نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سچی توبہ کرنے والا نوجوان:

 

سچی توبہ کرنے والا نوجوان:

 ایک نوجوان کسی بزرگ کے بیان میں شرکت کیا کرتا تھا۔ جب وہ بزرگ ”یَا سَتّار“ کہتے تو نوجوان پَر سُرور کی عجیب کیفیت طاری ہوجاتی اور وہ کمزور شاخ کی طرح ہلنے لگتا، لوگوں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ میں عورَتوں کا لباس پہن کر شادی وغیرہ کی محافل میں جایا کرتا تھا اور عورتوں میں گھل مل کر بیٹھتا تھا۔ ایک بار ایک شہزادی کی شادی کے موقع پر بھی میں نے ایسا ہی کیا، اس دن بادشاہ کی بیٹی کا ہار گم ہوگیا،تمام دروازے بند کردئیے گئے اور اعلان ہوا کہ باری باری سب عورتوں کی تلاشی لی جائے گی۔ تلاشی شروع ہوئی یہاں تک کہ ایک عورت اور میں باقی رہ گئے، اس وقت میں نے سچے دل سے مولائے کریم کی بارگاہ میں توبہ کی اور نیت کی کہ اگر آج رُسوائی سے بچ گیا تو پھر کبھی ایسی حرکت نہیں کروں گا۔ جب اس عورت کی تلاشی لی گئی تو ہار برآمد ہوگیا اور میں تلاشی سے بچ گیا۔ اس دن کے بعد جب بھی میں اللہ کا اسمِ پاک ”ستّار(یعنی پردہ پوشی کرنے والا)“سنتا ہوں تومجھے اپنا جرم اور اس پاک رب کی ستّاری یاد آجاتی ہے اورمجھ پر وہ کیفیت طاری ہوجاتی ہے جو تم دیکھتے ہو۔(روض الریاحین ،ص303)



عقل والو!!ذراسوچو !!ابھی وقت ہے ۔

بڑھاپے سے پہلے جوانی کو غنیمت جانئے اور سچّی توبہ کے بعد اپنے رب  کی عبادت میں مصروف ہوجائیے، فَرْض نَمازیں پڑھئے، رَمَضان کے روزے رکھئے، فرض ہوجائے تو زکوٰۃ دیجئے، حج کیجئے، کھانے پینے، سونے جاگنے وغیرہ کی سنّتوں پر عمل کیجئے، مختلف نیک کام کرکے ثواب کمائیے، گناہوں سے رُک جائیے، آپ کی جوانی میں حقیقی رونق آجائے گی، آخرت میں عرش کا سایہ نصیب ہوگا، اپنے خالق و مالک  کی مَحبت نصیب ہوگی،



 فرمانِ مصطَفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اللہ  اس نوجوان سے مَحبت فرماتا ہے جو اپنی جوانی کو اللہ   کی فرمانبرداری میں گزاردے۔(حلیۃ الاولیاء،ج5ص394،رقم: 7496) جوانی میں انسان کے اَعضا مضبوط اور طاقتور ہوتے ہیں



جس کی وجہ سے زیادہ عبادت کرنا ممکن ہوتاہےجبکہ بُڑھاپے میں کمزوری کی وجہ سے مسجد تک جانا بھی دشوار ہوجاتا ہے۔  بھوک پیاس کی شدّت کوبرداشْت کرنے کی ہِمّت بھی نہیں رہتی، نفْل تو کُجا فرْض روزہ بھی پورا کرنا بھاری پڑجاتا ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا یوسف بن اَسباط شیبانیرحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرمایا کرتے تھے:اے نوجوانو!بیماری سے پہلے صحت میں جلدی کرو، میں صرف اس شخص پر رَشک کرتا ہوں جو رُکوع وسُجود کو پورا کرتا ہے جبکہ میرے اور سجدے کے درمیان رکاوٹ پیدا ہوگئی ہے۔ (احیاء العلوم،ج1ص204)

 

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا