دولت کی تلاش
لمحے اداس اداس فضائیں گھٹی گھٹی
دنیا اگر یہی ہے تو دنیا سے بچ کے چل
کثرتِ
مال کی حرص اور اس پر اور اولاد پرفخر کا اظہار کرنا مذموم ہے اور اس میں مبتلا ہو کر آدمی اُخروی سعادتوں سے محروم رہ جاتا ہے۔ اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اِعْلَمُوْۤا اَنَّمَا الْحَیٰوةُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّ لَهْوٌ وَّ
زِیْنَةٌ وَّ تَفَاخُرٌۢ بَیْنَكُمْ وَ تَكَاثُرٌ فِی الْاَمْوَالِ وَ
الْاَوْلَادِؕ-كَمَثَلِ غَیْثٍ اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ ثُمَّ یَهِیْجُ
فَتَرٰىهُ مُصْفَرًّا ثُمَّ یَكُوْنُ حُطَامًاؕ-وَ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ
شَدِیْدٌۙ-وَّ مَغْفِرَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رِضْوَانٌؕ-وَ مَا الْحَیٰوةُ
الدُّنْیَاۤ اِلَّا مَتَاعُ الْغُرُوْرِ‘‘(حدید:۲۰)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: جان لو کہ دنیا کی زندگی توصرف کھیل کود اورزینت اور آپس میں فخرو غرور کرنا اور مال اور اولاد میں ایک دوسرے پر زیادتی چاہنا ہے ۔(دنیا کی زندگی ایسے ہے)جیسے وہ بارش جس کا
اُگایاہواسبزہ کسانوں کواچھا لگا پھر وہ
سبزہ سوکھ جاتا ہے تو تم اسے زرد دیکھتے ہو پھر وہ پامال کیا ہوا (بے کار)ہوجاتا ہے اور آخرت میں سخت عذاب ہے اور اللّٰہ کی طرف سے بخشش اور اس کی رضا(بھی
ہے) اوردنیاکی زندگی تو صرف دھوکے کاسامان ہے۔
یہ مضمون پڑھیں:
اور ارشاد فرمایا:
’’
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْهِكُمْ اَمْوَالُكُمْ
وَ لَاۤ اَوْلَادُكُمْ عَنْ ذِكْرِ اللّٰهِۚ-وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىٕكَ
هُمُ الْخٰسِرُوْنَ‘‘(منافقون:۹)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللّٰہ کے
ذکر سے غافل نہ کردے اور جو ایسا کرے گاتو وہی لوگ نقصان اٹھانے والے ہیں ۔
دنیا بس اس سے اور زیادہ نہیں ہے کچھ
کچھ روز ہیں گزارنے اور کچھ گزر گئے
اور
ارشاد فرمایا:
’’ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِكُمْ وَ
اَوْلَادِكُمْ عَدُوًّا لَّكُمْ فَاحْذَرُوْهُمْۚ-وَ اِنْ تَعْفُوْا وَ
تَصْفَحُوْا وَ تَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۴)اِنَّمَاۤ
اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ-وَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۱۵)فَاتَّقُوا اللّٰهَ
مَا اسْتَطَعْتُمْ وَ اسْمَعُوْا وَ اَطِیْعُوْا وَ اَنْفِقُوْا خَیْرًا
لِّاَنْفُسِكُمْؕ-وَ مَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِهٖ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْمُفْلِحُوْنَ‘‘(تغابن:۱۴-۱۶)
ترجمۂ کنزُالعِرفان: اے ایمان والو! بیشک تمہاری بیویوںاور تمہاری اولاد میں سے کچھ تمہارے دشمن ہیں تو ان سے احتیاط رکھو اور اگر تم معاف کرواور
درگزرکرو اور بخش دو تو بیشک اللّٰہ بڑا
بخشنے والا، بہت مہربان ہے ۔تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہی ہیں اور اللّٰہ کے
پاس بہت بڑا ثواب ہے۔تو اللّٰہ سے
ڈرو جہاں
تک تم
سے ہوسکے اور سنو اور حکم مانو اور راہِ خدا میں
خرچ کرو یہ تمہاری جانوں کے لیے
بہتر ہوگا اور جسے اس کے نفس کے لالچی پن سے بچالیا گیا تو وہی لوگ فلاح پانے والے
ہیں ۔
اورحضرت مُطْرَف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں
کہ میں رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت میں حاضر ہوا،اس وقت
آپ’’اَلْهٰىكُمُ
التَّكَاثُرُ‘‘ کی تلاوت فرما رہے تھے،آپ
صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے فرمایا: ’’ابنِ آدم کہتا ہے کہ میرا مال،میرا مال،اے
ابنِ آدم:تیرا مال وہی ہے جو تو نے کھا کر فنا کر دیا، یا پہن کر بوسیدہ کر دیا، یا
صدقہ کر کے آگے بھیج دیا۔ (مسلم، کتاب الزّہد و الرّقائق، ص۱۵۸۲، الحدیث: ۳-(۲۹۵۸))
حضرت عمرو بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے رسول اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ خدا کی قسم !مجھے تمہارے غریب ہو جانے کا ڈر نہیں ہے،مجھے تو اس بات کا ڈر ہے کہ دنیا تم پر کشادہ نہ ہو جائے جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر ہوئی تھی،پھر تم اس میں رغبت کر جاؤ جیسے وہ لوگ رغبت کر گئے اور یہ تمہیں ہلاک کر دے جیسے انہیں ہلاک کر دیا۔( بخاری، کتاب الجزیۃ و الموادعۃ، باب الجزیۃ و الموادعۃ مع اہل الذّمۃ و الحرب، ۲ / ۳۶۳، الحدیث: ۳۱۵۸)
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالَم صَلَّی
اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’مال و اَسباب کی کثرت سے مالداری نہیں ہوتی بلکہ (اصل)
مالداری تو دل کا غنی ہونا ہے،خدا کی قسم!مجھے تمہارے بارے میں محتاجی کا خوف نہیں ہے لیکن مجھے تمہارے بارے میں اس بات کا خوف ہے کہ تم کثرت ِمال کی ہوس میں مبتلا ہو جاؤ گے۔( مسند
امام احمد، مسند ابی ہریرۃ رضی اللّٰہ عنہ، ۳ / ۶۴۵، الحدیث: ۱۰۹۵۸)
حضرت کعب بن مالک رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاسے مروی ہے، حضورِ اَقدس صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ دو بھوکے بھیڑیئے جو بکریوں
میں چھوڑ دیئے جائیں وہ ان بکریوں
کو اس سے زیادہ خراب نہیں کرتے
جتنا مال اور عزت کی حرص انسان کے دین کو خراب کر دیتی ہے۔( ترمذی،
کتاب الزّہد، ۴۳-باب، ۴ / ۱۶۶، الحدیث: ۲۳۸۳)
قارئین:
ہم نے قرآن و حدیث کی روشنی میں ایک حقیقت آپ کے سامنے رکھ دی اب آپ کا فیصلہ ہے کہ آپ نے کیا کرنا ہے ۔ہم تو دعاگو ہیں اے پیارے اللہ ہمیں حق گو،حق پر عمل اور فلاح پانے والوں میں شمارفرما۔آمین
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں