نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

داستان عثمان غنی رضی اللہ عنہ



تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

      داستان عثمان غنی رضی اللہ عنہ  

گرمیری دس بیٹیاں بھی ہوتیں تو میں ایک کے بعد دوسری سے تمہارا نکاح کردیتا کیونکہ میں تم سے راضی ہوں۔ (معجم اوسط،ج4،ص322،حدیث:6116) نبیِّ رحمت صلَّی اللہُ تعالٰی علیہِ واٰلہٖ وسَلَّم کے یہ اعزازی اور رضامندی کے کَلِمات مسلمانوں کے اس عظیم خیر خواہ،  ہمدرد اورغم گُسار ہستی کےلئے ہیں جسے خلیفۂ ثالث(یعنی تیسرے خلیفہ)امیرالمؤمنین حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضیَ اللہُ تعالٰی عنہ کے نام سے جانا جاتا  ہے۔سبحان اللہ ۔کتنی عظیم ہستی ہیں ۔آئیے ذرا ان کی سیرت ایک نظر میں 

جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔

دولت کی تلاش کلک کریں

بنیادی تعارف:  آپ رضی اللہ عنہ کا نام عثمان  ، کنیت ابو عَمرو جبکہ ذوالنورَین اور جا مع القرآن کے القابات سے مشہور ہیں  ۔

مقام ولادت :آپ رضی اللہ عنہ عامُ الفِیل کے چھ سال بعد مکۂ مکرمہ میں پیدا ہوئے۔ (الاصابہ،ج 4،ص377) 

} قبولِ اسلام : آپ رضی اللہ عنہ نے آغازِ اسلام ہی میں قبولِ اسلام کر لیا تھا ۔

}اخلاق و صفات :  آپ رضی اللہ عنہ ادَب، سَخاوت، خیر خواہی، حیا، سادَگی، رَحْم دلی، ،فکر ِآخِرت ،اِتِّباعِ سنّت اور خوفِ خدا میں اپنی مثال آپ تھے ۔

}ہجرت :آپ رضی اللہ عنہ کو صاحب الھجرتین کہا جا تا ہے کیونکہ آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینۂ منورہ کی طرف ہجرت فر ما ئی۔ 

}خلافت:آپ رضی اللہ عنہ مسلمانوںکے تیسرے خلیفہ ہیں ۔ 

}شہادت: حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ 18ذوالحجۃ الحرام 35 ہجری میں شہید کئے گئے ۔

}مزار مبارک:آپ رضی اللہ عنہ جنت البقیع میں آرام فرما ہیں۔

ہمارے پیارے عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی کیابات ہے ۔

خیر خواہی:  ایسی کہ ہر جُمُعہ (Friday)کو غلام آزاد کیا کرتے، اگر کسی جمعہ ناغہ ہوجاتا تو اگلے جمعہ دو غلام آزاد  کرتے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر، ج39،ص28) با حیا:ایسے کہ  بند کمرے میں غُسْل کرتے ہوئےنہ  اپنے کپڑے اتارتے  اور نہ اپنی کمر سیدھی کر پاتے۔ (حلیۃ الاولیاء، ج1،ص94) لباس میں سادَگی: ایسی کہ مال و دولت کی فَراوانی  کے باوجود جمعہ کے دن مِنبر پر خُطبہ دیتے ہوئے بھی چار(4) یا پانچ (5) درہم کا معمولی تہبندجسم کی زِینت ہوتا۔ (معرفۃ الصحابہ،ج1،ص79) کھانے میں سادگی: ایسی کہ لوگوں کو امیر وں والا کھانا کھلاتے اور خود گھر جا کر سِرکہ

 اورزیتون(Olive) پر گُزارہ کرتے۔ (الزہدلامام احمد، ص 155،رقم: 684) عاجِزی: ایسی کہ خلافت جیسے عظیم منصب پر  فائز ہونے کے باوجودخچّر پر سُوار ہوتے تو پیچھے غلام کو بٹھانے میں کوئی عار (شرم) مَحسوس نہ کرتے۔(الزہد لامام احمد ،153،رقم: 672 ماخوذاً) رَحْم دلی: ایسی کہ خادِم یا غلام کے آرام کا خیال فرماتے اور  رات کے وقت  کوئی کام پڑتا تو خادموں کوجگانا مناسب خیال نہ کرتے اور اپنا کام اپنے ہاتھ سے کرلیتے تھے۔ (تاریخ ابن عساکر ،ج 39،ص236)

قارئین :امید ہے کہ  عظمت و شان والی اس عظیم ہستی کے بارے میں پڑھ کر آپ کو خوشی و مسرت ہوئی ہوگی ۔تو ان کی سیرت کو بھی اپنانے کی کوشش کیجئے ۔

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا