نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

بچوں كو خوش رہنے کے طریقے سیکھائیں



بچوں  كو خوش رہنے کے طریقے سیکھائیں

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

آپ اپنے بچوں کو خوش دیکھنا چاہتے ہیں ؟تو کیا فقط آپ کی خواہش کرنے یا سوچنے سے بچے خوش رہناشروع ہوجائیں گے یااس کے لیے آپ کو کوئی لائحہ عمل تیارکرناہوگا۔یقینا آپ کا جواب ہوگاکہ بچوں کے خوش رہنے کے طریقے سیکھنے ہوں گے ۔

ہم بھی آپ کو کچھ ایسی ٹپس دیتے ہیں ۔جن کی مدد سے آپ اپنے گھر کے آنگن میں پرورش پاتے بچوں کو خوش دیکھ سکیں گے ۔بچوں کو خوش رہنے کے انداز و طریقے سیکھانا ان کی جذباتی تندرستی کو فروغ دیتاہے، مثبت عادات کو فروغ  ملتاہے، نیز زندگی کے بارے میں ایک صحت مند نقطہ نظر پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے ۔بچوں کو  خوش رکھنے کے حوالے سے کچھ ٹپس ہیں پہلے وہ جان لیجئے ۔ بچوں میں خوشی کو فروغ دینے کے کچھ طریقے یہ ہیں:

اظہارِ رائے  کی حوصلہ افزائی کریں: Encourage self-expression

 ایسا ماحول بنائیں جہاں بچے اپنے خیالات، احساسات اور تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار میں محفوظ محسوس کریں۔ ان کی بات توجہ سے سنیں، ان کے جذبات کی پزیرائی ہو۔

شکر گزاری سکھائیں: Teach gratitude:

بچوں کو ان کی زندگی کے مثبت پہلوؤں پر غور کرنے کی ترغیب دے کر شکر گزاری کے رویے کو فروغ دیں۔ ان چیزوں کی نشاندہی کرنے میں ان کی مدد کریں جن کے لیے وہ ہر دن شکر گزار ہیں، خواہ یہ کسی دوست کی طرف سے اچھامعمولی کا تحفہ ہو یا خوبصورت غروب آفتاب کا ڈھلتا نظارہ ہو۔بچوں میں شکر گزاری  انھیں ہمیشہ خوش رکھے گی ۔

بچوں کو ماننا اور لچک پیداکرنا سیکھائیں: Promote resilience:

 ثابت قدمی اور مسائل کو حل کرنے کی اہمیت پر زور دے کر بچوں کو ناکامیوں اور چیلنجوں سے نمٹنا سیکھائیں۔انھیں یہ بات سمجھائیں کہ مسائل آتے ہیں مشکل آتی ہے مگر اس مشکل کا حل تلاش کیاجاتاہے ۔نیز اپنی ذات میں اپنے سوچ اور رویے میں flexibility پيداکریں۔یہ لچک انھیں ہمیشہ زندگی میں easyاور happyركھے گی ۔

رحمدلی کو فروغ دیں: Cultivate kindness

بچوں کو شفقت اور ہمدردی کی قدر سکھائیں اور ہمدردانہ رویے کا نمونہ بنا کر اور دوسروں کے جذبات اور ضروریات پر غور کرنے کی ترغیب دیں۔ ایک ساتھ احسان کے کاموں میں مشغول ہوں، جیسے رضاکارانہ طور پر یا کسی ضرورت مند پڑوسی کی مدد کرنا۔اس سے بھی بچوں میں زندگی جینے کی امنگ پیداہوگی انھیں ایک ایکٹیویٹی ملے گی جس سے وہ خوش بھی رہیں گے اور معاشرے کا متحرک کردار بھی بنتے چلے جائیں گے ۔

مثبت تعلقات کی حوصلہ افزائی کریں: ۔ Encourage positive relationships:

بچوں کو خاندان ،دوستوں وغیرہ کے ساتھ مثبت تعلق قائم کرنے کا ذہن دیں تاکہ وہ خود کو تنہانہ سمجھیں بلکہ اپنے سے جُڑے تعلقات کی بنیاد پر خود کو طاقت ور سمجھیں یہ نفسیاتی برتری انھیں انہونے خوف سے بچاکر انھیں خوش رکھے گی ۔

ذہن سازی کو فروغ دیں: Promote mindfulness:

بچوں کی قدم قدم پر ذہن سازی ضروری ہے جو انھیں کسی رہبر و رہنما ہونے کا احساس دیتی رہے گی ۔چنانچہ ایسے میں وہ غلطیوں سے بچ کر درست سمت کی جانب گامزن رہتے ہوئے کمفرٹ محسوس کرتے ہوئے خوش رہیں گے ۔

اسکرین کے وقت کو محدود کریں: Limit screen time:

ڈیجیٹل دور ہے حالات بدل گئے انداز بدل گئے بچوں کی مصروفیات اور طرز زندگی بدل گیا۔گیجٹس نے بچوں کو کمرے تک محدود کردیا۔ اسکرین کے وقت کی معقول حدیں مقرر کریں اور بچوں کو آف لائن سرگرمیوں میں مشغول ہونے کی ترغیب دیں جو تخلیقی صلاحیتوں، جسمانی سرگرمی اور سماجی تعامل کو فروغ دیتی ہیں۔ باہر وقت گزارنا، کھیل کھیلنا، اور مشاغل کا تعاقب مجموعی خوشی اور تندرستی میں حصہ ڈال سکتا ہے۔

کامیابیوں کا جشن منائیں: Celebrate achievements:

 بچوں کی کامیابیوں کو تسلیم کریں اور ان کا جشن منائیں، چاہے وہ کتنی ہی بڑی ہوں یا چھوٹی۔ ان کی خود اعتمادی اور اعتماد کو بڑھانے کے لیے ان کی کوششوں اور کامیابیوں کی تعریف کریں۔خود بھی مسکرائیں انھیں بھی مسکرانے کھلکھلانے کے مواقع فراہم کریں ۔

حوصلہ افزائی کریں: Encourage:

بچوں کو ہمت دیں ان کی ہمت کم نہ ہونے دیں ۔ان کی  نصابی و غیر نصابی سرگرمیوں پر انھیں داد دیں ۔کبھی کبھاحوصلہ بڑھانے کے لیے تحفہ و انعام دیں ۔یہ رویہ انھیں زندگی کی اصل روح بخشے گا وہ خوش رہیں گے ۔

ایک مثبت مثال قائم کریں: Set a positive example

بچے اکثر اپنے ارد گرد کے بڑوں کے رویے کی تقلید کرتے ہیں، اس لیے  حالات کس حد تک ناگفتہ بہ ہوں مگر بچوں پر اپنے غم پریشانی کا اظہار کرکے انھیں مایوسیوں کی کھائیوں میں مت دھکیلیں بلکہ خوش رہنے  کے بہانے تلاش کریں کہ بچے آپ کی ایک ایک ادانوٹ کرتے ہیں وہ آپ کو خوش دیکھ کر خوش رہیں گے ۔یہ رویہ ان کی شخصی تعمیر کے لیے ایک بہترین ذریعہ ثابت ہوگا۔

محترم والدین  یہ اولاد قدرت کا عطیہ ہے ان کی قدر کیجئے ۔انھیں بات بات پر ڈانٹ کر تنقید کرکے مایوس نہ کریں بلکہ انھیں خوش رہ کر اور خوش رکھ کر خود بھی زندگی انجوائے کیجئے اور اپنے بچوں کو بھی ہنستی مسکراتی کھلکھلاتی زندگی کا تحفہ دیجئے ۔اللہ کریم ہمیں خوشیوں بھری زندگی اور آخرت میں مغفرت کا پروانہ عطافرمائے آمین ۔

 

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا