نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

سکون کا راز


سکون کا راز

دودوست جہاز کے سفر پر روانہ ہوئے تو ان کے درمیان والی سیٹ پر موٹے اور بھدے جسم کا ایک مسافر بیٹھ گیا جس کے منہ سے ناگوار بُو بھی آرہی تھی۔ ایک دوست کھڑکی کی طرف سمٹ گیا اور سارے راستے شدید ٹینشن میں رہا، جب کہ اس کے برعکس دوسرے دوست نے اپنی پسندیدہ کتاب کھولی اور اسے پڑھنے میں مصروف ہوگیا، یہ کسی طرح بھی پریشان دکھائی نہیں دیتا تھاحالانکہ وہ موٹے مسافر کی وجہ سے آدھی سیٹ پر بیٹھا ہوا تھا ۔ 40 منٹ بعد جب سفر ختم ہوا تو ٹینشن میں رہنے والے دوست نے دوسرے سے پوچھا کہ تم بڑے مزے سے کتاب پڑھ رہے تھے جیسے کسی لائبریری میں بیٹھے ہوئے ہو!کیا تمہیں اس مسافر کی وجہ سے پریشانی نہیں ہوئی !وہ کہنے لگا:شروع میں ہوئی تھی مگر میری عادت ہے کہ جب کوئی ٹینشن ہوتی ہے تو میں حساب لگا لیتا ہوں کہ اس کا دورانیہ(Duration) کتنا ہوسکتا ہے ؟یہی کام میں نے یہاں بھی کیا، جب میں نے دیکھا کہ یہ پریشانی صرف 40 منٹ کی ہے اس کے بعد وہ مسافر اپنی راہ لے گا اور ہم اپنی ! تو میں نے یہ چالیس منٹ گزارنے کے لئے خود کو کتاب پڑھنے میں مصروف کرلیا اور یوں ٹینشن سے قدرے بچا رہا۔



 اگر ہم بھی اس انداز کو اپنا لیں تو ٹینشن سے کافی حد تک نجات(Salvation) پاسکتے ہیں۔ خیال رہے  پریشانیوں کی نوعیت کے مطابق ان کا دورانیہ مختلف ہوسکتا ہے۔ ’’بائیک کی چابی نہیں مل رہی‘‘،’’بائیک پنکچر ہوگئی ہے‘‘، ’’بائیک چوری ہوگئی ہے‘‘ ان تینوں پریشانیوں کی نوعیت مختلف ہے لہٰذا ان کی ایکسپائری ڈیٹ بھی مختلف ہوگی۔ اگر ہم اپنا یہ ذہن بنالیں کہ یہ مشکل 

وقت بھی گزر جائے گا تو پریشانیوں کا سامنا کرنے میں زیادہ تکلیف نہیں ہوگی۔


اس کے برعکس اگر ہم پریشانی کو اپنے ذہن پر سوار کئے رکھیں گے تو سوائے ٹینشن بڑھنے کے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ایک استاذ صاحب نے کلاس کے سامنے پانی کا گلاس اٹھایا اور پوچھا کہ اگر میں اسے دو منٹ اٹھائے رکھوں تو کیا ہوگا؟ طلبہ نے کہا: کچھ خاص نہیں ہوگا۔ ’’اگر دوگھنٹے اٹھائے رکھوں تو؟‘‘استاذ نے پوچھا تو طلبہ کہنے لگے:آپ کے بازو میں درد ہونے لگے گا۔



استاذ صاحب نے پوچھا:اور یہی گلاس میں دودن تک اٹھائے رکھوں تو؟ طلبہ فوراً بولے آپ کا بازو اکڑ جائے گا۔ اب استاذ صاحب نے پوچھا: اب مجھے یہ بتاؤ، اس دوران گلاس کا پانی کم یا زیادہ ہوگا؟ طلبہ کا جواب تھا’’نہیں‘‘۔ استاذ صاحب نے سمجھایا کہ مشکلات بھی اس گلاس کی مانند ہوتی ہیں اگر ہم ان کو اپنے ذہن پر سوار کئے رکھیں گے تو ہماری ٹینشن بڑھتی ہی چلی جائے گی اور ہمارے بدن کو بھی نقصان ہوگا حالانکہ اس سے مشکلات میں کمی نہیں آتی!اور اگر ہم انہیں 

اپنے ذہن سے جھٹک دیں تو کم از کم مزید پریشانی سے تو بچے رہیں گے۔ 

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش 

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر




تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا