نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

آئیں :کھُل کر جینے کا ہنر سیکھتے ہیں

 




آئیں :کھُل کر جینے کا ہنر سیکھتے ہیں  

سوشل میڈیا پر ایک واقعہ پڑھا ۔آپ بھی پہلے واقعہ پڑھ لیں پھر بات کرتے ہیں ۔

ہفتہ کی ایک شام میں اور میرا بھائی اپنے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے ،چو نکہ یہ ویکینڈ تھا تو ہم نے باہر جانے کا پلان بنایا . کچھ دوستوں کو پلان میں شامل ہونے کا کہا مگر مصروفیات کی وجہ سے انھوں انکار کر دیا۔ خیر ہم دونو ں بھائی باہر گئے .بجٹ کم ہونے کی وجہ سے ہم سستی جگہوں پر جاتے تھے کبھی گوال منڈی تو کبھی انار کلی جاتے تھے ، جب ہوسٹل سے باہر نکلے تو گھر کی بہت یاد 

آئی۔.

کسی کو کیسے بتائیں ضرورتیں اپنی

مدد ملے نہ ملے آبرو تو جاتی ہے

ہمارے علاقے کے دہی بڑ ےمشہور تھے۔ گھر کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے بھائی نے بائیک ا نار کلی فوڈ سٹریٹ کی طرف موڑ لی . ہم نے بیٹھتے ہی دو دہی بڑ ے کے پیالے اور ڈرنک کا آرڈر دیا . دہی بڑ ے کھا تے ہوئے ایک بچہ کھلونے بیچنے کی غرض سے ہمارے پاس آیا اور کہا بھائی کھلونا لے لو . بچہ نہا یت ہی معصوم تھا .میں نے اس کی مدد کی غرض اسے تیس روپے دئیے لیکن اس بچے نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور کہا “بھائی میں مانگنے والا نہیں ہوں جب تک آپ میرے کھلونے نہیں لو گے میں آپ سے پیسے نہیں لوں گا۔



اس بچے کے ان الفاظ نے  مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا. میں نے بچے کو اپنے ساتھ بٹھایا اور بوتل پلائی اور اس سے پیسے نا لینے کی وجہ پو چھی تو بچے نے جو جواب دیا وo دل کو چھو لینے والا تھا۔ اس نے کہا “اگر آج میں نے یہ پیسے یونہی لے لیے تو بڑ ے ہو کر مجھے مانگنے کی عا دت پڑ جائے گی” ان الفاظ کو سننے کے بعد میرے بھائی نے مجھے حیران ہو کر دیکھا .بھائی نے اس بچے سے کھلونا لے کر اسے پیسے دئیے جب اس نے پیسے لیے تو اس کے چہرے پر جو خوش تھی وہ نا قابل بیان ہے۔

جب ہم واپس اپنے روم میں آئے تو ہمارے ہاتھ میں کھلونا دیکھ دوست ہنسنے لگے اور کہا یار اب تم لوگ بچے نہیں ہو جو ان کھلونوں سے کھیلو گے، اس بات کے جواب میں میرے بھائی نے کہا “کبھی کبھی کچھ چیزیں بے وجہ بھی خریدی جاتی ہیں” آج بھی وہ کھلونا ہمارے کمرے میں پڑا ہے میں جب بھی اسے دیکھتا ہوں تو سارا واقعہ مجھے یاد آتا ہے اور چہرے پر عجیب قسم کی مسکراہٹ اور دل میں عجیب سی کیفیت پیدا ہوئی۔



قارئین:

اس کہانی میں ہمیں بہت بڑا پیغام ملا۔آج ہم ایک عجب سی دوڑ میں لگ گئے ہیں ۔رونا رواس پٹاس ،شورشرابہ مزاج سا بن گیا ہے ۔مجھے اچھے سے یاد ہے کہ ایک شخص نے مجھے فون کیا خیریت کے بعد جو کہا مفہوم بتاتاہوں ۔ڈاکٹر صاحب پڑھے لکھے ہوئے انٹرنیٹ پر اتنی تحریریں لوگ بھی جانتے ہیں ۔مگر آج بھی کرائے کہ گھر میں رہتے ہو۔وہ بھی ایوریج علاقے میں ۔یہ کل کی بات ہے ۔اسد کراچی آیا ۔اور اس نے بڑی بڑی پارٹیوں سے تعلقات بنائے ۔۔ابھی اس کو ہائی وے پرایک بہترین سوسائٹی میں پارٹی نے گھر بناکردیا ہے ۔باقی مہینے میں بھی وہ پارٹیوں سے اچھے پیسے مختلف مد میں لے لیتاہے ۔آپ سادے کے سادے رہوگے ۔میں فون سن رہاتھا میرے گھر والی بھی ساتھ تھی ۔اس کے چہرے کے طیور بدل رہے تھے ۔میں نے سوچا ممکن ہے یہ بھی سوچے کے شوہر نامدار بس جاب اور کوچنگ پر کب تک گزارہ کرواتے رہیں گے ۔کوئی تگڑی پارٹی ڈھونڈیں ۔لیکن اللہ خوش رکھے ۔اس نے میرا حوصلہ بڑھایا اور کہا۔رضا کے ابو ہم پر رب کا کتنا کرم ہے کہ ہم خودداری سے رہتے ہیں ۔اللہ پاک ہماری پوری بھی کردیتاہے ہمیں کوئی پارٹی ،سیٹھ بھی نہیں ڈھونڈنا پڑتا۔

جی قارئین:کیا خیال ہے ۔زیادہ سکون اپنے کمانے اور خودداری میں ہے یا کسی سیٹھ صاحب اور پارٹی کے دیے ہوئے پیسوں کی آس وامید میں ہے ۔آئیے کچھ اسلام کی روشنی میں خودداری کو جانتے ہیں ۔

قارئین:

 نبیِّ مکرم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے ارشاد فرمایا : بے شک اللہ کریم   نے تمہارے لئے تین کاموں کو ناپسند فرمایاہے : (1)فضول باتیں کرنا (2)مال کو ضائع کرنا (3)بہت زیادہ سوال کرنا۔ 

حضرت سیّدنا ثوبان  رضی اللہ  عنہ  سےروایت ہےکہ نبیِّ کریم   صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم   نےارشاد فرمایا : ’’جو مجھے ایک بات کی ضمانت دے تو میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ ‘‘آپ   رضی اللہ عنہ  فرماتے ہیں : میں نے عرض کی : میں ضمانت دیتاہوں۔ نبیِّ کریم  صلَّی اللہ  علیہ واٰلہٖ وسلَّم    نے ارشاد فرمایا : لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہیں کرنا۔ (اس کے بعدآپ   رضی اللہ عنہ  کسی سےکچھ نہ مانگا کرتے تھے حتی کہ)آپ گھوڑے پر سوار ہوتے اور کَوڑا(یعنی چابک)نیچے گر جاتا تو کسی سے اٹھانے کے لئے نہ کہتے بلکہ گھوڑے سے نیچے اتر کر خود ہی اسےاٹھالیتے۔ 


فرمان مصطفی ﷺ:

عِزُّ الْمُوْمِنِ اِسْتِغْنَاؤُہٗ عَنِ النَّاسِ یعنی مومن کی عزت لوگوں سے بے نیاز ہونے میں  ہےْ

فرمان :دنیا سے بے رغبت ہو جاؤ! اللہ پاک تم سے محبت فرما ئے گا اور لوگوں کے مال سے بے نیاز ہوجاؤ!وہ تم سے محبت کریں گے۔ 

  


قارئین:جب خودداری ہمیں سوال کرنے سے بچاتی ، ہماری عزت بڑھاتی ، دوسروں کی محتاجی سے بچاتی ،  ہمارا حوصلہ بڑھاتی ، بھیک جیسی بری عادت میں پڑنے سے بچاتی اور مخلوق سے ہٹاکر خالق کی بارگاہ کاپتا بتاتی ہے تو ہمیں ایسی عادت کو ضرور اپنانا چاہئے۔ اللہ کریم ہمیں اس مبارک عادت کو اپنانےکی توفیق عطافرمائے۔                                        

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر

رابطہ نمبر:03462914283


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا