نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

Healthy body, healthy mind صحت مند جسم میں صحت مند دماغ



Healthy body, healthy mind

صحت مند جسم میں صحت مند دماغ

صحت مند جسم میں صحت مند دماغ ایک لاطینی محاورہ ہے زندگی میں اس جملے کا ذہن سیکھنے، یاد کرنے، سمجھنے اور سمجھنے کے ذہنی عمل کا ذمہ دار ہے اور جسم کے لیے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔

دماغ اور جسم کا رشتہ

جسم اور دماغ کے درمیان تعلق ایک مربوط اور باہمی تعلق ہے۔جسم اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جو دماغ کے ساتھ ہوتا ہے بیرونی اثرات کے لحاظ سے دماغ اس سے زیادہ متاثر ہوتا ہے جو جسم پر ہوتا ہے۔

قارئین:

تحقیق سے پتا چلا ہے کہ جو لوگ جسمانی بیماریوں کا شکار ہوتے ہیں ان میں ذہنی امراض کا امکان تین سے چار گنا زیادہ ہوتا ہے اور یہ بات سامنے آئی کہ شدید بیماریوں میں مبتلا 28 فیصد افراد میں دماغی عوارض کی علامات ظاہر ہوئیں، ان میں سے 41 فیصد کے علاوہ بے چینی اور ڈپریشن کا شکارہوتے ہیں




حفظان صحت کو برقرار رکھنے کا طریقہ

اس میں کوئی شک نہیں کہ جسم کی تندرستی دماغ کی تندرستی پر اثرانداز ہوتی ہے

 اور اسی کے مطابق انسان کو اپنے جسم کو تندرست اور تندرست رکھنے کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی تندرست اور تندرست رکھنے کی خواہش ہونی چاہیے ۔ 


مناسب غذا:

سب غذائیں جسم کو صحت مند اور صحیح حالت میں رکھنے میں مدد کرتا ہے، اور اس کے بعد ضروری طور پر صحیح سوچ اور ٹھوس ذہنی بیداری ہوتی ہے۔ مناسب غذائیت جسم کو مناسب اور متوازن طریقے سے ضروری وٹامن فراہم کرتی ہے۔ مثال کے طور پر، جسم کو وٹامن ڈی، وٹامن بی 12، اور آئرن کی ضرورت ہوتی ہے۔جو غذافراہم کرتی ہے ۔

فاسفورس اور زنک؛:

 یہ وٹامنز انسان کی توجہ اور دماغی سرگرمیوں کو بڑھانے میں مدد دیتے ہیں، اور اس کے ادراک اور سیکھنے میں مدد کرتے ہیں۔ اینٹی آکسیڈنٹس سے بھرپور اور دماغ کے لیے فائدہ مند غذائیں کھانے کی بھی سفارش کی جاتی ہے، جیسے: اسٹرابیری، کشمش، رسبری، پالک، چقندر، مولی، اور گوبھی وغیرہ شامل ہیں ۔


ضرورت سے زیادہ یا لاپرواہی کے بغیر متوازن غذا پر عمل کریں: 

ذہنی اور جسمانی سرگرمیوں میں کمی کے علاوہ نقصان دہ چکنائیوں سے پرہیز کرنا چاہیے، سیر شدہ تیل، سرخ گوشت اور اس کی جگہ سفید گوشت، اور کاربوہائیڈریٹس کو کم کردیں ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کا زیادہ حصہ چکنائی کی صورت میں جسم میں جمع ہو جاتا ہے اور نمک کی مقدار کو کم کرنا چاہیے۔ کیونکہ اس کے زیادہ استعمال سے بلڈ پریشر ہائی ہو جاتا ہے۔


پینے کا پانی اور سیال چیزیں: 

پانی انسانی جسم کا تقریباً 75%، خون کا 85%، انسانی دماغ کا 75%، اور عضلات کا 70% حصہ بناتا ہے۔ انسانی جسم کے ہر خلیے کو صحیح طریقے سے کام کرنے کے لیے پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ پانی تھکاوٹ کو دور کرنے، موڈ کو بہتر کرنے، سر درد اور درد شقیقہ کے علاج، ہاضمے میں مدد، قبض کو روکنے اور جسم سے زہریلے مادوں سے نجات دلانے کے علاوہ وزن میں کمی، اور دیکھ بھال میں مدد کرتا ہے۔ جسم کے درجہ حرارت کا توازن کو برقرار رکھتاہے۔


 ورزش کرنا:

 روزانہ ورزش کرنے سے انسانی خوشی میں اضافہ ہوتا ہے اور دل کی بیماری، ذیابیطس، چھاتی، بڑی آنت اور پھیپھڑوں کے کینسر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر ورزش کرنے سے خلیات کو آکسیجن کی تیزی سے اور زیادہ مؤثر طریقے سے ترسیل میں مدد ملتی ہے، اور بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے، بلڈ پریشر کو کم کرنے، اور بہتر نیند لینے میں مدد ملتی ہے، اس کے علاوہ یادداشت کو مضبوط بنانے، طاقت اور لچک کو بڑھانے میں مدد ملتی ہےمشاہدہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ جاگنگ دماغ کے اس حصے کو مسلسل متحرک کرتی ہے جو انسانی یادداشت اور سیکھنے کی صلاحیت کو کنٹرول کرتی ہے۔


دماغ کی سرگرمی کو برقرار رکھنا: 

سائنسدانوں نے پایا ہے کہ دماغی کھیل کھیلنا جو دماغ کو پہیلیاں حل کرنے کی تربیت دیتے ہیں، جیسے کراس ورڈ پہیلیاں، اور دیگر دماغ کو متحرک رکھنے میں مدد کرتے ہیں، اور دماغ کو ڈیمنشیا سے بچاتے ہیں، اور سیکھنے کی خواہش پیدا کرتے ہیں۔ پڑھنا انسان کی سوچنے کی صلاحیتوں کو چالو کرنے میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ذہن ان تمام تجربات، آراء اور خیالات سے تشکیل پاتا ہے جن کا اسے کسی حد تک سامنا ہوتا ہے، اسی طرح فکری تجسس میں اضافہ ذہن کو صحت مند رہنے میں مدد کرتا ہے ۔قارئین آخر میں چند اقوال جو آپ کی زندگی میں بہتری کا ذریعہ بن سکتے ہیں پیش خدمت ہیں ۔



*مطالعہ انسان کے لئے اخلاق کا معیار ہے۔


*۔۔۔ بری صحبت سے تنہائی اچھی ہے، لیکن تنہائی سے پریشان ہو جانے کا اندیشہ

 ہے، اس لئے اچھی کتابوں کے مطالعے کی ضرورت ہے۔


*۔۔۔ تیل کے لئے پیسہ نہ ہونے کی وجہ سے میں رات کو چوکیداروں کی قندیلوں کے پاس کھڑے ہوکر کتاب کا مطالعہ کرتا تھا۔

*۔۔۔ورزش سے جسم مضبوط ہوتا ہے اورمطالعے کی دماغ کے لئے وہی اہمیت ہے

 جو ورزش کی جسم کے لئے۔



*۔۔۔ مطالعہ سے انسان کی تکمیل ہوتی ہے

امید ہے کہ ہماری گزارشات آپ کے لیے مفید ثابت ہوں گیں ۔ہماری کوشش آپ کے لیے مفید ہوتو اپنی دعا میں ہمیں ضرور یادرکھئے گااور اس علمی کوششوں کو دوسروں تک فاروڈ کردیجئے گا۔۔۔۔


تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش




تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا