نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

پڑھ لیں گناہوں کی سات۷اَقسام


 

پڑھ  لیں گناہوں کی سات۷اَقسام

لفظ گناہ پڑھتے یا سنتے ہی ایک ہیجانی کیفیت ہوجاتی ہے ایک عجب سا نافرمانی کا احساس ہونے لگتاہے ۔ہمیں گناہوں کے بارے میں معلوم ہونا چاہیے .تاکہ ان کاموں سے ہم بچ سکیں ۔آئیے بڑھتے ہیں اپنے موضوع کی جانب ۔قارئین کو بتاتے چلیں کہ پیش کردہ مواد قوت القلوب سے مستفاد ہے ۔امید ہے کہ یہ آپ کو فائدہ دے گا۔۔

قارئین:

گناہوں کی سات۷اَقسام ہیں جن میں سے بعض بعض سے بڑے ہیں، ان میں سے ہر قسم کے الگ الگ مَراتِب ہیں اور ہر مرتبے میں گناہ گاروں کا ایک الگ طبقہ ہے۔چنانچہ وہ سات۷اَقسام یہ ہیں:

پہلی قسم

بعض گناہ ایسے ہیں جن میں بندہ صِفاتِ رَبُوبِیَّت اپنانے کی وجہ سے مبتلا ہوتا ہے۔ مِثال کے طور پر کِبْر،

فَخْر، جَبْر، اپنی مَدْح وثَنا کو پسند کرنا، عزّت و غِنا کے اَوصاف سے مُتَّصِف  ہونا۔ یہ تمام گناہ مُہلِکات میں سے ہیں اور ان میں دنیا داروں کے بَہُت سے طبقات مبتلا ہیں۔


دوسری قسم

بعض گناہوں کا تعلّق شیطانی اَخلاق سے ہوتا ہے جیسے حَسَد، سرکشی و بَغَاوَت، مَکْر و فریب اور فَساد کا حکْم دینا۔ یہ سب گناہ بھی ہَلاکَت خیز ہیں اور ان میں بھی دنیاداروں کے بَہُت سے طبقات مبتلا ہیں۔


تیسری قسم

بعض گناہ وہ ہیں جو سنّت کی خِلاف ورزی کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔ یعنی وہ گناہ جو سنّت کی مُخالَفَت کر کے بِدْعَت اپنانے اور دین میں نئی نئی باتیں اِیجاد کرنے کی وجہ سے پیدا ہوتے ہیں، یہ سب کبیرہ گناہ ہیں اور ان میں سے بعض گناہوں پر عَمَل کی وجہ سے اِیمان خَتْم اور نِفاق پیدا ہوتا ہے۔

چوتھی قسم

چھ کبیرہ گناہ ایسے ہیں جو مِلّت سے خارِج کر دیتے ہیں اور وہ یہ ہیں:

(1 )قَدَرِیَّه (2 )مُرْجِیَّه (3)رَافِضِیَّه (4) اِبَاضِیَّه (5) جُھَمِیَّه (6 )مُغَالَطه انگیز شَطْحِیَّات میں مبتلا لوگ؛ جو عِلمی اِسْتِعْدَاد اور قَوانِینِ شرعیہ کی مُقرّر کردہ حُدود سے تَجاوُز کرتے ہوئے کسی اَخلاقی قید کے قائل ہیں نہ کسی آئین و قانون کے اور نہ وہ کسی حکْم کو مانتے ہیں۔ یہ لوگ اس اُمَّت کے زِنْدِیْق ہیں۔


پانچویں قسم

بعض گناہ مَخلوق سے تعلّق رکھتے ہیں یعنی اُمُورِ دینیہ میں ظُلْم کی راہ اپنانا اور عام لوگوں کو مومنین کے طریقے سے ہٹا کر کُفْر و اِلْحاد کے راستے پر چلانا۔ مُراد یہ ہے کہ اس گناہ کے مُرْتکِب لوگ عام لوگوں کو راہِ ہِدایَت سے بھٹکاتے، سنّتوں سے دُور کرتے، کِتابُ اللہ میں تحریف کرتے اور حدیثِ پاک کی مَن مَانی تاویل کرتے ہیں، پھر (اسی پر بَس نہیں کرتے بلکہ)اس کو پھیلاتے اور لو گوں کو اس کی دَعْوَت بھی دیتے ہیں تاکہ اس تاویل و تحریف وغیرہ کو قبول کیا جائے اور اس کی پیروی کی جائے۔ بعض عُلَمائے کِرام رَحِمَہُمُ اللہ ُ السَّلَام فرماتے ہیں: ان گناہوں کی کوئی توبہ نہیں جس طرح بعض نے قاتِل کے مُتعلِّق فرمایا ہے کہ اس کے لیے بھی کوئی توبہ نہیں کیونکہ اس کے مُتعلّق نُصوص میں وَعِید مَرْوِی ہے۔



چھٹی قسم

بعض گناہوں کا تعلّق اُمُورِ دنیا میں لوگوں کے مَظَالِم سے ہے۔ مثلاً اِنسانوں کو مارنا پیٹنا، انہیں گالیاں دینا، اَموال کا چھین لینا، جھوٹ بولنا اور بہتان لگانا۔ یہ گناہ بھی ہَلاکَت خیز ہیں۔ان میں عادِل حکمران کے فیصلے سے قِصاص لینا ضَروری ہے، نیز اس کے فیصلے سے ہاتھ کاٹنے کا حکْم بھی نافِذ ہو سکتا ہے۔ ہاں! (حرام کے بجائے اگر) حَلال کی کوئی صُورَت بن جائے یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ اپنے خاص فضل و کرم سے ان گناہ گاروں کی جانِب سے مظلوموں کو کوئی بدلہ عَطا فرما دے (تو ان گناہوں کے عَذاب سے چھٹکارا مِل سکتا ہے)۔

فرمانِ مُصْطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ہے کہ نامۂ اَعمال تین۳طرح کے ہیں:ایک نامۂ عَمَل قابلِ مُعافی ، دوسرا ناقابلِ مُعافی اور تیسرا ایسا ہے جسے ایسے ہی نہیں چھوڑا جائے گا۔ چنانچہ جس نامۂ عَمَل کو مُعاف کر دیا جائے گا اس سے مُراد بندوں کے وہ گناہ ہیں جو بندوں اور اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے درمیان ہیں۔ وہ نامۂ اَعمال کہ جس کی بخشش نہیں ہو گی اس سے مُراد شِرک ہے۔تیسرا نامۂ اَعمال کہ جسے یونہی نہیں چھوڑ دیا جائے گا اس سے مُراد وہ نامۂ عَمَل ہے جس میں بندوں پر کیے گئے مَظَالِم دَرْج ہوں گے۔ مُراد یہ ہے کہ ان مَظَالِم کا مُطالَبہ و مُواخَذہ نہیں چھوڑا جائے گا۔


ساتویں قسم

بعض گناہ ایسے ہیں جن کا تعلّق بندے اور اس کے مولیٰ کے درمیان ہوتا ہے ، یہ نفسانی خواہشات سے مُتعلّق ہوتے ہیں اور عادت کے مُطابِق جاری ہوتے ہیں۔ یہ گناہ انتہائی خفیف اور مُعافی کے زیادہ قریب ہوتے ہیں۔ یہ گناہ دو۲طرح کے ہیں یعنی صغیرہ و کبیرہ۔ کبیرہ سے مُراد وہ گناہ ہیں جن پر نَصّ میں وَعِید مَرْوِی ہو اور ان میں حُدُود واجِب ہوں۔ جبکہ صغیرہ سے مُراد وہ گناہ ہیں جو نظر و فِکْر میں کبیرہ سے دَرَجہ میں کم تَر ہوں۔


اللہ کریم سے دعا ہے اے پیارے اللہ تو ہمیں تمام ہی گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرما اور ہمیں اپنے نیک بندوں میں شمار فرما۔آمین

تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش

دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر


 

 


تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا