نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

ہم ناکام کیوں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ہم ناکام کیوں ہوتے ہیں

انسان ہمیشہ اپنا نفع دیکھتاہے ۔نقصان کبھی بھی نہیں چاہتا۔وہ چاہتاہے وہ صفیں چیرتے ہوئے سب سے آگے نکل جائے ۔کامیابی اس کے قدم چومے ۔لیکن ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ خواہش یہ امنگ اور اس کے لیے کوشش قابل تعریف ہے لیکن یادرکھیں!!ہر چیز کے دوپہلو ہوتے ہیں ایک مثبت اور ایک منفی پہلو۔ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ ناکامی کے کیا اسباب ہیں تاکہ ان سے بچ کر ہم شاہراہ کامیابی پر گامزن سفر رہیں ۔



ہم اپنی اس تحریر میں آپ کو بتائیں گے کہ لوگ ناکام کیوں ہوتے ہیں ۔آئیے بڑھتے ہیں ہم اپنے موضوع کی جانب ۔

 


اپنی منزل کا تعین نہ ہونا :

ہم دل میں طوفانی امنگ رکھتے ہیں میں یہ بن جاوں میں وہ بن جاوں میں ایسا کرلوں ویسا کرلوں ۔لیکن کسی ایک جانب تعین نہیں ہوتا۔اس کو مثال سے سمجھئے :ایک شخص کی دلچسپی کمپیوٹر سائنس میں ہے لیکن وہ ڈاکٹر بننے کی ٹھان لیتا ہے تو ناکامی کا ذمہ دار وہ خود ہے


مقصد کے حصول کے طریقہ کار میں جھول :

اعلی افیسر بننے کی خواہش ہے ۔لیکن تعلیم پر توجہ نہیں ۔نہ ہی اس فیلڈ کے ذرائع جس جانب کی وہ تمنا رکھتاہے ۔ایک چھوٹی سی مثال سے موقف واضح ہوجائے گا۔مثلاًاگر کوئی شخص گاڑیوں کا مکینک بننا چاہتا ہے تو اسے سیکھنے کے لئے کسی ماہر کے پاس جائے اگر وہ شروع میں ہی اپنی ورکشاپ کھول کر لوگوں کی گاڑیوں پر تجربات شروع کردے گا تو شاید لینے کے دینے پڑ جائیں ۔


فیلڈ کے ایکسپرٹ سے روح گردانی :

آپ کچھ کرنے کا عزم رکھتے ہیں آگے ۔آگے بڑھنے کا ذوق رکھتے ہیں تو ایسوں کی صحبت اختیار کیجئے اور ان کی مدد لیجئے جو ان دونوں مرحلوں میں سرخرو ہوچکے ہیں ورنہ آپ پرپیچ شاہراہوں پر گم رہیں گے ۔کسی دانا نے کیا خواب کہا کہ :خود تجربے کرکے ٹھوکر کھانے کے بجائے تجربہ کاروں سے مشورہ کرلینا چاہئے اس سے وقت بچے گا ۔




استقامت سے بھگوڑا:

راستہ کتنا ہی کٹھن ہو استقامت کا وصف اپنا کر پار کیا جاسکتا ہے ،پانی کے قطرے کو دیکھ لیجئے کہ اگر مسلسل کسی پتھر پر ٹپکتا رہے تو اس میں بھی کچھ نہ کچھ سوراخ کردیتا ہے ۔

 

وقت ضائع کرنے والا:

وقت کائنات کی قیمتی ترین تحفہ ہے جس نے اس کی قدر نہیں کی وہ ناکامیوں پر کف افسوس نہ ملے یہ اس کے اپنے ہاتھوں کے کرتوت ہیں ۔یہ ناکامیاں اس وقت کا انتقام اور آپ کے کئے کا صلہ ہے ۔خداراہ اپنے وقت کو برباد مت کریں ورنہ  یہ وقت آپ کو کہیں کا نہیں چھوڑے گا۔

طبیعت اور مزاج :

ہم ہوشیار بھی ہیں ۔وقت پر بھی کوشش کرتےہیں لیکن موڈی انسان ہیں جب من مانا کوشش کی جب جی نہ کیا کوشش چھوڑ دی ۔تو یادرکھیں موڈی انسان کوئی بڑے کارنامے کا کبھی سوچے بھی نہیں ۔بلکہ ہم نے ایسوں کو ناکام ہوتے دیکھاہے ۔اپنے مزاج پر خود کنٹرول رکھیں ۔

بڑی امیدیں لگالینا:

ہم کام کی اپنی نوعیت کا ہوتاہے ۔ہر مشن کی اپنی حیثیت ہے ۔زندگی ممکن اور ناممکن دونوں کے سنگھم پر ہے ۔لیکن یہ سراسر حماقت ہے کہ مشن پر رواں ہوتے ہی بڑی بڑی امیدیں وابستہ لگالینا اور جب وہ کام نہ ہواتو نفسیاتی ہوجاتاہے ۔خود کو کوسنا شروع کردیں ۔ابھی نہیں تو آئندہ ممکن ہے کہ آپ اس سے بڑا کارہائے نمایاں کرسکیں ۔

سوچ ہی سوچ میں خوابوں کی دنیا:

دنیا میں سوچ کی اہمیت ہے ۔لیکن اس کا ہرگز مطلب نہیں کہ ہم سوچیں کہ ہم کوہ ہمالیہ سرکرگزریں گے ۔ہم سوچیں ہم اس دنیا میں تاریخ ساز کام کرگزریں گے تو یہ سب  سوچنے سے نہیں ہوگا۔ہماری ناکامی کی ایک بڑی وجہ ہے کہ ہم سوچوں میں اہداف پانے پر کوشاں ہوتے ہیں جبکہ یہ سب غیرحقیقت پسندی کی علامت ہے اور اس کی صورت میں ناکامی سوفیصد ہے ۔

محنت سے جان بخشی !!

ہم چاہتے ہیں کہ ہم کامیاب بھی ہوں اور ہمیں محنت بھی نہ کرنی پڑے تو پوری تاریخ انسانیت پڑھ لیں آپ کو محنت کش ہی کامیابی کے تمغے حاصل کرتے ملیں گے ۔کہیں کوئی فرد نہیں ملے گا جس نے کاہلی بھی کی ہواور وہ کامیاب بھی ہواہو۔ناکامی کی ایک وجہ محنت سے جی چرانا بھی ہے ۔

دوسروں کے ذہن و نظریے کو نہ سمجھنا!!

ہم خود کو عقل کل سمجھ کر چلنے اور بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ یہ سراسر ناکامی ہے کیوں کہ ہم نے انسانوں میں رہناہے انہی میں رہ کرکامیابی کے زینے چڑھنے ہیں تو انسانوں کے مزاج ،طبیعت کو ضرور جاننا ہوگا ورنہ ناکامی سے ہمیں کوئی نہیں بچاسکے گا۔مزاج شناسی کے   فُقدان کی وجہ سے کئی لوگ دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں ۔

اچھوں کو space نہ دینا :

مخلص لوگوں کی قدر نہ کرنابھی ناکامی کی ایک وجہ ہے۔

اصلاح کرنے والے سے سے خفا!!

غلطی کی نشاندہی کرنے والے سے ناراض ہوجانے والا اپنے اوپر اصلاح کا دروازہ گویا بندکرلیتا ہے ، اب وہ کھائی میں بھی چھلانگ لگائے گا تو شاید ہی کوئی اس کو روکنے والا ہو ۔

بے جا خوف و ٹینشن!!

آپ جو کرنا چاہتے ہیں اس کے لیے کوشش کریں اس کے ضروری لوازمات پورے کریں لیکن اس کے لیے اتنے خبطی نہ ہوجائیں کہ آپ کیسی مرض میں مبتلاہوجائیں اس کی وجہ سے بھی آپ اپنے مشن اور پروجیکٹ میں ناکام ہوسکتے ہیں ۔ (Emergency) کیوں نہ ہو حواس پر قابورکھنا بے حد ضروری ہے ۔

ہاتھ پاوں چھوڑ دینا:

بڑے مشن کے کھلاڑیوں کے بڑی مشکلات کا سامنا کرنے کے لیے بڑاجگر بھی رکھنا پڑتاہے ایسانہ ہو کہ ادھر مشکل کیا آئی آپ ہاتھ پاوں چھوڑ دیں ۔ناامیدی کے عمیق گھڑے میں جاگریں ۔بلکہ حوصلہ بلند رکھنا ہوگا۔اسے کام اور نظام کا حصہ سمجھ کر ذہنی طورپر تیاررہیں ۔

طاقت سے زیادہ بوجھ :

کچھ لوگوں میں دیکھا گیاہے کہ طاقت و قدرت سے زیادہ بار لے لیتے ہیں ایسے میں جو کام وہ اچھے انداز میں کرسکتے تھے وہ بھی نہیں ہوتااور زیادہ کے چکر میں مکمل طورپر ناکامی بلکہ بعض صورتوں میں جگ ہنسائی کا بھی باعث بن جاتاہے ۔ناکامی کی ایک وجہ ضرورت سے زیاہ بوجھ لے لینا بھی ہے ۔

میرے مطابق چانس ملے :

بعض نوجوان ، اچھے عہدہ(Good Post) کے انتظار میں خالی ہاتھ بیٹھے رہتے ہیں ، متبادل نوکری یا کاروبار نہیں کرتے جب ان کی عمر ڈھلنے لگتی ہے تو مایوسیوں کے سائے بھی دراز ہونا شروع ہوجاتے ہیں، پھر وہ اپنی ناکامیوں کا رونا روتے دکھائی دیتے ہیں۔

انہوناخوف :

ہمارے اندر قدرت کی عطیہ کردہ بیش بہا صلاحیت ہوتی ہیں لیکن ہمیں یہ فکر کھائے جاتی ہے معلوم ہو نہ ہو۔اف  ایسا نہ ہوجائے ۔اگر نہ ہواتو وغیر ہ ۔یہ مزاج رویہ اور عادت ناکامی کی پہلی سیڑھی ہے اور ناکامی اس سے کوسوں دور بھاگ جاتی ہے ۔

طفل تسلیاں اور مایوسیوں کا رونا:

کچھ لوگ صرف غموں دکھوں اور پریشانیوں کو کوستے رہتے ہیں ایسا ہوتا تو میں ایساکرلیتاوغیر ہ۔یادرکھیں ۔یہ صرف و صرف آپ کے دماغ کی اختراع ہے ۔اس دنیا میں کیسے کیسے لوگ آئے جو مشکل ترین حالات اور تنگدستی کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں تھے لیکن انھوں نے اپنی ہمت اور حوصلہ سے اس کائنات میں کامیابیوں کا ڈھنکا بجایا۔آپ ناکام ہیں اس کی ایک بڑی وجہ یہ سوچ اور ہمدردی وصول کرنے کا رویہ بھی ہے ۔

قارئین:

کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا

بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا

کامیابی کی بات تو ہرکوئی بتاتاہے لیکن ناکام ہونے کی وجہ کوئی کیوں نہیں بتاتا ہم اس وقت تک کامیاب نہیں ہوسکتے جب تک ہم ناکامی کے اسباب سے مطلع نہیں ہوتے ۔میں ریسرچ کا آدمی ہوں ۔ٹرینربھی اور مشاہدہ بھی کرتاہوں میں نے جو محسوس کیا پڑھا،سنا،دیکھا اللہ کی رضا کی خاطر آپ کی بھلائی کی نیت سے پیش کردیا ہماری کوشش آپ کو فائدہ دے تو ہماری مغفرت کی دعا کردیجئے گا۔

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

 نکیال آزادکشمیر

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا