نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ؟

 



مہنگائی کے طوفان کا مقابلہ کیسے ممکن ہے ؟


2022 میں ہم سانسیں لے رہے ہیں جس جانب دیکھو حالات دگرگوں ہورہے ہیں چہرے پر مایوسی اذہان پر خدشات اور زبانوں کا مہنگائی کے ترانے جاری ہیں لیکن سوال یہ ہے کیا مہنگائی مہنگائی مہنگائی کے گیت گانے سے مہنگائی کم ہوجائے گی ؟

جواب یہی ملے گا کہ نہیں ایسا نہیں ہے ۔تو آئیے ہم حل کی جانب  بڑھتے ہیں کہ آخر اس طوفان کا کیسے مقابلہ کیا جائے ۔



قارئین:

ہمیں اس کا عملی علاج کرنے کی کوشش کرنی چاہئے مثلاً کم آمدنی والے شخص کو چاہئے کہ صرف ضروری اشیاء کی خریداری پر اکتفا کرے ، روز روز گوشت اور مرغن کھانوں کے استعمال کے بجائے سبزیاں اور دالیں وغیرہ کھانے کا بھی معمول بنائے کہ عموماً ان کی قیمت گوشت کے مقابلے میں کم ہوتی ہے اور یہ صحت کے لئے مفید بھی ہوتی ہیں۔

 


اپنے آپ کو اور بال بچّوں کو سادہ غذا اور سادگی کے ساتھ زندگی گزارنے کا عادی بنائے اس سے دیگر فوائد کے ساتھ ساتھ اسپتالوں کے چکر لگانے اور ڈاکٹروں کی فیسوں اور دواؤں پر آنے والے خرچ سے بھی بچت ہوگی۔ مہنگے موبائل فون ، لیپ ٹاپ اور ٹیبلیٹ پی سی وغیرہ کے بجائے حسبِ ضرورت سادہ موبائل فون سے کام چلا لیا جائے۔


 اگر کھانے پینے کی چیزوں میں سے کوئی چیز مہنگی ہوجائے تو اُسے ترک کرکے دوسری نسبتاً سستی چیز خرید لے۔ اس علاج سے متعلق2حکایات بیان کرتا ہوں : (1)ایک مرتبہ مکّۂ مکرّمہ میں کشمش کی قیمت بڑھ گئی۔ لوگوں نے شیرِ ِ خُدا حضرتِ سیّدنا علیُّ المرتضیٰ  کَرَّمَ اللہُ وَجہَہُ الْکریم  سے اس کی شکایت کی تو آپ  رضیَ اللہُ عنہ  نے فرمایا : تم لوگ کشمش کے بدلے کَھجور استعِمال کرو (کیونکہ جب ایسا کروگے تو مانگ کی کمی کی وجہ سے) کشمش کی قیمت گِر جائے گی۔ (تاریخ ابنِ معین ، ص168) (2)حضرتِ سیّدُنا ابراہیم بن اَدْھَم  رحمۃُ اللہ علیہ  سے کسی نے کہا : گوشت مہنگا ہوچکا ہے (کیا کرنا چاہئے؟) آپ  رحمۃُ اللہ علیہ  نے فرمایا : اِسے سستا کردو یعنی اسے خریدنا چھوڑ دو۔ (رسالہ قشیریہ ، ص22)

گھریلو اخراجات کم کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ استعمال کی چیزوں کی خریداری کے لئے جانے سے قبل ضَروری اشیاء کی فہرست بنائیے اور اس کا بغور جائزہ لیجئے کہ کیا واقعی ان سب چیزوں کی ضرورت ہے اور ان کے بغیر گزارہ مشکل ہے؟



قارئین:

ہم آپ کو مخلصانہ مشورہ دے رہے ہیں اگر آپ نے اس مہنگائی کا حل نہ سوچا تو آپ بڑی پریشانی کا شکار ہوسکتے ہیں ۔خدارہ پیش کردہ باتوں کو ذراکرکے تو دیکھیں ۔میرے پیارے اللہ پاک نے چاہا تو آ پ پریشانی کا سدباب کرسکیں گے ۔



نوٹ:بجٹ مینجمنٹ اور آمدنی کے اصولوں اور طریقوں کے حوالے سے مفید اور ماہرانہ رائے کے حوالے سے آپ بلا جھجک رابطہ کرسکتے ہیں ہم فی سبییل اللہ آپ کو مشورے دیں گے ،آپ ہمارے اپنے ہیں ۔آپ ہماری مغفرت کی دعا کردیجئے گا۔

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر

رابطہ :03462914283

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا