نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

دینی کاموں کا مزاح اُڑانا



تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دینی کاموں کا مزاح اُڑانا

دین کی تعلیمات  کامل و اکمل ہوتی ہیں ۔انھیں دنیا کی دیگر چیزوں پر قیاس کرنا  اور قیاس کرتے ہوئے انھیں مزاح و مسخری کے انداز میں کہنا یا سننا کسی طور پر بھی درست نہیں ۔بلکہ دین کے مسلمات پر ایسی سوچ اور ایسا اقدام کسی طورپر بھی درست نہیں ۔

سوشل میڈیا کی دنیا میں اب انسان بہت بے باک ہوچکا ہے ۔جب چاہو کسی کی عزت اتار دیں جب چاہیں کسی کی دینی حدود کا مزاح اُڑا دیں ۔یعنی کوئی limitنہیں ۔بے لگام دوڑ دوڑتا انسان نہ جانے کتنی حدیں پارکرجاتاہے ۔چنانچہ اسی بات کو محسوس کرتے ہوئے ہم نے فیصلہ کیا کہ آپ پیاروں تک اس طرح کی بات معلومات  پیش کرسکوں ۔کم از کم آپ اور میں تو اس قبیح کام سے محفوظ رہ سکیں ۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

يَحْذَرُ الْمُنَافِقُونَ أَن تُنَزَّلَ عَلَيْهِمْ سُورَةٌ تُنَبِّئُهُم بِمَا فِي قُلُوبِهِمْ ۚ قُلِ اسْتَهْزِئُوا إِنَّ اللَّـهَ مُخْرِجٌ مَّا تَحْذَرُونَ ﴿٦٤﴾ وَلَئِن سَأَلْتَهُمْ لَيَقُولُنَّ إِنَّمَا كُنَّا نَخُوضُ وَنَلْعَبُ ۚ قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿٦٥﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ إِن نَّعْفُ عَن طَائِفَةٍ مِّنكُمْ نُعَذِّبْ طَائِفَةً بِأَنَّهُمْ كَانُوا مُجْرِمِينَ

(التوبة – 64/66)

ترجمہ :

منافق ڈرتے ہیں کہ ان پر کوئی سورۃ ایسی اترے جو انکے دلوں کی چھپی  جتادے تم فرماؤ ہنسے جاؤ اللہ کو ضرور ظاہر کرنا ہے جس کا تمہیں ڈر ہے.اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو.بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر  اگر ہم تم میں سے کسی کو معاف کریں تو اوروں کو عذاب دیں گے اس لیے کہ وہ مجرم تھے۔

 استہزا وتمسخر کا  مطلب کیا ہے :

’اظھار كل عقيدة،أو فعل،أوقول قصدا،يدلّ على الطعن في الدين،والاستخفاف به،والاستھانة بالله تبارك وتعالى ورسله عليھم الصلاة والسلام

’’ کوئی بھی ایسا عقیدہ اپنانا ، یا ایسےقول وفعل کا اظہار کرنا جس میں دین پر طعنہ زنی ہو ،اس کا استخفاف ہو ، اور اللہ تبارک وتعالیٰ یا اس کے رسولوں علیہم الصلاۃ والتسلیم کی تحقیر کی گئی ہو استہزاء کہلاتاہے۔

قارئین :

موجودہ دور میں استہزا ء ومذاق کی صورتوں میں یہ صورت بھی بہت عام دیکھی گئی ہے کہ لوگ بے دریغ جنت وجہنم اور فرشتوں کے حوالے سے لطیفےبناتے ، سناتے اور لوگوں میں انہیں شیئر کرتے ہیں یہ بھی دین سے استہزاء ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَیْلٌ لِّكُلِّ اَفَّاكٍ اَثِیْمٍۙ(۷) یَّسْمَعُ اٰیٰتِ اللّٰهِ تُتْلٰى عَلَیْهِ ثُمَّ یُصِرُّ مُسْتَكْبِرًا كَاَنْ لَّمْ یَسْمَعْهَاۚ-فَبَشِّرْهُ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ(۸) وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌؕ(۹)

خرابی ہے ہر بڑے بہتان ہائے گنہگار کے لیے ۔اللہ کی آیتوں کو سنتا ہے کہ اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر ہَٹ پر جمتا ہے  غرور کرتا  گویا انہیں سُنا ہی نہیں تو اسے خوش خبری سناؤ دردناک عذاب کی اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی پر اطلاع پائے اس کی ہنسی بناتا ہے اُن کے لیے خواری کا عذاب۔

 

ایک مسلمان کی بحیثیت مسلمان ایک بہت بڑی واجبی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اگر کسی شخص کو دین پر طعنہ زنی کرتےاور ٹھٹھ ومذاق بناتے پائے تو اس شخص کی مذمت کی جائے اور اگر یہ چیز اس کی طاقت وسعت سے باہر ہے یا مسلسل تنبیہ اور اصلاح کے باوجود مذاق کرنے والا اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے تو اس شخص کو چاہئے کہ وہ جگہ چھوڑ دے جس جگہ وہ مذاق کرنے والا موجود ہو۔فرمانِ باری تعالیٰ ہے :

وَقَدْ نَزَّلَ عَلَيْكُمْ فِي الْكِتَابِ أَنْ إِذَا سَمِعْتُمْ آيَاتِ اللَّـهِ يُكْفَرُ بِهَا وَيُسْتَهْزَأُ بِهَا فَلَا تَقْعُدُوا مَعَهُمْ حَتَّىٰ يَخُوضُوا فِي حَدِيثٍ غَيْرِهِ ۚ إِنَّكُمْ إِذًا مِّثْلُهُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ جَامِعُ الْمُنَافِقِينَ وَالْكَافِرِينَ فِي جَهَنَّمَ جَمِيعًا

انساء – 140

 ترجمہ :اور بے شک اللہ تم پر کتاب میں اتار چکا کہ جب تم اللہ کی آیتوں کو سنو کہ ان کا انکا رکیا جاتا اور ان کی ہنسی بنائی جاتی ہے تو ان لوگوںکے ساتھ نہ بیٹھو جب تک وہ اور بات میں مشغول نہ ہوںورنہ تم بھی انہیں جیسے ہو  بے شک اللہ کافروںاورمنافقوں سب کو جہنم میں اکٹھا کرے گا۔

قارئین:

دین سے مذاق ایک بہت ہی بڑا جرم اوراللہ تعالیٰ کی حدود کی پامالی ہے ۔اور یہ عمل اللہ ، اس کے رسول اور اہل ایمان کو ایذا دینے کے مترادف ہے ۔ جس کی سزا بہت سخت متعین ہے ۔فرمان باری تعالیٰ ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُؤْذُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأَعَدَّ لَهُمْ عَذَابًا مُّهِينًا

بےشک جو ایذا دیتے ہیں اللہ اور اس کے رسول کو ان پر اللہ کی لعنت ہے دنیا اور آخرت میں اور اللہ نے اُن کے لیے ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے .

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(۶۵)

اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے ۔تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو۔

 

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ الْكُفَّارَ اَوْلِیَآءَۚ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۵۷)

ترجمۂ کنزالایمان: اے ایمان والو جنہوں نے تمہارے دین کو ہنسی کھیل بنالیا ہے وہ جو تم سے پہلے کتاب دیے گئے اور کافر ان میں کسی کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اللہ سے ڈرتے رہو اگر ایمان رکھتے ہو۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی ان میں سے وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اورکھیل بنالیا ہے انہیں اور کافر وں کو اپنا دوست نہ بناؤ اور اگر ایمان رکھتے ہوتواللہ سے ڈرتے رہو۔

 

 

اَلَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَكُمْ هُزُوًا وَّ لَعِبًا:وہ لوگ جنہوں نے تمہارے دین کو مذاق اورکھیل بنالیا ہے۔} اس آیت کا شانِ نزول یہ ہے کہ رفاعہ بن زید اور سُوَید بن حار ث نامی دو آدمی اظہار ِاسلام کے بعد منافق ہوگئے ۔بعض مسلمان اُن سے محبت رکھتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی اور بتایا کہ زبان سے اسلام کا اظہار کرنا اور دل میں کفر چھپائے رکھنا دین کو ہنسی اور کھیل بنانا ہے اور ایسے لوگوں اور ان کے علاوہ مشرکوں کافروں کو دوست بنانے سے بھی منع کردیا گیا کیونکہ خدا عَزَّوَجَلَّکے دشمنوں سے دوستی کرنا ایمان دار کا کام نہیں۔اس پر مزید تفصیل اگلی آیت کے تحت موجود ہے۔

وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ اتَّخَذُوْهَا هُزُوًا وَّ لَعِبًاؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْقِلُوْنَ(۵۸)

ترجمۂ کنزالایمان: اور جب تم نماز کے لئے اذان دو تو اسے ہنسی کھیل بناتے ہیں یہ اس لئے کہ وہ نرے بے عقل لوگ ہیں۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو تویہ اس کو ہنسی مذاق اورکھیل بنالیتے ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ وہ بالکل بے عقل لوگ ہیں۔

{وَ اِذَا نَادَیْتُمْ اِلَى الصَّلٰوةِ: اور جب تم نماز کے لئے اذان دیتے ہو۔} اس آیت کے بارے میں کلبی کا قول ہے کہ جب سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مُؤذن نماز کے لئے اذان کہتا اور مسلمان اٹھتے تو یہود ی ہنستے اور تمسخر کرتے، اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ مفسر سدی نے بیان کیا کہ مدینہ طیبہ میں جب مؤذن اذان میں اَشْہَدُاَنْ لآَّاِلٰہَ اِلَّا اللہُ ‘‘ اور’’اَشْہَدُاَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُولُ اللہ ‘‘ کہتا تو ایک نصرانی یہ کہا کرتا کہ ’’جل جائے جھوٹا ‘‘ایک رات اس کا خادم آگ لایا وہ اور اس کے گھر کے لوگ سورہے تھے آگ سے ایک شرارہ اُڑا اور وہ نصرانی اور اس کے گھر کے لوگ اور تمام گھر جل گیا۔(خازن، المائدۃ، تحت الآیۃ: ۵۸، ۱ / ۵۰۷)

دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والوں کا رد:

             اس آیت میں دینی چیزوں کا مذاق اڑانے والوں کا کتنا شدید رد ہے ۔ افسوس کہ جو کام یہودی اور منافق کیا کرتے تھے وہی کام مسلمان کہلانے والوں میں آتے جارہے ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، فرشتے، جنت، حوریں ، دوزخ، اس کے عذاب، قرآنی آیات، احادیث ِ نَبوی، دینی کتابوں ، دینی شَعائر، عمامہ، داڑھی، مسجد، مدرسے، دیندار آدمی، دینی لباس، دینی جملے، مقدس کلمات الغرض وہ کونسی مذہبی چیز ہے کہ جس کا اِس زمانے میں کھلے عام فلموں ، ڈراموں ، خصوصاً مزاحیہ ڈراموں ، عام بول چال، دوستوں کی مجلسوں ، دنیاوی تقریروں ، ہنسی مذاق کی نشستوں اور باہمی گپ شپ میں مذاق نہیں اُڑایا جاتا۔ افسوس کہ مسلمان کہلانے والے اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں۔ مسلمان کہلانے والوں کو داڑھی، عمامہ، مذہبی حُلیے سے نفرت ہے۔ مسلمان کہلانے والے کو اذان سن کر تکلیف ہوتی ہے۔ قرآن وحدیث کی باتیں اسے پرانی باتیں لگتی ہیں۔ یاد رکھیں کہ دینی شَعائِر کا مذاق اڑانا کفر ہے اوردین کا مذاق اڑانے والوں کے متعلق اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:

وَ اِذَا عَلِمَ مِنْ اٰیٰتِنَا شَیْــٴَـاﰳ اتَّخَذَهَا هُزُوًاؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِیْنٌ (الجاثیہ :۹)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور جب ہماری آیتوں میں سے کسی پر اطلاع پائے تواسے مذاق بناتا ہے ان کے لئے ذلت کا عذاب ہے۔

            اور فرماتا ہے:

وَ لَىٕنْ سَاَلْتَهُمْ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّمَا كُنَّا نَخُوْضُ وَ نَلْعَبُؕ-قُلْ اَبِاللّٰهِ وَ اٰیٰتِهٖ وَ رَسُوْلِهٖ كُنْتُمْ تَسْتَهْزِءُوْنَ(۶۵)لَا تَعْتَذِرُوْا قَدْ كَفَرْتُمْ بَعْدَ اِیْمَانِكُمْ(التوبہ:۶۵، ۶۶)

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے محبوب اگر تم ان سے پوچھو تو کہیں گے کہ ہم تو یونہی ہنسی کھیل میں تھے تم فرماؤ کیا اللہ اور اس کی آیتوں اور اس کے رسول سے ہنستے ہو ۔بہانے نہ بناؤ تم کافر ہوچکے مسلمان ہوکر اور فرماتا ہے:

وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا وَّ غَرَّتْهُمُ الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا( انعام:۷۰)

ترجمۂ کنزُالعِرفان:  اور چھوڑ دے ان کو جنہوں نے اپنا دین ہنسی کھیل بنالیا اور انہیں دنیا کی زندگی نے فریب دیا۔

                اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ان آیات کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی حالت پر غور کرنے اور اپنی اس روش کو تبدیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین۔

  

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا