شادیاں یا
خرابیاں؟
ڈاکٹرظہوراحمددانش
(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر )
شادی ایک
خوبصورت تصور ایک حسین حقیقت ہے ۔جس میں دوخاندان باہم محبتوں کے بندھن میں جُڑ
جاتے ہیں ۔دوافراد کی زندگیوں میں بہترین رشتوں کا اضافہ ہوجاتاہے ۔کتنا پیارا
رشتہ طے پاجاتاہے ۔لیکن فی زمانہ شادی کی تقاریب کے متعلق سن کر ،پڑھ کر ،دیکھ کر
یوں لگتاہے کہ ایک انتہائی آسان اور باعث خیر و بر کت کام کو انسان نے کس قدر
مشکل اور خرافات سے بھرپور بنادیاہے ۔
آپ کسی عزیز سے
پوچھیں کہ کب تک شادی کاارادہ ہے تو اس کا جواب اتنے وقفے اور فکروں و اندیشوں کے
بعد موصول ہوتاہے گویا وہ کسی سلطنت کو فتح کرنے چلاہے ۔جناب !!شادی تو کرنی ہے
لیکن اس کے لیے اتنی دولت ،سہولت ،رقم
،پیسہ ،دھوم دھڑکے ،فرمائشیں پوری کرنے کے لیے وسائل تو پورے کرلوں ۔
آپ ایمانداری
سے بتائیے گا۔فی زمانہ شادی کتنی مشکل ہوگئی ہے ۔بیٹی کاجہیز جمع کرتے کرتے باپ کی
کمر جُھک جاتی ہے ۔بیٹے کی شادی کے لیے باپ فکروں و اندیشوں میں وقت سے پہلے
بوڑھاہوجاتاہے ۔کئی بیماریاں پال لیتاہے ۔فرمائشوں ،دکھاوے ،ڈھول ڈھماکے ،سرتال
،گانے باجے ،بَری ،طرح طرح کے کھانوں کی ڈشز ایک ریت رسم بن گئے کہ غریب کیا امیر کا
جینا بھی دوبھر ہوگیاہے ۔
آئیے ہم وہ پرابلمز آپ سے شئیر کرتے ہیں جن کا معاشرے کو سامناہے ۔تاکہ ایک مرض کی تشخیص ہوگی تو آئندہ ہم اس کے سدباب کے حوالے سے بھی بات کریں گے ۔
فضول خرچی :
شادیوں میں فضول خرچی اور نمود و
نمائش عام ہوگئی ہے۔ قیمتی ڈیزائنر ملبوسات، مہنگے ہالز، اور شادی کے کئی تقریباتی
دنوں پر بے پناہ پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، جو کہ مالی وسائل کو ضائع کرنے کا سبب بن
سکتا ہے۔ یہ سب معاشرتی دباؤ میں اضافہ اور دیگر خاندانوں پر بھی بوجھ ڈال دیتا
ہے۔
رسموں کا اضافی بوجھ
شادی کی بہت سی روایتی رسمیں جیسے
مہندی، مایوں، مایون یا بارات پر زیادہ زور دیا جانے لگا ہے۔ ان میں سے کچھ رسمیں
اسلامی تعلیمات اور سادگی کے اصولوں کے برعکس ہیں اور شادی کو ایک مالی بوجھ بنا
دیتی ہیں۔
. لڑکی والوں پر بوجھ !!
آج کل کی شادیاں اکثر لڑکی والوں کے
لیے مالی مشکلات کا باعث بن جاتی ہیں۔ قیمتی جہیز، مہنگے تحفے اور بڑی دعوتیں، یہ
سب غیر ضروری ہیں، مگر معاشرتی دباؤ کی وجہ سے لوگ مجبور ہوجاتے ہیں۔
ڈیکوریشن اور فوٹوگرافی کا
رجحان
شادی کے مقامات کو خوبصورت بنانے کے لئے بیشمار پیسے خرچ کیے جاتے ہیں۔ ہر لمحے کو کیمرے میں قید کرنے کے لیے مہنگے فوٹوگرافرز اور ویڈیوگرافرز کا انتظام کیا جاتا ہے، جو کہ روایتی انداز سے بہت مختلف ہے۔جس میں جہاں ایک مالی اضافی بوجھ کا سامناہے وہاں حیاپردہ جیسی نعمت بھی ختم ہوتی چلی جارہی ہے ۔
قارئین:
فی
زمانہ شادی کو غیر ضروری رسم و رواج، معاشرتی دباؤ، اور مالی مطالبات نے بے حد
مشکل بنا دیا ہے۔ یہ مسائل نہ صرف اسلامی تعلیمات اور سادگی کے اصولوں سے دور ہیں
بلکہ لوگوں کے لیے مشکلات کا باعث بھی بن رہے ہیں۔ شادی کو آسان اور پرسکون بنانے
کی بجائے آج یہ معاشرتی دباؤ اور رواجوں کی پیچیدگیوں کا شکار ہوگئی ہے۔
مہنگے جہیز اور تحفے
جہیز
کا مطالبہ اور اس کے ساتھ مہنگے تحائف کی خواہش نے شادی کو ایک مالی بوجھ بنا دیا
ہے، جو لڑکی کے خاندان پر اضافی دباؤ ڈالتی ہے۔ اس کی وجہ سے کئی گھرانے قرضوں میں
ڈوب جاتے ہیں یا لڑکی کے والدین پر غیر ضروری بوجھ بڑھ جاتا ہے۔
تقریبات کی بھرمار
شادی
میں کئی دنوں کی تقریبات جیسے کہ مہندی، مایوں، بارات، ولیمہ وغیرہ شامل ہوچکی
ہیں، جنہیں خاص شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ان تقریبات کا خرچ اٹھانا بہت
سے خاندانوں کے لیے مشکل ہوتا ہے اور یہ شادی کو بے جا مہنگا بنا دیتا ہے۔
معاشرتی دباؤ اور نمود و نمائش
معاشرے
میں شادی کو حیثیت اور عزت سے منسلک کیا جاتا ہے۔ اس دباؤ کی وجہ سے لوگ اپنی مالی
حیثیت سے بڑھ کر خرچ کرتے ہیں، جس کا مقصد صرف اپنے خاندان کی معاشرتی ساکھ کو
بہتر بنانا ہوتا ہے۔ یہ رجحان شادی کو نہ صرف مشکل بلکہ غیر ضروری طور پر پیچیدہ
بھی بنا دیتا ہے۔
سادگی کی کمی
اسلامی
تعلیمات کے مطابق شادی کو سادگی سے انجام دینا مستحب ہے۔ مگر آج کل سادگی کو کمزور
سمجھا جاتا ہے اور شادیوں میں حد سے زیادہ فضول خرچی کی جاتی ہے۔ اس کا بوجھ اکثر
دونوں خاندانوں، خصوصاً لڑکی والوں پر ہوتا ہے۔
تعلیم اور کیریئر کی تاخیر
شادی کے غیر ضروری اخراجات اور توقعات کی وجہ سے اکثر نوجوان شادی کو مؤخر کرتے ہیں تاکہ وہ اپنی تعلیم اور کیریئر میں استحکام حاصل کر سکیں۔ اس تاخیر کی وجہ سے اکثر لوگ عمر کے اس حصے میں شادی کرتے ہیں جب ان کے لیے ازدواجی زندگی میں توازن بنانا مشکل ہو جاتا ہے۔
اعلیٰ معیار اور سماجی توقعات
خاندانوں
میں یہ توقع ہوتی ہے کہ شادی میں سب کچھ اعلیٰ معیار کے مطابق ہو۔ مہنگے کپڑے،
زیورات، شادی ہالز، اور آرائش و زیبائش جیسے معیار کو پورا کرنا ایک عام انسان کے
بس سے باہر ہوتا ہے۔ یہ توقعات شادی کو مزید مشکل بنا دیتی ہیں۔
اسلامی تعلیمات سے دوری
شادی کے بہت سے پہلو اسلامی تعلیمات
کے برعکس ہوچکے ہیں۔ جہاں نبی کریم ﷺ نے سادگی کو اہمیت دی، وہاں لوگوں نے اپنی
معاشرتی حیثیت کو بڑھا چڑھا کر دکھانے کے لئے رسم و رواج میں اضافہ کیا۔
ان
سب وجوہات کی بنا پر شادی سے پہلے ہی لڑکے اور لڑکی والوں پر شدید ذہنی دباؤ اور
اضطراب طاری ہوجاتا ہے۔ مالی بوجھ، معاشرتی دباؤ، اور رسموں کی بھرمار نے شادی کو
ایک مشکل اور تکلیف دہ تجربہ بنا دیا ہے۔
دیر
سے شادی اور عمر کے مسائل
شادی
کے بڑھتے ہوئے اخراجات اور توقعات کی وجہ سے اکثر نوجوان اپنی شادی میں تاخیر کرتے
ہیں تاکہ وہ معاشی طور پر مستحکم ہو سکیں۔ اس تاخیر کے نتیجے میں عمر کے اس حصے
میں شادی ہوتی ہے جس میں بعض اوقات ازدواجی زندگی میں مسائل کا سامنا کرنا پڑتا
ہے۔
سوشل میڈیا اور ورچوئل
دنیا کا اثر
سوشل میڈیا پر مثالی زندگیوں اور تعلقات کو دیکھ کر حقیقی زندگی کی توقعات بھی بدل گئی ہیں، جس سے رشتے میں اطمینان اور قبولیت میں کمی آ گئی ہے۔ڈراموں کی اسٹوری میں چکاچوند رونقیں دیکھ کر گھروں میں بحثیں چھِڑ جاتی ہیں ۔ایسی ہی دوسروں سے توقعات وابستہ کرلی جاتی ہیں جس سے بدمزگی ہوجاتی ہے ۔شادیاں خرابیوں کا مسکن بن جاتی ہیں ۔
قارئین:
ہم نے کوشش کی ہے کہ فی زمانہ شادیوں کے نام پر جو جو
معاشرے کو مسائل درپیش ہیں ان کی نشاندہی کرسکیں ممکن ہے کہ ہمارے یہ الفاظ کسی کی
زندگی میں سکھ چین کا ذریعہ بن جائیں کسی گھر کے سکون کا ذریعہ بن جائیں تو ہم سمجھیں
گے کہ ہم اپنے کام میں کامیاب ہوگئے ۔خداراہ چیزوں کو سمجھیں ۔محتاط آدمی سداسکھی
۔ذراسی غفلت شادی جیسے بندھن کو آگ کا
لاوابناکر خاند ان کے خاندان اجاڑ دیتی ہے ۔رشتہ داروں کے جنازے جداہوجاتے ہیں
مرنا جینا جداہوجاتاہے ۔ہمیں امید ہے کہ آپ ایسا نہیں سوچتے ہوں گے ۔آپ بھلا
سوچیں گئے بھلاکریں گے ۔آسانیاں کریں آسانیاں بانٹیں اور خود بھی خوش رہیں
دوسروں کو بھی مسکراہٹیں بانٹیں ۔شادیاں بنائیں خانہ آبادیاں ۔
رابطہ نمبر:03462914283
وٹس ایپ:03112268353
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں