نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

فوڈ ایڈیٹوز میں Dyes یعنی رنگ کا استعمال اور اس کی حقیقت

 



فوڈ ایڈیٹوز میں Dyes یعنی رنگ کا استعمال اور اس کی حقیقت



فوڈ ایڈیٹوز کے حوالے ہم مختلف تحریر کی صورت میں دلچسپ اور مفید معلومات آپ تک پہنچاتے رہے اب ہم غذا میں رنگ آمیزی کے حوالے آپ تک معلومات پہنچائیں گے ۔خالصتاعلمی دیانت کا پاس رکھتے ہوئے بہت عرق ریزی سے ہم کوشش کررہے ہیں ۔لہذا آپکی دعا تو ہمارا حق بنتی ہے ۔تو ابھی دعا کردیجئے گا۔



بڑھتے ہیں موضوع کی جانب۔۔

کھانے کے رنگ رنگ ہیں۔

فوڈ پروسیسنگ اکثر رنگ کے نقصان کا باعث بنتی ہے۔



کھانے کے رنگوں کو کھانے میں رنگ شامل کرنے یا بحال کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے تاکہ اس کی بصری کشش کو بہتر بنایا جا سکے اور صارفین کی توقعات کے مطابق ہوں۔


کھانے کے رنگوں کو قدرتی اور مصنوعی کھانے کے رنگوں میں درجہ بندی کیا
 جا سکتا ہے۔
• مصنوعی کھانے کے رنگوں کو عام طور پر استعمال کیا جاتا ہے
 کیونکہ وہ قدرتی کھانے کے رنگوں سے زیادہ یکساں، کم مہنگے اور چمکدار رنگ کے ہوتے ہیں۔
• بہت سے کھانے کے رنگ azo مرکبات یا triphenyl مرکبات ہیں.


• ایزو رنگوں میں سرخ، نارنجی اور پیلے رنگ ہوتے ہیں، جب کہ ٹریفینائل رنگوں
 میں نیلے اور سبز جیسے رنگ ہوتے ہیں۔


ٹارٹرازین، ایک پیلا ایزو ڈائی، اورنج ڈرنکس، کسٹرڈ پاؤڈر، مٹھائیوں اور خوبانی کے جام میں استعمال ہوتا ہے۔ ٹارٹرازین کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ بچوں میں انتہائی سرگرمی کا سبب بنتی ہے۔
• شاندار نیلا FCF، ایک نیلے رنگ کا ٹرائیفینائل ڈائی، مشروبات، جیلیوں، کنفیکشنز 
اور شربتوں میں پایا جاتا ہے۔ اسے ٹارٹرازین کے ساتھ ملا کر سبز رنگ کے 
مختلف شیڈز تیار کیے جا سکتے ہیں۔


جی قارئین:امید ہے کہ آپ رنگ کے استعمال کے حوالے سے آپ نے معلومات جان لی ہوگی ۔اب یہ معلومات علمی ورثہ کے طور پر دوسروں تک ضرور پہنچادیں ۔۔۔۔ہمارے لیے دعا مغفرت کردیجئے ۔۔۔۔۔۔۔۔




تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر



تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا