بنیادی میڈیکل ٹیسٹ — صحت کی پہلی پہچان(اول)
A Refined, Professional &
Literary Clinical Guide
تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش
(DHMS/RHMp)
انسانی جسم ایک خاموش کتاب ہے جس کے اوراق پر بیماری اور
صحت دونوں کے نشان ثبت ہوتے رہتے ہیں۔ ایک ماہرفطرت طبیب وہی ہے جو ان اشاروں کو
پڑھنے کا ہنر جانتا ہو۔ کسی بھی کلینک کی بنیاد صرف دوا نہیں، درست تشخیص ہے،
اور درست تشخیص اُسی وقت ممکن ہے جب بنیادی ٹیسٹوں پر مضبوط عبور حاصل ہو۔
یہ چند سادہ مگر فیصلہ کن ٹیسٹ وہ چراغ ہیں جو بیماریوں
کی تاریکی میں روشنی دکھاتے ہیں۔ یہ مریض کی صحت، اس کے طرزِ زندگی، خون کی کیفیت،
شوگر کی حالت اور گردوں کی کارکردگی کو بے نقاب کرتے ہیں۔
اسی لیے یہ مضمون ان ٹیسٹوں کا منظّم اور آسان تعارف
پیش کرتا ہے، تاکہ آپ اپنی کلینیکل پریکٹس کا آغاز علم، اعتماد اور مہارت کے ساتھ
کر سکیں۔
۱۔
رینڈم بلڈ شوگر (RBS)
شوگر وہ خاموش دشمن ہے جو بنا آواز دیے جسم پر قبضہ
جمالیتا ہے۔ RBS دن
کے کسی بھی حصے میں لی جانے والی شوگر ہے، اور اس کی خوبی یہی ہے کہ یہ فوری طور پر
مریض کی حالتِ حاضرہ کی تصویر دکھاتی ہے۔
نارمل رینج:
140 mg/dl سے کم
اگر کوئی مریض چکر، کمزوری یا کپکپی محسوس کرے تو یہ
ٹیسٹ لمحوں میں فیصلہ کردیتا ہے کہ معاملہ ہائپو ہے یا ہائپر۔
لیکن یاد رہے:
صاف ہاتھ، خشک انگلی اور درست اسٹِپ — یہی رِیڈنگ کو سچ
بناتے ہیں۔ غلطی ہو جائے تو علاج بھی غلط سمت اختیار کر لیتا ہے۔
۲۔
فاسٹنگ بلڈ شوگر (FBS)
خالی پیٹ لی جانے والی شوگر — ذیابیطس کی تشخیص میں سب
سے معتبر۔
رات بھر کی بھوک کے بعد لی گئی یہ رپورٹ جسم کے اصل
میٹابولک توازن کو ظاہر کرتی ہے۔
نارمل رینج:
70–100 mg/dl
یہ ٹیسٹ ہمیں بتاتا ہے کہ جسم کس حد تک شوگر کو
سنبھالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
لیکن اگر مریض نے رات کو کچھ کھا لیا ہو، یا بھوک کا
دورانیہ کم ہو، تو نتیجہ دھندلا ہوجاتا ہے، اور تشخیص غلط سمت پکڑ لیتی ہے۔
۳۔
پوسٹ پرانڈیل شوگر (PPBS)
کھانے کے دو گھنٹے بعد ہونے والا یہ ٹیسٹ جسم کی عملی
حالت کو بیان کرتا ہے۔
یہ وہ لمحہ ہے جب شوگر خون میں بلند ہوتی ہے، اور جسم
کی قوتِ برداشت سامنے آتی ہے۔
نارمل رینج:
140–160 mg/dl سے کم
اگر FBS نارمل
اور PPBS بلند
ہو تو سمجھ لیجیے کہ معاملہ کنٹرول کا ہے، تشخیص کا نہیں۔
لیکن یہاں سب سے اہم اصول یہی ہے کہ ٹیسٹ بالکل دو
گھنٹے بعد لیا جائے؛
ایک منٹ کا فرق بھی نتیجے کو متاثر کرسکتا ہے۔
۴۔
یورین روٹین ایگزامینیشن (Urine RE)
پیشاب جسم کی وہ زبان ہے جو گردوں کی صحت، شوگر کے اثرات،
اور انفیکشن کی خبر سب سے پہلے دیتی ہے۔
اس ٹیسٹ میں رنگ، شفافیت، پروٹین، شوگر، خون اور
بیکٹیریا — سب کچھ دیکھا جاتا ہے۔
UTI
کی معمولی جلن سے لے کر گردوں کی سنگین خرابی تک… سب کی
پہلی جھلک اس ٹیسٹ میں نظر آ جاتی ہے۔
ضروری اصول:
نمونہ mid-stream
ہو اور بوتل صاف۔
غلط نمونہ جھوٹے انفیکشن کی رپورٹ دے سکتا ہے، جس سے
علاج بے فائدہ ہوجاتا ہے۔
۵۔
کمپلیٹ بلڈ کاؤنٹ (CBC)
CBC
خون کی مکمل کہانی ہے
—
RBC کے ذریعے جسم کی توانائی،
WBC کے ذریعے قوتِ مدافعت،اور Platelets کے ذریعے جسم کی حفاظت کا
اندازہ ہوتا ہے۔یہ ٹیسٹ بخار، کمزوری، ڈینگی، اینیمیا، اور ہر اُس کیفیت میں اولین
ترجیح ہے جہاں جسم کی اندرونی حالت جاننی ہو۔لیکن غلط کیلیبریشن یا غلط مقدار سے
پلیٹیلیٹس کی غلط رپورٹ… ڈینگی میں زندگی تک کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔
۶۔
ہیموگلوبن (Hb%)
یہ ٹیسٹ جسم کی سانس ہے۔Hb
وہ آکسیجن کی گاڑی ہے جو زندگی کو رواں رکھتی ہے۔
نارمل رینج:
مرد: 13–17 g/dl
خواتین: 12–15
g/dl
کم Hb کمزوری،
سانس پھولنا، دل کی دھڑکن بڑھ جانا، چکر… سب پر اثر انداز ہوتا ہے۔
خواتین میں خصوصاً اس کی کمی عام ہے۔اگر اسے نظرانداز
کیا جائے تو نتیجہ دل اور دماغ دونوں کے لیے نقصان دہ ہوسکتا ہے۔
۷۔
بلڈ گروپ اور Rh فیکٹر
خون کا گروپ صرف شناخت نہیں، کئی بار زندگی کا فیصلہ
بنتا ہے۔سرجری، حادثہ، خون لگوانا، اور خاص طور پر حمل کے دوران Rh فیکٹر اہم رول ادا کرتا ہے۔Rh–
عورت اور Rh+ شوہر
کی صورتحال میں Rh incompatibility
بچے کی جان تک کو خطرے میں ڈال سکتی ہے۔اسی لیے بلڈ
گروپ ہمیشہ دو مرتبہ کراس چیک کیا جاتا ہے۔
طب کی دنیا میں چھوٹی غلطی بڑی آزمائش بن سکتی ہے۔ اس
لیے بنیادی ٹیسٹوں کی سمجھ، احتیاط اور درست انجام دہی آپ کی پریکٹس کی بنیاد بھی
ہے اور آپ کی پہچان بھی۔یہ ٹیسٹ آپ کو بیماری کی جڑ تک پہنچاتے ہیں، اور مریض کو
اُس یقین کی دولت دیتے ہیں جو ہر معالج کے کردار کی اصل طاقت ہے۔اگر آپ ان ٹیسٹوں
پر عبور حاصل کرلیں تو آپ کا کلینک نہ صرف تبدیلی لے کر آئے گا… بلکہ اعتماد، خدمت
اور مہارت کا مرکز بن جائے گا۔یقین رکھیے — کامیاب طبی سفر کی شروعات یہی سے ہوتی
ہے۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں