نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

حلال بزنس اینڈ انڈسٹری کیاہے ؟



حلال  بزنس اینڈ انڈسٹری کیاہے ؟

What is Halal Business and Industry?

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

(دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر)

ہم بزنس و انڈسٹری کی بات کریں تو اس دنیا میں حلال کی اپنی منفرد اہمیت ہے ۔مسلمان  اپنے کھانے پینے ،اوڑھنے پہنے میں حلال کی کو ترجیح دے گا۔یہ اس کے ایمان کا حصہ بھی ہے اور اس کی ذمہ داری بھی ہے ۔آئیے ہم حلال بزنس کے حوالے سے اور حلال انڈسٹری کے حوالے سے کچھ اہم باتیں آپ قارئین سے شئیر کرلیتے ہیں جو رب نے چاہا تو آپ کے لیے مفید ہی ہوں گیں ۔میں ڈاکٹرظہوراحمددانش ایک عرصہ سے حلال فوڈ کے حوالے سے اسٹڈی کررہاہوں اس حوالے سے سرٹیفیکیشن بھی کی ہے چنانچہ اپنے مطالعہ اور تجربہ کو آپ پیاروں کے سامنے گاہے گاہے پیش کرتارہتاہوں یہ مضمون بھی اسی کی ایک کڑی ہے ۔

آئیے اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں ۔

حلال فوڈ اینڈ انڈسٹری کا دائرہ کار:

 خوراک اور مشروبات:

 یہ سب سے بڑا طبقہ ہے، جس میں گوشت، پولٹری، اور دودھ کی مصنوعات سے لے کر بیکری کی اشیاء، نمکین اور مشروبات تک سب کچھ شامل ہے۔

بائیوسیفٹی اینڈ سیکیورٹی کے متعلق زبردست معلومات جاننے کے لیے کلک کریں 

 کاسمیٹکس اور ذاتی نگہداشت:

صابن، شیمپو، لوشن اور کاسمیٹکس جیسی مصنوعات میں جانوروں سے ماخوذ اجزاء شامل نہیں ہونے چاہئیں جو حلال طریقوں یا الکحل کے مطابق ذبح نہ کیے گئے ہوں۔

دواسازی:

ادویات، سپلیمنٹس، اور دیگر صحت مند مصنوعات کو غیر حلال اجزاء سے پرہیز کرنا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ پیداواری عمل اسلامی ہدایات پر عمل پیرا ہوں۔

 فنانس اور بینکنگ:

اسلامی فنانس سود اور قیاس آرائیوں سے بچنے جیسے اخلاقی اصولوں پر مبنی روایتی بینکنگ کے متبادل پیش کرتا ہے۔

 سفر اور سیاحت:

حلال دوست سفری خدمات مسلمان مسافروں کی ضروریات کو پورا کرتی ہیں، رہائش، ریستوراں اور سرگرمیاں پیش کرتی ہیں جو ان کے مذہبی تقاضوں کی تعمیل کرتی ہیں۔

 فیشن اور ملبوسات:

معمولی لباس جو ڈھانپنے اور ظاہری لباس سے گریز کے اسلامی اصولوں پر عمل پیرا ہوں۔

بنیادی خیال:

 حلال:

اسلامی قانون کے مطابق جائز، اجزاء اور پیداواری عمل دونوں پر مشتمل ہے۔

حرام:

اسلامی قانون کے مطابق حرام، بشمول سور کا گوشت، شراب، اور وہ جانور جو حلال طریقوں کے مطابق ذبح نہ کیے گئے ہوں۔

 شریعت:

اسلامی قانون حلال اصولوں کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔

سرٹیفیکیشن:

حلال سرٹیفیکیشن باڈی اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ مصنوعات یا خدمات اسلامی رہنما خطوط کے مطابق ہیں۔

ترقی اور اہمیت:

بڑھتی ہوئی مسلم آبادی اور اخلاقی اور پائیدار مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مانگ سے کارفرما۔

 عالمی رسائی:

حلال کاروبار دنیا بھر میں کام کرتے ہیں،  علاقائی ضروریات اور تشریحات کو پورا کرتے ہیں۔

 اقتصادی اثر:

ٹریلین ڈالر کی صنعت ہونے کا تخمینہ ہے، جو عالمی معیشتوں میں نمایاں طور پر حصہ ڈال رہی ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ حلال انڈسٹری کا ہجم بڑھتاہی چلاجارہاہے

چیلنجز اور مواقع:

 معیاری کاری:

 حلال سرٹیفیکیشن کے لیے متفقہ عالمی معیارات کا فقدان ابہام اور عدم مطابقت پیدا کر سکتا ہے۔ شفافیت اور ٹریس ایبلٹی:

شفاف اور ٹریس ایبل سپلائی چین کو یقینی بنانا اعتماد پیدا کرنے اور دھوکہ دہی کو روکنے کے لیے بہت ضروری ہے۔

جدت و تبدیلی:

حلال فریم ورک کے اندر سہولت، صحت اور پائیداری کے لیے صارفین کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو پورا کرنے کے لیے مسلسل جدت کی ضرورت ہے۔

قابل رسائی اور قابل استطاعت:

حلال مصنوعات اور خدمات کو تمام آبادی کے لیے قابل رسائی اور سستی بنانا۔

تعلیم اور آگاہی:

 حلال کے اصولوں اور طریقوں کے بارے میں مسلمانوں اور غیر مسلموں دونوں میں بیداری پیدا کرنا۔ حلال کاروبار اور صنعت کا مستقبل روشن ہے، جس میں ترقی کے بے پناہ امکانات اور مثبت اثرات ہیں۔ چیلنجوں سے نمٹنے، تعاون کو فروغ دینے اورتبدیلیوں کو اپنانے سے، یہ شعبہ زیادہ جامع، پائیدار، اور خوشحال عالمی معیشت میں اپنا حصہ ڈال سکتا ہے۔

قارئین :ہم نے حلال انڈسٹری کا overviewآپ کے سامنے پیش کردیاہے ۔امید ہے کہ آپ کے سامنے حلال انڈسٹری کی پکچر واضح ہوگئی ہوگی ۔مزید اس حوالے سے معلومات جاننے کے لیے آپ ہم سے جُڑے رہیں ۔ہماری کوشش آپ کے لیے مفید ثابت ہوتو ہماری مغفرت کی دعاضرور کردیجئے گا۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصرہو۔ 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا