نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہم لوگوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔Why do we hate people?

ہم لوگوں سے نفرت کیوں کرتے ہیں ؟

Why do we hate people

آپ نے اپنے رویے پر کبھی غور کیا ہوگا کہ آپکو کچھ لوگوں سے بتدریج نفرت ہونے لگتی ہے ۔ایسا ہوناچاہیے یا نہیں ہونا چاہیے ؟یہ الگ موضوع ہے لیکن یہ بات سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ اسباب کیا ہیں کہ ہم دوسروں سے نفرت کرنے لگتے ہیں ۔

ہر مرض  کا کوئی نہ کوئی سبب ہوتا ہے ، کسی کی نفرت میں مبتلا ہونے کے کم از کم 9 ممکنہ اسباب (Possible Reasons) ہوسکتے ہیں :

(1)جب ہمارا کوئی دوست یا عزیز اُمید وں کے برعکس ہماری توقعات (Expectations) پر پورا نہیں اُترتا مثلاً ہمیں کوئی ایمرجنسی پیش آئی لیکن ہمارے دوست  یا عزیز نے ہمارے مدد مانگنے پر بے رُخی اختیار کی تو ہمارے دل میں اس کے لئے نفرت کا بیج لگ سکتا ہے جو بڑھتے بڑھتے درخت کی شکل اختیار کرسکتاہے۔

 (2)جب ہمارا ماتحت  مسلسل ہمارے مزاج کے خلاف کام کرتا رہتا ہے تو ایک دن آتا ہے کہ وہ ہمارے دل سے اُتر جاتا ہے اور ایسی کیفیت ہوجاتی ہے کہ اس کے عطر (پرفیوم) میں سے بھی ہمیں پسینے کی بُو آنے لگتی ہے وہ کیسا ہی شاندار کام کرے ہم خواہ مخواہ اس میں سے کیڑے نکالنے لگتے ہیں۔

(3)کسی نے لوگوں کے سامنے ہمیں ڈی گریڈ کردیا ، یا ڈانٹ دیا یا بے جاتنقید کردی تو ہمیں وہ شخص بُرا لگنے لگتا ہے۔ اس کیفیت پر قابو نہ پایا جائے تو ایک دن ایسا بھی آسکتا ہے کہ ہم اس کی نفرت میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔


(4)اصلاح کا غلط انداز بھی نفرت پیدا ہونے کا سبب بن سکتا ہے ، ہمارا تو اکثر یہ حال ہو تا ہے کہ اگر کسی کو سمجھانا بھی ہو تو بِلاضرورتِ شرعی سب کے سامنے نام لےکر یا اُسی کی طرف دیکھ کر اِس طرح سمجھائیں گے کہ بے چارے کی پَولیں بھی کھول کر رکھ دیں گے۔ اپنے ضمیر سے پوچھ لیجئے کہ یہ سمجھانا ہوا یا اگلے کو ذلیل (DEGRADE) کرنا ہوا ؟ اِس طرح سُدھار پیدا ہوگا یا مزید بگاڑ بڑھے گا؟ یاد رکھئے! اگر ہمارے رُعب سے سامنے والا چُپ ہو گیا یا مان گیا تب بھی اُس کے دل میں ناگواری سی رہ جائے گی جو کہ بُغض  وعداوت اور نفرت وغیرہ کے دروازے کھول سکتی ہے۔ کاش!ہمیں اِصلاح کا ڈھنگ آجائے ۔

(5)کامیابی اور ناکامی زندگی کا حصہ ہیں لیکن کچھ لوگ ناکام ہونے والوں کی حوصلہ شکنی کو اپنی ڈیوٹی سمجھتے ہیں ، ایسے حوصلہ شکن شخص سے محبت کرنے والے  کم اورنفرت کرنے والے زیادہ ہوتے ہیں۔



 (6)بولنا (Speaking) ایک فن ہے تو سننا (Listening) اس سے بڑا فن ہے ، بولنے کا شوق بہت ساروں کو ہوتا ہے  مگر سننے کا حوصلہ کم افراد میں پایا جاتا ہے ، ایسے لوگ اپنی کہنے کے لئے بِلاوجہ دوسروں کی بات کاٹنے میں ذرا جھجھک محسوس نہیں کرتے ، ان کا یہ انداز بھی نفرتیں کمانے والا ہے۔



 (7)بات بات پر غصّہ کرنا ، چیخنا چِلّانا ، معمولی بات پر مشتعل ہوجانا بداخلاق ہونے کی نشانی ہے ، بداخلاقی محبتیں نہیں کماتی بلکہ اس سے نفرتیں جنم لیتی ہیں۔


 (8)کسی کے رشتے پر رشتہ بھیجنا یا سودے پر سودا کرنا بھی نفرتیں پھیلاتا ہے ، بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ دوگھرانوں کے درمیان رشتے کی بات چل رہی ہوتی ہے کہ کوئی تیسرا بھی بیچ میں پہنچ جاتا ہے ، یا دو افراد کے درمیان خرید وفروخت کی بات ہورہی ہوتی ہے توکوئی تیسرا اس میں کُود پڑتا ہے ایسی صورت میں فائدے سے محروم ہونے والا فریق بنا بنایا کام بگاڑ دینے والے کے بُغْض اور نفرت میں مبتلا ہوجاتا ہے۔


 اس لئے کسی کے رشتے یا سودے کی بات چیت کے دوران ٹانگ نہ اَڑائی جائے بلکہ ان کا معاملہ فائنل ہونے کا انتظار کیا جائے اگر انہوں نے آپس میں سودا یا رشتہ نہ کیا تو اپنی بات آگے بڑھائیے ورنہ رُک جائیے۔



(9)کسی کے بارے میں شک و بدگمانی یا جیلسی میں مبتلا ہونا بھی محبتوں کی قینچی ثابت ہوتا ہے

قارئین :میں آپ سے بہت محبت کرتاہوں ۔امید ہے آپ بھی مجھ سے محبت کرتے ہیں ۔اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے بھائی ڈاکٹرظہوراحمددانش کی مغفرت کی دعا بھی کردیجئے ۔۔

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا