نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ڈاکٹرظہوراحمد دانش
ماہ شعبان المعظم
 

    امُّ المؤمِنین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں :میں نے ایک رات سرورِ کائنات، شاہِ موجودات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کو نہ دیکھا تو بقیع پاک میں مجھے مل گئے ،آپصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے فرمایا : کیا تمہیں اس بات کا ڈر تھا کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم تمہاری حق تلفی کریں گے؟ میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم!میں نے خیال کیا تھا کہ شاید آپ اَزواجِ مطہرات میں سے کسی کے پاس تشریف لے گئے ہوں گے۔ تو فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرَہویں رات آسمانِ دُنیا پر تجلی فرماتا ہے ،پس قبیلہ بنی کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ گنہگاروں کو بخش دیتا ہے۔(سُنَنِ تِرمِذی ج 2 ص183 حدیث739 )
    شعبان المعظم ۔۔ہجری تقویم میں آٹھویں نمبر کامہینا ہے،اس ماہ کو یہ فضیلت حاصل ہے کہ اسے آقانامدارصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم نے اپنامہینہ قرار فرمایایعنی(آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کا مہینا)۔۔ماہ شعبان میں ہی نصف شعبان کو بڑی رات آتی ہے جسے شب براء ت کہاجاتاہے۔اس رات کو اگراسلامی طور پر صحیح معنوں میں گزارا جائے تو اس میں برکتیں ہی برکتیں ہیں۔۔۔۔
     حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن ابی قیس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو فرماتے سنا:انبیا کے سرتاج ، صاحب معراج صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مہینا شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمُبارَک سے ملادیتے۔
    ماہ شعبان ہی میں مرنے والوں کی فہرست مرتب کی جاتی ہے۔ماہ شعبان میں اکثرروزے رکھنا سنت نبوی صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمہے۔۔نصف شعبان کو بعدنمازمغرب 6 نوافل اداکئے جاتے ہیں 2 نفل دارازیئ عمربالخیر۔2 نفل دافع بلا۔اور2 نفل رب عَزَّوَجَلَّ مخلوق کی محتاجی سے محفوظ رکھے۔
15 شعبان کو بیری کے پتوں کو پانی میں گرم کرکے اس پانی سے غسل کرنا پوراسال جادوسے حفاظت ہے۔
    نصف شعبان کو دعائے نصف شعبان بھی پڑھی جائے۔نصف شعبان بھلائیوں والی رات ہے مگر اس رات نازک فیصلے بھی ہوتے ہیں۔۔خود کو ہمیشہ ہی گناہوں سے دوررکھنا چاہئے مگر اس رات میں شیطان کی جانب سے رنگ برنگے طریقے سے مسلمانوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے آتش بازی جیسی حرام چیزوں نے جگہ بنالی ہے اس فرسودہ کام سے خود کو بھی دور رکھیں اور اپنے بچوں اور دیگرلوگوں کو بھی بچنے کی تلقین کرنی چاہئے۔۔۔آتش بازی کے بارے میں اسلامی کتابوں میں درج ہے کہ یہ (نمرود) کی ایجاد ہے۔
    اسی رات کو قبرستان جاناچاہئے بزرگان دین کے مزارات کی زیارات کرنی چاہئے فاتحہ خوانی کا بھی اہتمام کرنا چاہئے۔عاشقان رسول کو بالخصوص اہتمام کرنا چاہئے کہ اس رات کو نوافل ادا کریں۔قرآن کریم کی تلاوت کریں اورکوشش کرکے ماہ شعبان سے قبل ہی دعوت اسلامی کے رسالے (آقاصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کامہینا)کا مطالعہ کریں،ان شاء اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ عبادات میں دل لگے گا۔

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا