنوعی ذہانت کا مثبت استعمال ہمارے لیے کس قدر مددگار اور ہمارے کاموں کو کتنا
آسان بنادیتاہے ۔
قارئین:سب اچھا اچھا جان لیا۔اب ذرا ہم طب کے
شعبہ میں مصنوعی ذہانت کے ڈارک پہلو کو بھی تو جان لیں تاکہ ہماری معلومات بیلنس
ہوجائے ۔ہم یہاں کچھ چیزوں کی نشاندہی کرنے لگے ہیں امید ہے کہ آپ بات اچھے سے
سمجھ جائیں گے ۔
AI
غلط ڈیٹا سے غلط نتیجہ دے سکتی ہے۔ایک غلط نتیجہ جان
لیوا فیصلہ بھی بن سکتا ہے۔ہسپتالوں کے ڈیٹا بیس میں موجود معلومات اگر ہیک ہو
جائیں تو مریض کی پوری زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔AI
پر ضرورت سے زیادہ انحصار ڈاکٹر کی تجزیاتی قوت کمزور
کر سکتا ہے۔AI کیوں
اور کیسے نتیجہ دیتی ہے؟اکثر ڈاکٹر بھی نہیں جانتے۔یہ خطرناک خاموشی ہے۔
قارئین:مشین
نہ مریض کا درد محسوس کر سکتی ہے،نہ خوف، نہ امید، نہ تنہائی۔یہ شدتِ احساس صرف
انسان کے پاس ہے۔AI کی
مدد سے جینیاتی تبدیلیاں، غیر اخلاقی تجربات اور انسانی نسل میں مداخلت کا خدشہ
بڑھ گیا ہے۔پیارے ڈاکٹر ساتھیو!!مصنوعی ذہانت کو
مشیر سمجھیں، حاکم نہیں۔ہر نتیجے کو اپنی کلینیکل عقل سے Verify کریں۔مریض کا ڈیٹا سخت
حفاظتی اصولوں کے ساتھ محفوظ کریں۔بچوں اور ذہنی مریضوں کے لیے AI کے استعمال میں خصوصی احتیاط کریں۔AI
رپورٹس کو کم از کم دو مختلف ذرائع سے چیک کریں۔یاد
رکھیں: مریض کو تکنیک نہیں، انسانی ہمدردی زیادہ چاہیے۔
پیارے ڈاکٹر ساتھیو!!مصنوعی
ذہانت حیرت انگیز ہے۔تیز رفتار، دقیق، بے پناہ طاقتور۔یہ انسان کی مدد کر سکتی ہے،
ناکامیوں کو کم کر سکتی ہے،مگر انسان کا نعم البدل نہیں۔کیونکہ شفا صرف سائنسی
فارمولا نہیں۔شفا دل کی دعا،
ہاتھ کی حرارت،اور نیت کی پاکیزگی سے بھی ملتی ہے۔مشین
بیماری بتادے گی،مگر تسلی نہیں دے سکے گی۔
AI دوا تجویز کر دے گی،مگر امید نہیں دے سکتی۔AIرپورٹ
پڑھ لے گی،مگر ایک ڈاکٹر کی طرح
مریض کی دھڑکن سے بات نہیں کر سکتی۔لہٰذا مصنوعی ذہانت
کو سہولت بنائیں،سہارا بنائیں،مگر انسانیت، احساس اور حکمت کے بغیراس راستے پر ایک
قدم بھی نہ بڑھائیں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں