نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

نمک قدرت کا عطیہ


 

نمک قدرت کا عطیہ

تمہید:

للہ رب العزت نے انسان کو اس قدر نعمتیں عطا فرمائی ہیں کہ ساری کائنات مل کر اس کو شمار کرنا چاہے تو شمار نہیں کر سکتی۔یہ بات اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں خود فرمائی ہے:

Īوَإِنْ تَعُدُّوا نِعْمَتَ اللَّهِ لَا تُحْصُوهَاĨ

ابراہیم:34

شاعر نے کیا خوب کہا




بحمد اللہ کہ صبر و شکر سے گزران کرتا ہوں

خدا کا ہر گھڑی تسلیم میں احسان کرتا ہوں

کہ اس نے زندگی دی اور پھر انساںبنایا ہے

مجھے اس بزمِ ہستی کا حسیں مہماں بنایا ہے


لفظ نمک کے متعلق دلچسپ معلومات

·         ا۔ چمکدار پتھر کی صورت میں کانوں سے نکالا جانے والا یا سمندر اور کھاری جھیلوں کے پانی سے حاصل کیا جانے والا نیز کیمیاوی طریقے سے ترکیب پایا سوڈیم اور کلورائیڈ کا مرکب جو سالنوں اور کھانوں میں ذائقے کے لیے ڈالا جاتا ہے ، نون ، لون ، کھار ، ملح ، رام رس

·         کھاری پن ، شوریت ، کھار

·         ملاحت ، سانولاپن ، پھبن

·         (مجازاً) آب و تاب ، دلکشی ، کشش

·         نمکین چیز کا ذائقہ ، چٹ پٹا پن

·         (مجازاً) تنخواہ ، روزینہ ، روزی ؛ روٹی ؛ ملازمت

·         کھانا ، روٹی ، کھایا پیا

·         (کلام کا) لطف نیز شوخی ؛ شوخیء کلام

·         گرمی ، تمتماہٹ

·         تھوڑی سی مقدار ؛ کسی بات کے معمولی یا قلیل ہونے کے لیے اشارۃ ً مستعمل (جیسے کھانے میں نمک)

کتب  اسلامی میں نمک ازرائے تمثیل



وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ) (3) کی تفسیر میں لکھتے ہیں:اپنے رب ہی سے مانگ(4)دوسرے سے سوال نہ کراور  (اِنَّ لَنَا لَلاٰخِرَۃَ وَالْاُوْلٰی) (5) کے تحت میں تحریر کرتے ہیں: فمن طلبہ من غیرنا فقد أخطأ۔ ''تو جو اسے ھمارے غیر سے طلب کرے وہ خطا پر ہو۔''(6)

    موسیٰ علیہ السلام کو حکم ہوتا ہے: ''جانور کے واسطے گھاس اور ہانڈی کے لیے نمک بھی مجھی سے مانگ

الدر المنثور''، ج۷، ص۳۰۲، پ۲۴، غافر: تحت الآیۃ: ۶۰.


 

    حضرت سیِّدُنا امام اوزاعی رحمۃاللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں، حضرت سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالیٰ عنہ سبزی سے سحری اور افطاری کرتے۔ اکثر اوقات روٹی کو نمک سے ملا کر تناول فرماتے تھے۔

(  (حلیۃ الاولیاء،عمر بن عبد العزیز، الحدیث۷۲۷۷، ج۵، ص۳۲۷)

 


۔ایک صحابی نے حضورنبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم سے دریافت فرمایا:''يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کون سی چيز جس سے منع کرنا جائز نہيں؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''پانی۔'' اس نے پھر عرض کی،''يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کس چيزسے منع کرنا جائز نہيں؟'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''نمک۔'' اس نے پھر عرض کی،''يا رسول اللہ عزوجل و صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! کس چيزسے منع کرنا جائز نہيں؟''تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''تمہارا بھلائی کے کام کرنا تمہارے لئے بہتر ہے۔''

 (سنن ابی داؤد، کتاب الاجارۃ ، باب فی منع الماء ، الحدیث: ۳۴۷۶،ص۱۴۸۲)

 

پاکستان میں نمک کے ذخائر

ضلع جہلم میں واقع کھیوڑہ سالٹ مائن اسلام آباد سے تقریباً 165 کلومیٹر اور لاہور سے 245 کلومیٹر دُور ہے۔ کوہستان نمک کا یہ سلسلہ بیگن والا (جہلم) سے کالا باغ تک پھیلا ہوا ہے۔

کروڑوں سال پرانے کیمبرین عہد کے حجری آثار سنبھالے دُنیا کے دُوسرے بڑے نمک کے ذخیرے کی لمبائی 300 کلومیٹر اور چوڑائی 830 کلومیٹر تک ہے۔ یہ بائیس سو فٹ سے 4990 فٹ تک اُونچا نمک کا ایک عظیم ذخیرہ ہے جہاں ابھی تک 2 

کروڑ 13 لاکھ ٹن کے ذخائر موجود ہیں۔



کھیوڑہ نمک کی کانوں کا تاریخی پسِ منظر

ویسے تو پاکستان قدرت کی بے شمار نعمتوں سے مالامال ہے لیکن کھیوڑہ میں موجود نمک کی کان دنیا کی دوسری سب سے بڑی اور تاریخی مناظر پیش کرنے والی نمک کی کان ہے۔کھیوڑہ سالٹ مائن ضلع جہلم، صوبہ پنجاب کی تحصیل پنڈ دادنخان میں واقع ہے۔ یہ جگہ اسلام آباد سے 165 کلومیٹر جبکہ لاہور سے تقریباً 245 کلومیٹر فاصلے پر ہے۔ تاریخی پسِ منظر کے مطابق کھیوڑہ میں نمک کی دریافت 320 قبلِ مسیح میں اُس وقت ہوئی، جب دریائے جہلم کے کنارے سکندراعظم اور راجہ پورس کے مابین جنگ لڑی گئی۔



کہاجاتاہے کہ :سکندراعظم کے فوجیوں کے گھوڑے اس علاقے میں چرنے کے دوران پتھروں کو چاٹتے پائے گئے جس سے یہاں نمک کی موجودگی کا انکشاف ہوا۔ اُس وقت سے یہاں نمک نکالنے کا کام جاری ہے۔ یہ دنیا میں نمک کا اہم ترین ذخیرہ ہے۔ کوہستان نمک کا سلسلہ دریائے جہلم کے قریب بیگن والہ سے شروع ہوکر دریائے سندھ کالا باغ میں ختم ہوتا ہے۔ اس کی لمبائی 300 کلومیٹر، چوڑائی 830 کلومیٹر اور اونچائی 2200 سے 4990 فٹ ہے۔

کیا آپ جانتے ہیں کہ کھیوڑہ کو ارضیاتی عجائب گھر قرار دیا جا چکا ہے



کھیوڑہ نمک کی کانوں کو ارضیاتی عجائب گھر قرار دیا گیا ہے کیونکہ یہاں کروڑوں سال پرانے قبل کیمبری (پری کیمبرین) عہد سے موجودہ دور تک کے رکازات (فوسلز) موجود ہیں۔ 1849 میں انگریز انتظامیہ نے اس کان سے نمک نکالنے کا کام سائنسی بنیادوں پر شروع کیا۔

ایک معروف انگریز مائننگ انجینئر ڈاکٹر وارتھ نے 1872 ء میں نمک کے ذخائر تک براہ راست رسائی کے لیے بڑی کان کی کھدائی کروائی جو تاحال فعال ہے۔ اس وقت کھیوڑہ کی کانوں میں 17 منزلوں سے نمک نکالا جارہا ہے۔ سائنسی اصولوں کے مطابق کان سے 50 فیصد نمک نکال کر 50 فیصد بطور ستون چھوڑ دیا جاتا ہے، جو کان کی مضبوطی کو قائم رکھتا ہے۔

اس جگہ پر 20 لاکھ روپے کی لاگت سے میوزیم بنانے کا منصوبہ کافی عرصہ سے التواء کا شکار ہے۔ حکومت کی طرف سے گرانٹ ملنے میں تاخیر اس کا سبب بتایا جاتا ہے۔ 2 مارچ 2013ء کو اس کا باقاعدہ افتتاح کیا گیا تھا۔



کھیوڑہ کی پیدوار

کھیوڑہ نمک کی کانوں کی پیداواری صلاحیت

سن 1916ء میں یہاں کان سے باہر نمک نکالنے کے اوزاروں کو بنانے اور مرمت وغیرہ کے لیے ایک ورکشاپ (لوہار خانہ) قائم کی گئی تھی، جس کی قدیم خوبصورت عمارت عدم توجہ کے باعث خستہ حالی کا شکار ہو چکی ہے اور دیگر نوادر کھلے آسمان تلے ہونے کی وجہ سے ضائع ہو رہے ہیں۔



اس کی موجودہ پیداوار 3,70,000 ٹن سالانہ ہے یعنی یہاں پر تقریباً اگلے 60 سال کے لیے نمک موجود ہے۔ جس میں سے تقریباً 2 لاکھ ٹن سالانہ صرف آئی سی آئی کو دیا جاتا ہے۔ باقی ماندہ ملکی ضروریات پوری کرنے کے بعد بھارت سمیت دُوسرے ممالک کو بھیج دیا جاتا ہے۔

کھیوڑہ کان کا نمک دنیا میں خوردنی نمک کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ تخمینے کے مطابق یہاں نمک کے ذخائر 8 کروڑ ٹن سے لے کر 60 کروڑ ٹن تک ہوسکتے ہیں۔ کان کے چیف مائننگ آفیسر کے مطابق برطانوی دور سے اب تک کان میں کچھ تبدیل نہیں ہوا اور نہ ہی ہونے کے امکانات ہیں۔



ان کے خیال میں کان میں کسی قسم کی سرمایہ کاری ایک فضول حرکت ہوگی کیونکہ دنیا میں راک سالٹ یا معدنی نمک کی قیمتیں نہایت کم ہوچکی ہیں۔ اس کے برعکس برطانوی دور میں معدنی نمک اس قدر اہم تھا کہ برطانوی راج نے اس پر قبضہ کرنا ضروری سمجھا۔

 کھیوڑہ ایک سیاحت کا مرکز

کھیوڑہ کی کان میں بیس بستروں والا ایک ہسپتال کا منصوبہ زیرِ تعمیر ہے جہاں دمے کے مریض آ سکیں گے اور نمک زدہ ہوا میں سانس لے سکیں گے۔ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ یہ ہوا دمے کے مریض کے لیے انتہائی صحت بخش ہے۔



اس کے علاوہ ایک اور عمدہ بات یہ ہے کہ کان کے قریب نمک کی چٹانوں سے بنی ہوئی ایک خوبصورت مسجد بھی ہے جو کان کی سیر کو آنے والے لوگوں میں بہت مقبول ہے۔ کان کے مزدور تو شاذ و نادر ہی وہاں کام روک کر جا پاتے ہیں۔کھیوڑہ کی کان میں کیفے ٹیریا کے علاوہ بچوں کے جھولے وغیرہ بھی موجود ہیں۔ کھیوڑہ کو نمک کا شہر بھی کہا جاتا ہے جہاں تفریح پر آنے والا ہر انسان جگہ جگہ نمک کے ڈھیر دیکھ کر ان مناظر سے آنکھوں کو راحت بخش سکتا ہے۔

علاوہ ازیں کھیوڑہ کے علاقے میں سیاحوں کے لیے ایک چھوٹی ریل نما سواری کا بھی اہتمام کر رکھا ہے جو وہاں آنے والے سیاحوں کو نمک کی کانوں میں زیر زمین سرنگوں میں سیر کی سہولت فراہم کرتی ہے۔



اس کے علاوہ وہاں کھیوڑہ کے علاقے میں داخل ہوتے ہی آپ کو جگہ جگہ نمک کے پتھروں سے بنی تزئین و آرائش کی مختلف چیزیں خریداری کے لیے دستیاب ہوتی ہیں۔ ان اشیاء میں نمک سے بنے لیمپ دنیا بھر میں مشہور ہیں۔

 

کھانے  میں نمک 

کھانے کااوّل اور آخر نمک یا نمکین سے کرنا چاہئے کہ یہ سنت ہے اور اس میں بہت سی بیماریوں سے حفاظت ہے۔ امام بیہقی  رحمۃ اللہ علیہ  شعب الایمان میں ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی  رضی اللہ عنہ نے فرمایا:“ من ابتدأ غداءه بالملح ، أذهب عنه سبعين نوعا من البلاء “ ترجمہ : جو اپنے کھانے کی ابتداء نمک یا نمکین سے کرے اس سے ستر قسم کی بلائیں دور کر دی جاتی ہیں۔

(شعب الایمان ، 8 / 100)

 


نمک انسانی جسم کی اہم ضرورت

نمک ہماری خوراک میں سوڈیم کا سب سے بنیادی ذریعہ ہے۔ ہمارے جسم کو بہت سے کاموں کے لیے سوڈیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ خلیے ٹھیک سے کام کرتے ہیں، جسم میں موجود الیکٹرولائٹس متوازن رہتے ہیں اور بلڈ پریشر کنٹرول میں رہتا ہے یہ تمام کام سوڈیم کی وجہ سے ممکن ہو پاتے ہیں۔



سوڈیم   کیاہے اور اس کا استعمال

سوڈیم ہمارے جسم کا ایک لازمی حصہ ہے تو پھر نمک کا کیا کام ہے؟ دراصل یہ کیا چیز ہے؟

ٹیبل سالٹ یا عام نمک ہمارے جسم کی ضرورت کے 90 فیصد سوڈیم کو پورا کرتا ہے۔ سائنسی زبان میں اسے سوڈیم کلورائیڈ بھی کہا جاتا ہے۔عالمی ادارہ صحت، صحت مند لوگوں کو روزانہ پانچ گرام سے کم نمک کھانے کا مشورہ دیتا ہے۔ یہ تقریباً ایک چائے کے چمچ کے برابر ہے۔لیکن سرکاری اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں لوگ روزانہ 11 گرام تک نمک کھاتے ہیں جو کہ ڈبلیو ایچ او کے مشورے سے کہیں زیادہ ہے۔

 


زیادہ نمک  کھانے کے نقصانات

زیادہ نمک کھانے کے کیا نقصانات ہیں؟

کسی بھی عمر میں زیادہ نمک کھانے سے آپ کا بلڈ پریشر بڑھ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ آپ کی خوراک میں بہت زیادہ نمک ہونے کے دیگر خطرات بھی ہیں۔

امراضِ قلب، گیسٹرک کینسر اور دماغ میں خون کی روانی پر منفی اثر پڑ سکتا ہے یعنی دماغ کی کوئی رگ پھٹ سکتی ہے یا خون کے لوتھڑے یا بلڈ کلاٹس بن سکتے ہیں۔

لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ خوراک میں نمک کی مقدار کم کرنے سے بلڈ پریشر کی سطح بہتر ہوتی ہے اور ان تمام بیماریوں کا خطرہ بھی کم کیا جا سکتا ہے۔زیادہ نمک کھانے کے صحت پر مضر اثرات ہو سکتے ہیں

بازار میں نمک کی کئی اقسام دستیاب ہیں جن کا استعمال کھانے کو مزید ذائقہ دار بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔

نمک کی ان تمام اقسام میں سب سے صحت مند نمک وہ ہے جس میں سوڈیم کی مقدار کم سے کم ہو۔

دنیا کے الگ الگ حصوں میں نمک کی بہت سی اقسام ہیں جو نمک کی تیاری کے مختلف طریقوں، اس میں شامل اجزاء، رنگ اور ذائقہ پر منحصر ہے۔ریفائنڈ نمک یا عام نمک سب سے زیادہ استعمال ہونے والے نمک میں سے ایک ہے۔ اس میں 97 سے 99 فیصد سوڈیم کلورائیڈ ہوتا ہے۔

یہ اتنا ریفائنڈ ہوتا ہے کہ اس میں کسی قسم کا صحت مند جز نہیں ہوتا۔ غذائی اجزاء کے لحاظ سے اسے اچھا نہیں کہا جا سکتا۔مثال کے طور پر سمندری نمک لے لیں، یہ سمندر کے کھارے پانی کو بخارات بنا کر تیار کیا جاتا ہے یہ ریفائنڈ نہیں ہے اور اس میں زیادہ معدنیات ہوتے ہیں۔اس کے علاوہ اس میں آئیوڈین بھی بہت زیادہ ہوتی ہے جو کہ ہمارے جسم کے لیے اچھا ہے۔ سمندری نمک میں عام نمک سے 10فیصد کم سوڈیم ہوتا ہے۔اسی طرح ہمالیہ سے نکالے گئے گلابی نمک میں بھی سوڈیم کم ہوتا ہے اور اس میں میگنیشیم اور پوٹاشیم جیسے اجزاء ہوتے ہیں۔سیلٹک نمک یا سرمئی نمک میں بھی سوڈیم کم ہوتا ہے اور دیگر معدنیات اور نمکیات وافر مقدار میں ہوتے ہیں۔ یہ نمک اتنا قدرتی ہے کہ اس میں کوئی باہری چیز نہیں ملائی جاتی۔



قابل توجہ  

کم سوڈیم والا نمک

مارکیٹ میں ہلکے نمک یا کم سوڈیم نمک کے نام سے نمک بھی فروخت ہوتا ہے جس میں سوڈیم کی مقدار پچاس فیصد کم ہوتی ہے۔اس کے ساتھ پوٹاشیم سالٹ کے نام سے جو نمک دستیاب ہے اس میں سوڈیم نہیں ہے یا اگر موجود ہے تو یہ نہ ہونے کے برابر ہے۔اس قسم کا نمک ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جنہیں زیادہ نمک کھانے کی عادت ہے۔تاہم یہ نمک صرف ڈاکٹر کے مشورہ پر استعمال کرنا چاہیے.

یہ اس وقت کھایا جانا چاہیے جب آپکو کچھ مخصوص بیماریاں ہوں کیونکہ اسے کھانے سے آپ کی خوراک

میں پوٹاشیم کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔

 


نمک   کس قدر اہم

کیا کھانے کی میز سے نمک ہٹا لینا کافی ہے؟

زیادہ نمک کھانا صحت کے لیے اچھا نہیں ہے۔ ایسے میں اپنے لیے نمک کی قسم کا انتخاب کرنے سے زیادہ ضروری یہ ہے کہ اس کی مقدار کو کنٹرول کیا جائے۔

یہ بھی ذہن میں رکھنے کی بات ہے کہ ہماری خوراک میں نمک صرف پکے ہوئے کھانے سے نہیں پہنچتا۔ بہت سی ایسی مصنوعات ہیں جن میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ ایسے میں اگر یہ چیزیں ضرورت سے زیادہ کھائی جائیں تو یہ ہماری صحت کو نقصان پہنچا سکتی ہے، چاہے ہم نے روزمرہ کے کھانے میں نمک کی مقدار کم کر دی ہو۔

یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے مطابق ہماری خوراک میں سوڈیم کا 70 فیصد سے زیادہ حصہ پیک کھانوں اور تیار شدہ کھانوں سے آتا ہے۔

 


کہاں کہاں نمک  موجود ہے   

ان چیزوں کی ایک بڑی مقدار تیار شدہ چٹنی اور سویا بین کی چٹنی ہے، جن میں نمک کی مقدار زیادہ ہوتی ہے۔ اور پہلے سے پکایا ہوا سوپ، کھانوں، نمکین گوشت، ساسیجز، نمکین مچھلیوں اور پریزرو یعنی محفوظ کیے جانے والے کھانوں میں بھی نمک بہت زیادہ ہوتا ہے۔ ہمیں نمکین کھانے کی اشیاء جیسے چپس، تلی ہوئی گری دار میوے اور پاپ کارن کو بھی نہیں بھولنا چاہیے۔

ہمیں ایسی مصنوعات سے بھی پرہیز کرنا چاہیے جن میں ذائقہ بڑھانے کے لیے مونوسوڈیم گلوٹامیٹ کا استعمال کیا جاتا ہے۔

 


کچھ مشورے

پیک شدہ کھانوں کے بجائے قدرتی اور تازہ کھانے کھائیں

پیک شدہ کھانے کی اشیاء کے اجزاء کو احتیاط سے دیکھیں جن میں نمک اور مونوسوڈیم گلوٹامیٹ ہو انہیں نہ کھائیں۔

کھانے میں نمک کی بجائے مسالہ جات اور خوشبودار جڑی بوٹیاں شامل کریں جس سے کھانے کا ذائقہ بڑھے گا۔

کھانا پکانے کے طریقوں جیسے ابالنے سمیت دیگر طریقے اپنائیں جیسے بھاپ میں کھانا پکانا اور بیکِنگ کرنے سے کھانے کا ذائقہ برقرار رہتا ہے ہیں۔ اس صورت میں کھانے میں بہت زیادہ نمک شامل کرنے کی ضرورت نہیں ہے.لیکن ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ ہم سوڈیم کے بغیر نہیں رہ سکتے۔

اپنی غذا سے ٹیبل نمک یا زیادہ نمکین اشیا کو ختم کرنا ممکن ہے۔ کیونکہ روٹی اور پنیر جیسی بہت سی مصنوعات ہیں جن کو بناتے وقت نمک کا استعمال کیا جاتا ہے۔

تاہم طبی مشورہ کے بغیر خوراک میں بہت کم نمک یا سوڈیم لینا آپ کی صحت پر مضر اثرات کا باعث بن سکتا ہے۔مثال کے طور پر یہ نیند کے مسائل، سوڈیم کی کمی اور گردے کی پتھری بننے کا خطرہ پیدا کر سکتا ہے۔

اس کی وجہ سے آپ کی خوراک میں نمک کی مقدار کو کم کرنا چاہیے اور ایسی چیزیں کھانے سے گریز کرنا چاہیے جن میں نمک کی زیادتی ہو۔لیکن طبی مشورہ کے بغیر نمک کو اپنی خوراک سے نہیں نکالنا چاہیے۔


 


انسانی زندگی میں نمک کی ضرورت

نمک ایک معدنی غذا ہے جو حیواناتی حیات کے لیے نہایت ضروری ہے۔ یہ عام طور پر قلمی حالت میں پایا جاتا ہے۔ نمک دو کیمیائی عناصر سوڈیم اور کلورین کے کیمیائی تعامل سے حاصل ہوتا ہے اوراس کا کیمیائی فارمولا سوڈئیم کلورائیڈ ہے۔نمک کا ذائقہ بُنیادی ذائقوں میں سے ایک ہے اور یہ ایک مقبول گرم مسالا بھی ہے۔انسان کے زیرِ استعمال نمک کئی صورتوں میں بنتا ہے: ناخالص نمک (جیسے سمندری نمک)، خالص نمک (خوردنی نمک) اور آیوڈین مِلا نمک۔ یہ قلمی ٹھوس اور رنگ میں سفید یا خاکستری ہوتا ہے۔ یہ سمندری آب یا چٹانوں سے حاصل کیا جاتا ہے۔کلورائیڈ اور سوڈئیم آئنات جو نمک کے دو بڑے اَجزائے ترکیبی ہیں، تمام زندہ اجسام کی بقاء کے لیے نہایت اہم ہیں۔ نمک جسم میں پانی کی مقدار کی تضبیط (سیّالی توازن) میں اہم کردار اَدا کرتی ہے۔



۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پاکستان میں نمک کے ذخائر

کوہستان نمک کھیوڑہ نمک کی کانوں سلسلہ جوباغانوالہ (جہلم) سے کالا باغ تک پھیلا ہے اسے سالٹ رینج، کوہستان نمک یا نمکستان کہتے ہیں

اس خطے میں پائی جانے والی کھیوڑہ کی کانیں اپنے رقبے اور ذخائر کے لحاظ سے دنیا میں دوسرے نمبر پ رہیں۔ کھیوڑہ، واڑچھا اور کالا باغ کے مقامات میں نمک کی کانوں کے بڑے ذخائر ہیں۔ یہاں سے نکلنے والا عمدہ اورخالص نمک عرف عام میں ’’لاہوری نمک‘‘ کہلاتا ہے ۔

جن علاقوں میں نمک کے پہاڑ پائے جاتے ہیں ان میں سے ایک کوہستان نمک بھی ہے جو اسلام آباد سے تقریباً 165 کلومیٹر اور لاہور سے 245 کلومیٹر دُور ہے۔ یہ کوہ ہمالیہ کی جنوبی سمت راولپنڈی اور جہلم کے ایک بڑے حصے پر محیط ہے اور پوٹھوہارکا علاقہ کہلاتاہے۔ کوہستانِ نمک وادی ِسون اور دریائے جہلم کے درمیان دو پہاڑی سلسلوں پر مشتمل ہے۔ یہ سلسلہ کوہ مغربی اور مشرقی سمتوں میں تقسیم ہے۔ مشرقی علاقے میں تقریباً 80میل لمبی پٹی میں جگہ جگہ چٹانی نمک کی کانیں ہیں۔ پہاڑیوں کایہ سلسلہ تقریباً 160میل لمبا، اوسطاً دس میل چوڑا اور تین ہزار فٹ اونچاہے۔ سطح سمندر سے اس علاقے کی اوسط بلندی 2200فٹ کے لگ بھگ ہے۔ جنوب کی جانب کٹی پھٹی سطح مرتفع ہے۔ نمک کاسلسلہ قوس (کمان)کی شکل میں دریائے جہلم کے شمال میں باغانوالا سے شروع ہوتاہے اور نشیب میں جنوب مغرب کی طرف سے ہوتاہوا جب شمال مغرب کی طرف مڑتا ہے، تو میانوالی ضلع میں کالا باغ کے مقام پر دریائے سندھ میں ختم ہوتاہے۔ کوہستان نمک کی زمین بظاہر بھربھری اور ریتلی چٹانوں اور چونے کے پتھروں پر مشتمل ہے، جس میں بظاہر کوئی کشش معلوم نہیں ہوتی، مگر قدرت نے اس سرزمین کے سینے میں معدنی ذخائر کے بیش بہا خزانے چھپادیے ہیں، ان میں چونے کا پتھر،چقماق، سرخ پتھر، کوئلہ ،پیلا پتھر اور سب سے بڑھ کر نمک کی سوغات عام دستیاب ہے۔ ٹلہ جوگیاں اور سکیسر سلسلہ کوہ نمک کی نمایاں چوٹیاں جبکہ کھبکی،اوچھالی، کلرکہار،جھالر اورنمل اس کی نمایاں جھیلیں ہیں۔ ان میں سے تین کو بین الاقوامی اہمیت حاصل ہے اور انہیں Ramsarکنونشن کے تحت خصوصی درجہ دیاگیاہے۔ ان جھیلوں میں انواع واقسام کی جڑی بوٹیاں اور رنگ برنگے پرندوں کے مسکن پائے جاتے ہیں۔ برصغیر میں سالٹ رینج میں سب سے پہلے اور وسیع مقدار میں نمک دریافت ہوا، اس لیے اسے طبقات الارض کا عجائب گھر بھی کہاجاتاہے۔



کوہستانِ نمک ہی وہ علاقہ ہے جہاں’’مہابھارت‘‘ کے کرداروں کا تذکرہ ملتا ہے۔ اسی علاقے میں پانڈو شہزادوں نے جلاوطنی کاٹی۔ پانچال’’دروپدنگر‘‘ کے راجا کی بیٹی کرشنا دروپدی نے سوئمبر رچایا اور اپنے دُلہے کا انتخاب کیاتھا۔ اسی بنا پر اس علاقے کو ماہرین آثارِ قدیمہ اورمورخین کی خصوصی توجہ بھی حاصل رہی ہے۔ سالٹ رینج میں بہنے والے دریا کا نام سواںؔ ہے۔

 


قارئین:

زندگی، شعور، انسانیت، معاشرت، تہذیب، صحت، تعلیم، والدین، گھر، روٹی، کپڑا، مکان غرض زندگی کی ہرنعمت سے ہمیں اللہ تعالیٰ نے نوازا ہے۔آسمانوں اورزمین کو ہمارے لیے اللہ تعالیٰ نے تسخیر کردیا ہے۔کائناتوں کا علم ہمارے سامنے یوں پھیلادیاگویاہم ہی اس ساری کائنات کے اکیلے وارث ہیں۔

زمامِ لمحہء موجود بس میں رہتی ہے

یہ کائنات میری دسترس میں رہتی ہے

ہر نعمت اللہ کی نعمت جتنا رب کا شکر کریں گے اپنا دامن اور بھرینگے۔۔

نوٹ:آپ مزید دلچسپ معلومات کے لیے ہمارے یوٹیوب چینل Dr Zahoor Danish وزٹ کیجئے ۔۔نیز نمک سے بنی خوبصورت اور بہترین پروڈکٹ کے لیے بھی ہم سے رابطہ کرسکتے ہیں ۔ہمارے فیس بک پیچ @hos1011ضرور وزٹ کیجئے ۔۔۔





تحریر:ڈاکٹرزیڈ اے دانش

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا