نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

کمزور جسم کو طاقتور کیسے بنائیں



کمزور جسم کو طاقتور کیسے بنائیں

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

کمزور انسان والاشخص بہت تیزی سے احساسِ کمتری کا شکار ہوتاچلا جاتاہے ۔اپنے ہم عمر یا ہم منصب میں بھی ایک عجب ہیجانی کیفیت سے گزر رہاہوتاہے ۔لیکن آپ میں سے کوئی کمزور جسامت والاہے تو اب اس کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔کیوں کہ ایک بہترین اسٹڈی اور ریسرچ ہم آپ سے shareکرنے جارہے ہیں ۔ایک مرتبہ پوری انرجی کے ساتھ مسکرائیں ۔۔۔جی ہاں !!!ایسے !!!آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ہرچیز کا حل موجود ہے ۔بس آج سے کمزور جسم پر کُڑہنا چھوڑیں اور اس کو مضبوط اور طاقتور جسم بنانے کے لیے ہمارے طبی مشوروں پر غور کیجئے ۔اللہ کریم نے چاہا تو بہت جلد آپ پراعتماد،صحت مند شخصیت کے مالک بننے جارہے ہیں ۔

آئیے بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی جانب

کمزور جسم کو مضبوط کرنے کیلئے چند عوامل اہم ہیں جو عام طور پر صحتمند زندگی کے اصولی اصول ہیں۔ یہاں کچھ مضبوطی بڑھانے اور موٹا کرنے کے طریقے ہیں:

صحیح خوراک::

صحیح غذائیں اور غنی بھارتی ہونا اہم ہے۔پروٹین، کاربوہائیڈریٹس، آلومنیم، فاسفورس، اور دوسرے اہم عناصر کو ملائیں۔مختلف

فصلوں اور سبزیوں کا استعمال بڑھائیں۔

ریگولر ورزش::

مختلف قسم کے ورزشوں کو اپنائیں جیسے کہ وزن اٹھانا، جمنا، چلنا، یا کھیلیں۔ہر ہفتے کم سے کم 150 منٹ کا معتدل انٹینسوٹی کے ساتھ ورزش کریں۔

پوری نیند::

ہر رات کافی مدت کے لیے اچھی نیند لیں۔نیند کی کمی کمزور جسم کو مزید کمزور کرسکتی ہے۔

پانی کا صحیح استعمال::

دن بھر میں کم سے کم 8 گلاس پانی پیئیں۔پانی کو مزیدہ عناصر سے بھرنے کیلئے مصرف کریں، جیسے کہ نمک اور مٹی کے برتنوں سے۔

طبی چیک اپ::

کسی بھی صحت سے متعلق مسئلے کا حل کرنے کیلئے ڈاکٹر کی مشورہ حاصل کریں۔چیک اپ کے بعد ڈاکٹر کی ہدایتوں کا پیش آنا

مؤثر ہوتا ہے۔

تناؤ کم کریں::

تناو زندگی کو مضبوط کرنے میں رکاوٹ ڈالتا ہے۔اپنی ذات پر بھی وقت صرف  کریں۔

سائیکلوجیکل وضع::

مثبت سوچ اپنائیں اور حقیقتوں کا مقابلہ کریں۔مینٹل ہیلتھ کو مد نظر رکھیں اور جسمانی صحت کو مزید کمزوری سے بچانے کیلئے دھیان رکھیں۔

یہ تمام عوامل مدد فراہم کرسکتے ہیں تاکہ کمزور جسم کو مضبوط کیا جا سکے۔ یہ بات بھی آپ کے پیش نظر ہونی چاہیے کہ ہر شخص کی طبی کیفیت جداجداہوتی ہے اسی اعتبار سے موذوں و مناسب چیزوں کا استعمال ہی فائدہ مند ثابت ہوسکتاہے ۔

ہم اس بات کو اچھے طریقے سے سمجھتے ہیں کہ کمزور و لاغر بدن بھلا کو کس کو اچھا لگتاہوگا لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ اس پر سوچ سوچ کر مینٹل ڈس آڈر کا شکارہوجائیں ۔بلکہ کوشش کیا کریں کے زندگی میں کوسنے کی بجائے حل تلاش کیا کریں تاکہ درست نتائج حاصل کرسکیں ۔


پوری توجہ سے ہماری بات سمجھنے کی کوشش کیجئے گا ۔ہم اب آپ سے کمزور جسم کو توانا اور صحت مند بنانے کے حوالے سے غذابتانے جارہے ہیں ۔آپ نے سنجیدگی سے اس بات کو سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کرناہے ۔

پروٹین:

گوشت (چکن، گوشت، مچھلی)، دالیں (لوبیا، مصر، چنا)، انڈے، دہی، پینٹس، اور دیگر پروٹین رازیاں کمزور جسم کو مدد فراہم کرتی ہیں۔

کاربوہائیڈریٹس:

چاول، روٹی، اور دالوں کو اپنی روزانہ کی خوراک میں شامل کریں۔چینی، گندم، اور دنیا کے آٹے وغیرہ بھی کاربوہائیڈریٹس کا اچھا ذریعہ ہوتے ہیں۔

فاٹ:

صحتمند فاٹ مضبوطی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ زیتون کا تیل، مغز، اور مچھلی میں موجود ہوتا ہے۔

فالٹ اینٹیوکسیڈینٹس:

سبزیاں اور پھلوں میں موجود فالٹ اینٹیوکسیڈینٹس جسم میں خرابی کو روکنے میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

وٹامنز اور مٹینرلز:

خوبصورت وٹامنز اور مٹینرلز جیسے معدنیات جسم کی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔

سبزیاں، پھل، دالیں، اور گوشت وغیرہ انہیں فراہم کرتی ہیں۔

پانی:

ہر روز کافی پانی پیئیں تاکہ جسم میں ہر قسم کی تحریک ممکن ہو۔

چھلکا دار گنا:

چھلکا دار گنا میں کیلشیم، منیشیم، اور دوسرے عناصر موجود ہوتے ہیں جو ہڈیوں اور دانتوں کی مضبوطی میں مدد فراہم کرتے ہیں۔

آپ عمل کرلیں تو ہمیں کامنٹ باکس میں اپنی کیفیت ضرور بتائیے گا۔تاکہ ہم بھی جان سکیں کہ ہماری کوشش آپ کے لیے کس حد تک مفید رہی ۔اپنی دعاوں میں ہمیں ضرور یادرکھئے گا۔ایک نئے موضوع اور معلومات کے ساتھ پھر حاضر ہوں گے ۔تب تک کے لیے ۔اللہ نگہبان

Top of Form

 نوٹ:

آپ ہم سے طبی مشوروں کے لیے ان نمبرزپر رابطہ کرسکتے ہیں ۔
رابطہ نمبر:03462914283/وٹس ایپ:03112268353

 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا