نظرانداز کرکے مرکزی مواد پر جائیں

عالمگیر لوگوں سے عالمگیرمقام پر عالمگیر گفتگو

                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                          



عالمگیر لوگوں سے عالمگیرمقام پر عالمگیر گفتگو

ہر آدمی کو ہر لحظہ بے شمار باتیں یا چیزیں شعوری لیکن زیادہ تر تحت الشعوری طورپر متاثر کرتی رہتی ہیں۔ پھر شعوری تاثرات بھی تحت الشعور میں اتر آتے ہیں۔ تحت الشعور انھیں تاثرات کا ایک عالم انتشار ہے۔ ان تاثرات کا ہضم ہونا اسی حالت میں ممکن ہے جب یہ متوازن اور منظم ہو جائیں اور ان سے ہماری داخلی زندگی میں پوری اکائیاں بنیں۔ یہ تنظیم و توازن و سالمیت جہاں تک شعور محض کا تعلق ہے، وجدان کی کارفرمائی سے ہی ممکن ہے۔


ہر آدمی کی داخلی زندگی میں منتشر، غیر منظم، غیر متوازن، ناقص اور ادھورے تاثرات ایک خاموش ہیجان کے موجب ہوتے ہیں۔ اس کی روحانی زندگی میں بدہضمی کا سا عالم رہتا ہے۔ جب روح کو پیٹ کی شکایت ہوگی اور وہ بھی تحت الشعوری طور پر تو زندگی کا توازن، زندگی کا اعتدال، زندگی کا سکون وطمانیت، زندگی کی داخلی شگفتگی، زندگی کے نشاط و فرحت میں فرق آجائے گا۔ زندگی کو یہی داخلی صحت بخشنا درست سمت کا تعین اور حقیقی کامیابی کی جانب پیش رفت ہے ۔ہم شاہرہ زندگی پر گامزن ہوتے ہیں لیکن ہمیں منزل کا تعین نہیں ہوتا۔سہولت اور آسائش ،فرداور افراد کا ایک جمع غفیر ہمارے ارد گرد ہوتاہے لیکن ہم گمنام ،بے لگام اور بے معنی زندگی گزار کرہمیشہ ہمیشہ کے لیے کوچ کرجاتے ہیں ۔


لیکن اس کائنات میں ایسے بھی لوگ بستے ہیں جولمحہ اور ساعت کو بھی ضائع کرنا مناسب نہیں جانتے بلکہ وہ منٹ و سیکنڈ کو پروگرس کی کسوٹی پر تول کر تابندہ مستقبل کی جانب رواں دواں رہتے ہیں اور یوں منزل انکا بھرپور استقبال کرتی ہے ۔وقت ،جگہ اور لوگ سب ہی اس سے نسبت قائم کرنے میں اعزاز جانتے ہیں ۔خیر بات طویل ہوگئی ۔اصل موضوع کی جانب بڑھتے ہیں ۔



قارئین :میں بھی آپکو آج ایسے افراد سے اپنی ایک نشست کے بارے میں بات کروں گا۔جمعہ کا دن تھا میں اپنے تحریر کام ہی میں مصروف تھا کہ کہ موبائل کی بل بجھتی ہے ۔ ایک علم دوست  میرے لیے نہایت ہی محترم شخصیت سر فرید (جوزمانہ ساز بھی،اور کونسلنگ کی دنیا کا متعبر نام بھی ) کی مجھے کال موصول ہوئی ۔قبلہ نے ملاقات اور نشست کا ذکر کیا۔میں نے اپنا آفیشل کام مکمل کیا اور ایڈریس معلوم کیا اور بعد از نماز جمعہ بیان کردہ مقام کی جانب موٹر سائیکل پر سوار منزل کی جانب رواں دواں تھا۔ٹریفک کا ہجوم ،دائیں بائیں پیادہ و سوار انسانوں کی نہ ختم ہونے والی دوڑ کا ایک حصہ میں بھی تھا۔سوچوں میں گم راقم بڑھتا ہی چلا جارہاتھا۔سفر تھا کہ ختم ہونے کو نہ تھا ،شاید اس کی ایک وجہ کافی عرصہ بعد اس طرح بائیک پر طویل سفر کیا۔بائیکیا والے صاحب کے ساتھ دوران سفر باتیں بھی ہوئیں ۔مطلوبہ مقام کے قریب پہنچ کر کال کی ۔جب کال کی تو مجھے فون ریسیو کرنے والے صاحب نے کہاکہ آپ حنفیہ عالمگیر مسجد میں آجائیں ۔میں نے دائیں بائیں نظر گھمائی  تو ٹھیک سامنے ایک مسجد وال نظر آئی ۔مجھے واللہ کچھ انداز ہ نہ تھا کہ شہر کراچی کے دامن میں اتنی وسعت ہے کہ  دینی ایکٹیویٹی کے لیے اس قدر وسیع و عریض اور منظم نظام آئندہ کی پیش بندی کے لیے کوشاں ہے اور ہمیں خبر تک نہیں ۔اس میں ہماری کم مائیگی ہی کا قصور ہے ۔بھلا ہم بھی تو ہر بات سے مطلع نہیں رہتے ۔میں سوچ رہاتھا ایک چھوٹی سی مسجد ہوگی اس کے ساتھ کوئی دفتر وغیرہ بنا ہواہوگا ۔لیکن جیسے ہی میں آگے بڑھا ایک لمحے کے لیے رُکنے پر مجبور ہوگیا۔ایک عالیشان خوبصورت داخلی گیٹ ،اندر کا منظر وسیع و عریض  رقبہ پارکنگ ہیں یہ سب؟ایک لمحہ کے لیے تو میں رُکا ۔سوچنے پر مجبور ہوگیا۔سوچوں و فکروں کے سمندر ٹھاٹھیں ماررہے تھے ۔ہوں نا ہوں ۔یہاں سے کوئی تاریخ ساز لوگ کوئی تاریخ رقم کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔کچھ ہورہاہے اور کچھ اچھا ہی ہورہاہے ۔ماحول کی خاموشی ایک پیغام تھی ۔


ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی

جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا

مین گیٹ  ہی اتنا عالیشان تھا کہ جب اندر داخل ہواتو چند لمحے دائیں بائیں نظر گھمائیں۔ہر سمت ماحول وسعت و فراخی کی چغلی کھارہاتھا۔ہم سوچ رہے تھے کہ  الہی ماجرا کیاہے ۔پیدا پلے بڑھے کراچی میں لیکن یہ رفعت و شان اور انفراسٹرکچر کے نفیس نظارے ہماری آنکھوں سے اوجھل رہے ۔خیر ہم متلاشی نظروں کے ساتھ  آگے بڑھے ایک صاحب سے سرفرید کا معلوم کیا ۔انھوں نے ایک سمت کی جانب اشارہ کیا ہم چل پڑے ۔

آدمی آدمی سے ملتا ہے

دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

 


قارئین:

اچھا اچھا بھلابھلا لگ رہاتھا۔میں ایک درازے سے داخل ہوکر اوپر سیڑھیاں چڑھ کر گیا تو نفیس انسانوں کا ایک جہان سجا ہواتھا۔صاف ستھرے ،ہنستے مسکراتے انسان ایک کمرے میں سیٹؤں پر براجمان  کسی فکری نشست کے ماحول کا منظر پیش کررہے تھے ۔میں نے ماحول کا طائرانہ نظارہ کیا ۔معاشرے کے پڑھے لکھے ،سنجیدہ چہرے ایک دوسرے سے میل جو ل اور بات چیت میں مصروف تھے ۔میری نظر اپنے مطلوبہ شخص یعنی سرفرید کے تعقب میں تھی ۔بالاخر میری ان سے ملاقات ہوئی ۔عظیم الفطرت طبیعت بہترین منٹور ،اسلام دوست انسان نے عمدہ انداز میں ویلکم کیا۔محسوس ہواکمال حسن اخلاق ہی میں ہے ۔

فرشتے سے بڑھ کر ہے انسان بننا

مگر اس میں لگتی ہے محنت زیادہ

خیر پھر ہماری ملاقات علامہ خرم رحمانی صاحب سے کروائی گئی ۔وجیہ انسان اپنے ابتدائی جملوں ہی سے اپنی شخصیت کے لیے عمدہ تاثر ہمارے دل پر چھوڑ چکے تھے ۔نہایت ہی قابل تکریم ،خدمت و عجز کے جذبوں سے سرشار جناب سعید صاحب سے ملاقات ہوئی ۔موصوف سے مل کر اپنائیت کا احساس ہواگویابرسوں سے جان پہچان ہے ۔۔طیب بھائی سے بھی ملاقات ہوئی ۔۔


جب ادارے کے حوالے سے بات چلی تو مجھے یوں لگا جیسے خوابوں کی دنیا میں سفر کررہاہوں اور دل ہی دل میں دعاؤں و التجاؤں میں مسحور ہوں ۔اے کاش!اے کاش!!

لیکن یہاں تو عالمگیر مقام پر عالمگیر لوگ عالمگیر مشن ترتیب دے چکے تھے ۔۔روشنیوں کے شہر شہر کراچی میں قائم حنفیہ عالمگیر مسجد تعمیر کا شاہکار دکھائی دے رہی تھی ۔یہاں صرف مسجد ہی قائم نہیں بلکہ زمانہ ساز و تاریخ ساز افراد کے مخلص کارواں نے ایک جہان آباد کررکھا تھا۔۔حنفیہ عالمگیر مسجد  کے احاطہ کے گردتو معاشرے کی بقااور انسانوں کی اصلاح کے لیے  عمدہ اور قابل تقلید کام اپنی تمام تر تابانیوں کے ساتھ  چہار سمت فہم و آگاہی کی قندیلیں روشن کررہاتھا۔ایک ایسے ماحول میں جہاں  احساس نام کی کوئی چیز نہیں ۔ایک ایسے حال میں جہان انسان مادیت پرست اور مفاد پرست کے کئی خول میں  چھپا ہواحقیقت اور حقانیت سے کوسوں دور ہے ۔


ایسے میں چند مخلص اور بے لوث لوگوں کا بیٹھ جانا اور ایک عظیم مشن کے لیے دامے درمے سخنے کوشش کرنا کسی  کارنامے سے کم نہیں ۔یہاں  علاقے کے افراد کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کے لیے جدید اصولوں پر گامزن ایک اسکول بھی قائم ہے ۔یہی نہیں بلکہ بچیوں کے لیے بھی ادارہ قائم ہے جہاں بچیاں تعلیم حاصل کررہی ہیں ۔

درس نظامی اور شارٹ کوسسز تو گویا اس ادارے کی cause حصہ ہیں ۔رائے عامہ ہموار کرنے کے لیے گاہے گاہے پبلک پروگرامز بھی قائم کیے جاتے ہیں ۔جو کہ ریاستی اداروں کو برانگیختہ کرتے ہیں کہ جو ملک و ملت کے لیے سرگرم عمل ادارے ہیں ان کے ساتھ ریاست کو اور معاشرے کے صاحب ثروت افراد کو اپنا کردار کرنا چاہیے ۔۔۔



سرفرید صاحب ،علامہ خرم رحمانی صاحب ،سعید صاحب اور دیگر رفقاء سے مل کر یقین کریں مجھے محسوس ہوا کہ مذہبی طبقے کے متعلق جو ایک فرسودہ رائے قائم ہے کہ ملک کی بقائ اور معاشرے کے ارتقاء میں ان کا کردار نہیں ۔حنفیہ عالمگیر مسجد اور اس سے ملحق قائم اداروں کی ساکھ اور کام دیکھ کر میراسینہ چوڑا ہوگیا اور اب میں نجی محافل و پروگرامز میں اس کو پوئنٹ آوٹ کرتاہوں کہ عالمگیر مسجد میں عالمگیر لوگ عالمگیر مشن لیے گامزن منزل ہیں ۔آپ بھی ان کے رفیق سفر بنیں ۔

جو طوفانوں میں پلتے جا رہے ہیں

وہی دنیا بدلتے جا رہے ہیں


خیر بات طویل ہوگئی ۔قارئین میرا آپکو مشورہ ہے کبھی وقت کے دامن میں وسعت ہوتو کراچی میں قائم عالیشان حنفیہ عالمگیر مسجد کا وزٹ ضرور کریں ۔اگر ممکن ہوتو ان کے مشن اور نظریہ کو سرکی آنکھوں سے ملاحظہ کرکے دل و دماغ کی جانب سے  ملنے والے پیغام پر غور کرلیجئے گا۔مجھے امید ہے کہ آپ کہیں گے کہ ہمارے ملک اور معاشرے میں اسقدر بے لوث لوگ اور اس قدر تاریخ ساز کام کررہے ہیں ۔


ہمیشہ سلامت رہیں ۔یہ تحریر  حنفیہ عالمگیر مسجد کی انتظامیہ اور  قائم اداروں کے سرپرستوں کے نام جو قابل تحسین ہی نہیں قابل تقلید بھی ہیں ۔

اب ہوائیں ہی کریں گی روشنی کا فیصلہ

جس دئیے میں جان ہوگی وہ دیا رہ جائے گا





 

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟

بچو ں کو سبق کیسے یادکروائیں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (دوٹھلہ نکیال آزادکشمیر) ہم تو اپنی ز ندگی گزار چکے ۔اب ہماری ہر خواہش اور خوشی کا تعلق ہماری اولاد سے ہے ۔ہم چاہتے ہیں کہ ہماری اولاد بہترین تعلیم حاصل کرے ۔اچھے عہدوں پر فائز ہو۔ترقی و عروج ان کا مقدر ہو۔جو ادھورے خواب رہ گئے وہ اب ہماری اولاد پوراکرے ۔یہ ہماراعمومی مزاج ہے ۔ بچوں کو  نشے سے کیسے بچائیں ؟ قارئین:ان خواہشوں کے پوراکرنے کے لیےایک پورا journey ہے ۔ایک طویل محنت کا سفرہے ۔جس میں والدین نے ثابت قدمی سے چلتےرہناہے ۔اس سفرمیں ابتدائی طورپر بچوں کو اسکول یامدرسہ انرول کرواناپھر اسکول و مدرسہ سے ملنے والی مشقوں وکام کو مکمل کرناہوتاہے ۔بچوں کو وہ سبق یادکرناہوتاہے ۔اب سوال یہ ہے کہ بچوں کو سبق کیسے یادکروائیں؟تاکہ وہ اچھے سے سبق یاد یادکرکے تعلیم کے میدان میں بہتر نتائج دے سکے ۔آئیے ہم جانتے ہیں کہ ہم بچوں کو کیسے سبق یاد کروائیں  ۔ v   ۔ پیارے قارئین ۔بچے کو سبق یاد کرانے کا بہترین وقت وہ ہوتا ہے جب وہ تھکا ہوا نہ ہو اور نہ ہی کسی پریشانی میں مبتلا ہو۔ خوشی اور تفریح کے موڈ میں بچہ ہر چیز آسانی سے یاد کرلیتا

درس نظامی اور مستقبل

درس نظامی کا مستقبل تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش میرے ابوڈیفنس فورس میں تھے ہم بھی اپنے ابو کے ساتھ ہی ان بیرکس میں رہتے تھے ۔یعنی ایک فوجی ماحول میں ہمارا بچپن گزرا۔جہاں وقت کی بہت اہمیت تھی ۔جس کا انداز ہ آپ اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ ابو نے  کھیلنے کا وقت دیا تھا کہ پانچ بجے تک گھر پہنچنا ہے ۔تو اس پانچ سے مراد پانچ بجے ہیں پانچ بجکر 5منٹ بھی نہیں ہیں ۔اگر ایسا ہوتاتو ہمیں جواب دینا ،وضاحت دینا پڑتی ۔نفاست و نظافت   کا بہت خیال رکھاجاتا۔کپڑے کیسے استری ہوتے ہیں ۔بازو کی کف کیسے رکھتے ہیں ۔چلتے وقت سڑک کی بائیں جانب چلتے ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ۔یعنی ایسے اصول پسند ماحول میں شروع شروع میں تو یہ سب سزامحسوس ہوتی تھی لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عادی ہوگئے ۔پھر جب میں نے میٹرک کی تو اللہ کے فضل سے میراشمار پڑھاکو بچوں میں ہوتاتھا میٹرک میں میرا A1 گریڈ آگیا۔جوکہ خوشی کی بات تھی ۔گھر والے مطمئن تھے ۔لیکن ابو جان نے فقط اتنا کہا کہ اس سے بھی بہتر کوشش کرتے تو نیول ایجوکیشن ٹرسٹ میں ٹاپ بھی کرسکتے تھے ۔لیکن میرے ابو ایک عظیم مفکر ،عظیم مدبر اور زمانہ ساز انسان تھے ۔جن کی باریک بینی اور دواندیشی کا ادراک  

طلبا میٹرک کے بعد کیا کریں ؟

   طلبامیٹرک  کے بعد کیا کریں؟ تحریر:ڈاکٹرظہوراحمددانش (ایم عربی /سلامیات،ایم اے ماس کمیونیکیشن) جب ہم پرائمری کلاس  میں تھے تو مڈل والوں کو دیکھ دیکھ کر سوچتے تھے کہ کب ہم مڈل میں جائیں گے ۔پھر مڈل میں پہنچ کر نویں و دسویں کے طلبا کو دیکھ کر من کرتاتھا ہم بھی میٹر ک میں جائیں ۔اسکول میں ہمارابھی دوسروں پر رُعب چلے ۔جونئیر کو ہم بھی ڈانٹ ڈپٹ کریں ۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ عمومی خیالات ہیں جو دورِ طالب علمی میں ذہنوں میں آتے اور پھر مسافر پرندے کی طرح واپس چلے جاتے ہیں ۔لیکن وقت اپنی رفتارسے گز رتاچلاگیا اور پھر ہم ایک عملی زندگی میں داخل ہوگئے اور پلٹ کر دیکھا تو بہت سا فاصلہ طے کرچکے تھے ہم ۔بچپن ماضی کے دھندلکوں میں تھوڑا تھوڑادکھائی دیتاہے ۔کچھ زیادہ واضح نہیں ۔خیر بات طویل ہوجائے گی ۔کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ ہم اسکول جارہے ہوتے ہیں لیکن بدقسمتی سے کیرئیر کونسلنگ کی کمی اور پیرنٹنگ کے فقدان کی وجہ سے کسی منزل کسی گول کسی اسکوپ کی جانب ہماری کوئی خاص رہنمائی نہیں ہوتی ۔بلکہ ایک ہجوم کی طرح ہم بھی اپنی تعلیم اور کیرئیر کے فیصلے کررہے ہوتے ہیں ۔خیر اب تو بہت بہتری آچکی ہے ۔طلبا