نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

اشاعتیں

نومبر, 2022 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

آئیں :کھُل کر جینے کا ہنر سیکھتے ہیں

  آئیں :کھُل کر جینے کا ہنر سیکھتے ہیں   سوشل میڈیا پر ایک واقعہ پڑھا ۔آپ بھی پہلے واقعہ پڑھ لیں پھر بات کرتے ہیں ۔ ہفتہ کی ایک شام میں اور میرا بھائی اپنے کمرے میں بیٹھے پڑھ رہے تھے ،چو نکہ یہ ویکینڈ تھا تو ہم نے باہر جانے کا پلان بنایا . کچھ دوستوں کو پلان میں شامل ہونے کا کہا مگر مصروفیات کی وجہ سے انھوں انکار کر دیا۔ خیر ہم دونو ں بھائی باہر گئے .بجٹ کم ہونے کی وجہ سے ہم سستی جگہوں پر جاتے تھے کبھی گوال منڈی تو کبھی انار کلی جاتے تھے ، جب ہوسٹل سے باہر نکلے تو گھر کی بہت یاد  آئی۔ . کسی کو کیسے بتائیں ضرورتیں اپنی مدد ملے نہ ملے آبرو تو جاتی ہے ہمارے علاقے کے دہی بڑ ےمشہور تھے۔ گھر کی یاد تازہ کرنے کی غرض سے بھائی نے بائیک ا نار کلی فوڈ سٹریٹ کی طرف موڑ لی . ہم نے بیٹھتے ہی دو دہی بڑ ے کے پیالے اور ڈرنک کا آرڈر دیا . دہی بڑ ے کھا تے ہوئے ایک بچہ کھلونے بیچنے کی غرض سے ہمارے پاس آیا اور کہا بھائی کھلونا لے لو . بچہ نہا یت ہی معصوم تھا .میں نے اس کی مدد کی غرض اسے تیس روپے دئیے لیکن اس بچے نے پیسے لینے سے انکار کر دیا اور کہا “بھائی میں مانگنے والا نہیں ہوں جب تک آپ میرے کھلو

ہم ناکام کیوں ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہم ناکام کیوں ہوتے ہیں انسان ہمیشہ اپنا نفع دیکھتاہے ۔نقصان کبھی بھی نہیں چاہتا۔وہ چاہتاہے وہ صفیں چیرتے ہوئے سب سے آگے نکل جائے ۔کامیابی اس کے قدم چومے ۔لیکن ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ خواہش یہ امنگ اور اس کے لیے کوشش قابل تعریف ہے لیکن یادرکھیں!!ہر چیز کے دوپہلو ہوتے ہیں ایک مثبت اور ایک منفی پہلو۔ہم کامیاب ہونا چاہتے ہیں لیکن اس کے لیے ہمیں اس بات کو جاننا ضروری ہے کہ ناکامی کے کیا اسباب ہیں تاکہ ان سے بچ کر ہم شاہراہ کامیابی پر گامزن سفر رہیں ۔ ہم اپنی اس تحریر میں آپ کو بتائیں گے کہ لوگ ناکام کیوں ہوتے ہیں ۔آئیے بڑھتے ہیں ہم اپنے موضوع کی جانب ۔   اپنی منزل کا تعین نہ ہونا : ہم دل میں طوفانی امنگ رکھتے ہیں میں یہ بن جاوں میں وہ بن جاوں میں ایسا کرلوں ویسا کرلوں ۔لیکن کسی ایک جانب تعین نہیں ہوتا۔اس کو مثال سے سمجھئے :ایک شخص کی دلچسپی کمپیوٹر سائنس میں ہے لیکن وہ ڈاکٹر بننے کی ٹھان لیتا ہے تو ناکامی کا ذمہ دار وہ خود ہے مقصد کے حصول کے طریقہ کار میں جھول : اعلی افیسر بننے کی خواہش ہے ۔لیکن تعلیم پر توجہ نہیں ۔نہ ہی اس فیلڈ کے ذرائع جس جانب کی وہ تمنا رکھتاہے ۔ایک چھوٹ

سو برس مردہ رہنے کے بعد زندہ ہوئے

سو برس   مردہ رہنے کے بعد زندہ ہوئے حضرت عزیر بن شرخیا علیہ السلام کا ہے جو بنی اسرائیل کے ایک نبی ہیں۔ واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ جب بنی اسرائیل کی بد اعمالیاں بہت زیادہ بڑھ گئیں تو ان پر خدا کی طرف سے یہ عذاب آیا کہ بخت نصر بابلی ایک کافر بادشاہ نے بہت بڑی فوج کے ساتھ بیت المقدس پر حملہ کردیا اور شہر کے ایک لاکھ باشندوں کو قتل کر دیا۔ اور ایک لاکھ کو ملک  شام میں ادھر ادھر بکھیر کر آباد کردیا۔ اور ایک لاکھ کو گرفتار کر کے لونڈی غلام بنالیا۔ حضرت عزیر علیہ السلام بھی انہیں قیدیوں میں تھے۔ اس کے بعد اس کافر بادشاہ نے پورے شہر بیت المقدس کو توڑ پھوڑ کر مسمار کردیا اور بالکل ویران بنا ڈالا۔   بخت نصر کون تھا؟:۔ قوم عمالقہ کا ایک لڑکا ان کے بت ''نصر''کے پاس لاوارث پڑا ہوا ملا چونکہ اس کے باپ کا نام کسی کو نہیں معلوم تھا، اس لئے لوگوں نے اس کا نام بخت نصر (نصر کا بیٹا)رکھ دیا۔ خدا کی شان کہ یہ لڑکا بڑا ہو کر کہراسف بادشاہ کی طرف سے سلطنت بابل پر گورنر مقرر ہو گیا۔ پھر یہ خود دنیا کا بہت بڑا بادشاہ ہو گیا۔                                              (تفسیر جمل،ج ۱ ،ص

تابوتِ سکینہ ایک عجب صندوق

تابوتِ سکینہ     ایک عجب  صندوق   یہ شمشاد کی لکڑی کا ایک صندوق تھا جو حضرت آدم علیہ السلام پر نازل ہوا تھا۔ یہ آپ کی آخرِ زندگی تک آپ کے پاس ہی رہا۔ پھر بطور میراث یکے بعد دیگرے آپ کی اولاد کو ملتا رہا۔ یہاں تک کہ یہ حضرت یعقوب علیہ السلام کو ملا اور آپ کے بعد آپ کی اولاد بنی اسرائیل کے قبضے میں رہا۔ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مل گیا تو آپ اس میں توراۃ شریف اور اپنا خاص خاص سامان رکھنے لگے۔ یہ بڑا ہی مقدس اور بابرکت صندوق تھا۔ بنی اسرائیل جب کفار سے جہاد کرتے تھے اور کفار کے لشکروں کی کثرت اور ان کی شوکت دیکھ کر سہم جاتے اور ان کے سینوں میں دل دھڑکنے لگتے تو وہ اس صندوق کو اپنے آگے رکھ لیتے تھے تو اس صندوق سے ایسی رحمتوں اور برکتوں کا ظہور ہوتا تھا کہ مجاہدین کے دلوں میں سکون و اطمینان کا سامان پیدا ہوجاتا تھا اور مجاہدین کے سینوں میں لرزتے ہوئے دل پتھر کی چٹانوں سے زیادہ مضبوط ہوجاتے تھے۔ اورجس قدر صندوق آگے بڑھتا تھا آسمان سے نَصْرٌ مِّنَ اللہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ کی بشارت عظمیٰ نازل ہوا کرتی اور فتح مبین حاصل ہوجایا کرتی تھی۔     بنی اسرائیل میں جب کوئی اختلاف پیدا ہوتا تھ